محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل
زیمبالی اسٹیٹ میں قیام کے دوران میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ اللہ کے نیک بندے کس قدر چھوٹی چھوٹی باتوں کا لحاظ کرتے ہیں، اس موقع پر میرے مخدوم ومربی مولانا عبد اللہ حسنی مرحوم بہت یاد آئے جو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بڑے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے ہیں، یہی علامت ہے ان کی بڑائی کی، جب کہ چھوٹے لوگوں کو بڑی بڑی چیزیں بھی نظر نہیں آتیں، مثال دے کر فرماتے گویا ایک طرف ترقی یافتہ ممالک کے ہوائی اڈے کا رن وے کہ جس پر چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نظر آجائیں تو دوسری طرف یہاں کی سڑکیں کہ جن پر بنے گڈھے بھی بعض اوقات نگاہوں کی دست رس میں نہیں آپاتے۔
خیر، واقعہ یہ پیش آیا کہ زمبالی کے جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہاں شام کے وقت جب ہم واپس پہنچے تو دنیا بدلی ہوئی تھی، کھانے پینے کی چیزیں شکر، شربت وغیرہ سب کچھ گرا پڑا، برتن اوندھے، گویا کوئی مخلوق آکر یہ کارنامہ انجام دے گئی اور اپنے مطلب کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرگئی، اندازہ ہوا کہ یقینا یہ حرکت بندروں کی ہوگی۔ مگر تعجب اس پر تھا کہ کس طرح وہ اندر داخل ہوئے جب کہ ہر دروازہ بند اور اس پر قفل چڑھے ہوئے، ہاں ایک کھڑکی کھلی تھی تو یقین ہوا کہ ہو نہ ہو یہی ان کا باب الداخلہ ٹھہرا۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شکایت کی جائے مگر پانچ بجے کے بعد ریسیپشن آفس بند ہوجاتا ہے تو جھنجھلاہٹ بہت ہوئی اور غصہ بھی آیا کہ اس بڑے ہوٹل میں کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
مگر کمال تو مولانا موسیٰ نے کیا کہ عمر رسیدہ بھی اور عظیم المرتبت بھی، لیکن کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے ہر چیز صاف کی، اور ہمیں پتہ بھی نہ چلنے دیا۔ بعد میں جب ہم نے دیکھا تو بہت تعجب بھی ہوا اور قدر بھی آئی، ہم نے عرض کیا کہ مولانا! آپ نے خواہ مخواہ زحمت کی، یہاں کسی سے کہہ دیتے تو وہ لوگ صاف کردیتے، تو مولانا نے فرمایا کہ اس میں کون سی بڑی بات ہے، پانچ منٹ بھی تو نہیں لگے، اور دوسری بات یہ کہ اگر ہم ہوٹل کی انتظامیہ سے اس چھوٹی سی چیز کی شکایت کردیتے تو بے چارے ملازموں کی جان پر بن آتی اور ان کی ملازمت خطرے میں پڑجاتی، اور ان کے ذہن میں بھی ہم مسلمانوں کے تعلق سے پتہ نہیں کیا شبیہ ابھرتی! بہت ممکن ہے ہم میں سے کسی نے صبح کے وقت کھڑکی کھولی ہو اور اسے بند کرنا بھول گیا ہو۔
اس سے ایک طرف مولانا کا تواضع اور جذبۂ فنائیت ظاہر ہوا تو دوسری طرف ان کے اندر پوشیدہ خدمت کا جذبہ، رفیقوں کی رفاقت کا لحاظ، خادموں اور نوکروں کو ممکنہ خطرات سے بچانے کی فکر۔
مولانا زندہ دل بھی ہیں، باغ وبہار شخصیت کے مالک بھی، روحانی اعتبار سے بڑے مقام پر ہونے کے باوجود چھوٹوں کے ساتھ چھوٹے بن کر رہنے والے۔
عمر کی سات دہائیاں مکمل کرنے کے باوجود ماشاء اللہ چاق وچوبند ہیں، ہفتے بھر میں دو ڈھائی ہزار کیلومیٹر کے سفر میں خود ڈرائیونگ کی، اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔
ڈربن کا آخری ناشتہ مولانا موسیٰ کے مرحوم دوست کے بیٹے حافظ احمد کے یہاں ہوا۔ ان کے مکان کا جائے وقوع بڑا خوب صورت اور دل آویز ہے، پہاڑ کے اوپر ایک خوب صورت محلے میں دیدہ زیب عمارتوں اور شاداب اور دل فریب کہساروں کے بیچوں بیچ گویا شیش محل ہو۔
یہاں ناشتے سے فارغ ہوکر ہمیں واپس جوہانسبرگ کے لیے روانہ ہونا ہے، راستے میں کئی ایک مدارس کی زیارت بھی کرنی ہے، سو ہم نکل پڑے اور اگلی ساعتوں میں دار العلوم نعیمیہ، کیمپا ڈاؤن پہنچ گئے، نام تو بہت پہلے سے سن رکھا تھا اور یہاں ہمارے بورونڈی کے کرم فرما مولانا خلیل کے دست راست مفتی امین پالن پوری کے دو صاحب زادے بھی زیر تعلیم ہیں، اس لیے بھی خواہش اس کی زیارت کی تھی، پہاڑوں کے اوپر دل فریب نظاروں کے بیچ میں اس مدرسے کی عمارتیں واقعی دامن دل کو کھینچ لیتی ہیں، آج کچھ زیادہ ہی رونق اور چہل پہل تھی، ہوائیں بھی ترانے گارہی تھیں، کیوں نہ ہو کہ یہاں دو چار دنوں میں دعوت وتبلیغ کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہونے والا تھا، جس میں افریقی ممالک کا جم غفیر جمع ہونے والا تھا، مختلف جماعتیں یہاں اجتماع کی تیاریوں میں بھی سرگرم تھیں۔
مدرسے میں مختلف ممالک کے تقریبا 258 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مہتمم مولانا زکریا دیسائی اور ناظم تعلیمات مفتی محمد کڈوا ہیں۔ مدرسے کا تعلیمی وتربیتی نظام قابل رشک ہے۔ مفتی صاحب شریف اور متواضع ہیں، اپنی ساری توانائیاں مدرسے کی ترقی میں لگارہے ہیں، جس کی بنا پر جنوبی افریقہ میں اس مدرسے کی ایک شناخت بن چکی ہے۔ نصف گھنٹے کی ملاقات رہی اور سفر کے مقاصد اور تعلیمی نصاب وغیرہ کے متعلق تبادلۂ خیال ہوا، بھٹکل کا نام سن کر مفتی صاحب نے فرمایا کہ بھٹکل سے قریب شہر اڈپی میں آپ سن چوراسی میں تراویح سنا چکے ہیں۔
(سفرنامہ جنوبی افریقہ 12)
(سخنؔ حجازی۔ کیمپا ڈاؤن سے سدارہ کے راستے میں۔ چودہ اکتوبر۔ 2024)