اوقاف کا تحفظ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ!

عبدالرحمن الخبیر بستوی (بنگلور کرناٹک)
رکن تاسیسی: مرکز تحفظ اسلام ہند

حکومت کی طرف سے شریعت میں مداخلت اور عائلی قوانین میں تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل بھی مسلمانوں کے عائلی قوانین یعنی نکاح،وراثت، طلاق ثلاثہ، اور یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code) کے نفاذ کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں، اور ان موضوع پر کافی عرصے سے بحث بھی چل رہی ہے، اب حالیہ مسئلہ اوقاف جائداد پر ہے اور حکومت کی نیت بالکل صاف نہیں ہے، حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، جس کی شقیں اوقاف جائدادوں کیلئے خطرناک ہے، حکومت ہمارے مدارس، مساجد، خانقاہیں، درگاہیں اور قبرستان اسی طرح آستانوں سے ہمارے اختیارات چھین کر اس پر اپنا تسلط چاہتی ہے یا یوں کہئے کہ ہڑپنا اور قبضہ کرنا چاہتی ہے، جو کہ مسلمانوں کے لئے نہایت ہی مشکل اور صبرآزما وقت ہے، الحمداللہ ہمیشہ کی طرح تمام مسالک و مکاتب فکر کی مشترکہ و متحدہ جماعت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ظالمانہ و جابرانہ قوتوں کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹ کر بڑے ہی مضبوطی کے ساتھ آواز بلند کررہی ہے اور جب بھی حکومت یا کوئی اور ادارہ شریعت میں مداخلت کی بات کرتا ہے تو بورڈ مسلمانوں کا مؤقف پیش کرتے ہوئے ملت کی طرف سے جد وجہد اور بہترین نمائندگی کرتا ہے، بورڈ تحفظ اوقاف کے تعلق سے حکومت سے عمومی و خصوصی طور پر گفتگو کررہا ہے، ریاستی اعتبار سے بھی بھرپور کوششیں چل رہی ہیں، حال ہی میں مرکزی حکومت کی اتحادی پارٹی بہار کے چیف منسٹر اور جنتا دل یونائٹیڈ کے صدرنتیش کمار سے اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹر تلگو دیشم پارٹی کے سربراہ چندر بابو نائیڈو سے ملاقات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ اس خطرناک بل پر مرکزی حکومت کا ساتھ نہ دے کر حق اور انصاف کے تحت مسلمانوں کا ساتھ دیں تاکہ یہ بل مرکزی حکومت کسی طرح منظور کرنے میں ناکام ہوسکے، اسی طرح دیگر کئی صوبوں کے چیف منسٹروں سے بھی ملاقات کرکے بھرپور کوشش جاری ہے، چونکہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری ملک میں احتجاج کرنے، آواز اٹھانے اور اپنا حق حاصل کرنے کے کئی سارے طریقے ہیں مثلاً بل کے خلاف حکومت میں بیٹھے لوگوں کو میمورنڈم پیش کرنا، سڑکوں پر اتر کر احتجاج درج کرنا، دھرنا دینا، بھوک ہڑتال کرنا، ریلی یا مارچ نکالنا اسی کے ساتھ ساتھ جلسہ جلوس اور کانفرنس کے ذریعے حکومت کو یہ بتانا کہ آپ جس بل اور قانون لانے کی بات کررہے ہیں مسلمان اس کی لاکھوں کی تعداد میں مخالفت کررہے ہیں، جمہوری ملک میں مظاہرہ کرنا عوام کا بنیادی حق ہے اور جمہوریت کی اصل روح کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ بھی ہے، مظاہرہ عوام کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی آواز حکومتی اداروں تک پہنچا سکیں، اپنی رائے کا اظہار کر سکیں، اور مختلف معاملات پر اپنی تشویش یا مطالبات پیش کر سکیں، جو لوگ منفی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلسوں، کانفرنسوں اور مظاہروں سے کچھ نہیں ہوتا یاد رکھیں! کہ اس ملک میں بھیڑ کے ساتھ ساتھ سر کا بھی شمار ہوتا ہے اور ماضی میں ایسے کئی بل اور قانون پر حکومت نے غور کیا ہے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی ہے، اسی کے پیش نظر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے 29ویں اجلاس کے موقع پر ”تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف” کانفرنس منعقد کررہا ہے اور یہ پروگرام ریاست کرناٹک کی راجدھانی شہر گلستان (قدوس صاحب عیدگاہ، ملرس روڈ) بنگلور میں بتاریخ 24 نومبر بروز اتوار بوقت شام بعد نماز عصر طئے پایا ہے، جس میں ملک بھر سے بورڈ سے منسلک حضراتِ اکابرین، عمائدین، وکلاء، سیاستدان اور مدعوین خصوصی تشریف لائیں گے اسی طرح پوری ریاست کے الگ الگ اضلاع سے بڑی تعداد میں شرکت کو یقینی بنانے کیلئے محنتیں چل رہی ہیں، شہر بنگلور میں مختلف زون کے ساتھ ساتھ ریاست کے ضلع اور تعلقہ جات میں جلسہ کرکے ہونے والے تاریخی و انقلابی کانفرنس میں شرکت اور کامیابی کی اپیل کی جا رہی ہے، آپ حضرات سے گزارش ہیکہ آپ بھی اس اجلاس کی کامیابی کیلئے دعا فرماتے ہوئے شرکت فرمائیں اور اجلاس کو کامیاب بنائیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

"دھاراوی پروجیکٹ پر سیاست گرم: راہل گاندھی نے کہا یہ الیکشن ارب پتیوں اور غریبوں کے بیچ

دہلی میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف مہم یا اگلے انتخابات کی تیاری !