حکومتوں کی جانب سے منمانے طریقے سے لوگوں کی جائدادوں پر چلنے والے بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی تھ مگر اس روک اور پابندی کے باوجود اتر پردیش سمیت دیگر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں مسلسل بلڈوزر کارروائی جاری تھی جس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی بھی دائر ہے۔ آج بدھ کو سپریم کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کو بلڈوزر کی کارروائی پر پھٹکار لگائی ہے۔ دراصل معاملہ یوپی کے مہاراج گنج ضلع کا ہے، جہاں سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے مکانات کو گرا دیا گیا۔ اس معاملے میں اچانک نوٹس لیا گیا، جس پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یوپی حکومت اس شخص کو 25 لاکھ روپے کا معاوضہ دے جس کا گھر منہدم کیا گیا ہے۔
سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ وہ 3.7 مربع میٹر کی تجاوزات تھی۔ ہم تو سن رہے ہیں لیکن کوئی سرٹیفکیٹ نہیں دے رہے ہیں لیکن آپ لوگوں کے گھر اس طرح کیسے گرا سکتے ہیں؟ یہ مطلق العنانی ہے، کسی کے گھر میں داخل ہونا۔
عدالت نے کہا کہ یہ مکمل طور پر من مانی ہے، مناسب طریقہ کار کہاں اپنایا گیا ہے۔ ہمارے پاس حلف نامہ موجود ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا، آپ نے صرف سائٹ پر جا کر لوگوں کو آگاہ کیا۔ ہم اس معاملے میں تعزیری معاوضہ پیش کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ کیا یہ انصاف کا مقصد پورا کرے گا؟
درخواست گزار کے وکیل نے معاملے کی تحقیقات کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے ریاستی حکومت کے وکیل سے پوچھا کہ کتنے گھر گرائے گئے؟ ریاستی وکیل نے کہا کہ 123 غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ جسٹس جے بی پارڈی والا نے کہا کہ آپ کے کہنے کی کیا بنیاد ہے کہ یہ غیر قانونی تھا، آپ نے 1960 سے کیا کیا، پچھلے 50 سال سے کیا کر رہے تھے، متکبرریاست کو این ایچ آر سی کے احکامات کا کچھ احترام کرنا پڑے گا۔ ، آپ خاموش بیٹھے ہیں اور ایک افسر کی کارروائی کا تحفظ کر رہے ہیں ۔
جسٹس جے بی پاردی والا نے یوپی حکومت کے وکیل سے کہا کہ کل رات آپ کے افسر نے سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے پیلے نشان والے علاقے کو گرا دیا، اگلی صبح آپ بلڈوزر لے کر آئے۔ یہ ایک ٹیک اوور کی طرح ہے، آپ بلڈوزر لے کر آتے اور گھر کو گراتے ہیں، آپ گھر والوں کو گھر خالی کرنے کا وقت بھی نہیں دیتے۔ چوڑا کرنا محض ایک بہانہ تھا۔
چیف جسٹس نے حکم میں کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ریاست یوپی نےاین ایچ کی اصل چوڑائی دکھانے کے لیے کوئی دستاویز پیش نہیں کی ہے۔ دوسرا، یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی جسمانی دستاویز موجود نہیں ہے کہ تجاوزات کی نشاندہی کرنے کے لیے کوئی تفتیش کی گئی ہو۔ تیسرا، یہ ظاہر کرنے کے لیے کوئی مواد موجود نہیں ہے کہ اس منصوبے کے لیے زمین حاصل کی گئی تھی۔