بہرائچ فرقہ وارانہ فساد : مسلمانوں کی یکطرفہ گرفتاریاں ، بی جے پی رہنما کے نشانہ پر مسلم صحافی

 ضلع کی تحصیل مہسی کے مہراج گنج میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کے تیسرے دن متاثرہ علااقوں میں سناٹا چھایا رہا لیکن اس دوران یکطرفہ گرفتاریوں کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں۔ پولیس کی بھاری تعداد تعینات ہونے کی وجہ سے منگل کو کوئی   ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن  اب تک شر پسند افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے سے مقامی مسلمانوں اور انصاف پسند افراد میں شدید ناراضگی پائی جارہی ہے۔ دریں اثناء پولیس کی جانب سے یکطرفہ طور پر گرفتاریوں کی وجہ سے علاقے کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پایا جارہا ہے۔ حالانکہ پیر کی دیر رات ایک مرتبہ پھر شرپسندوں نے مسلم علاقے میں توڑ پھوڑ اور آتشزنی کی کوشش کی تھی لیکن زائد فورس طلب کرکے انہیں منتشر کردیا گیا۔ مختلف نیوز پورٹلس کی رپورٹ کے مطابق شرپسند افراد نے رات دیر گئے نکوا گاؤں میں مذہبی مقام پر توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگانے کی بھی کوشش کی تاہم پولیس کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر صورتحال پر قابو کرلیا۔ تشدد اور کشیدہ صورتحال کے درمیان دیر رات گئے تک مختلف مقامات پر پولیس فورس تعینات تھی  اس کے بعد بھی شرپسندوں نے پیر کی شب تقریباً ساڑھے ۱۱؍ بجے نکوا گاؤں میں آگ لگا دی۔ نکوا گاؤں کے پردھان نے بتایا کہ ۱۰؍ سے ۲۰؍ افراد آئے ، انہوں نے شر انگیز نعرے بازی کی اور پھر کچھ جھوپڑوں کو آگ لگا دی۔ آتشزدگی کے بعد پولیس اور پی اے سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور حالات کو قابو میں کیا۔ پولیس کو دیکھتے ہی شرپسند موقع سے فرار ہو گئے۔
  دریں اثناء ضلع انتظامیہ اور پولیس نے مہسی تحصیل کے مہراج گنج میں آتشزنی کے واقعات کے مقامات پر صفائی کراتے ہوئے تمام نشانات کو مٹانے کی کوشش کی نیز آتشزدگی کا شکار ہونے والی گاڑیوں  اور دیگر اشیاء کو بھی جے سی بی کی مدد سے ہٹوایاگیا لیکن مہراج گنج  اور  بہرائچ شہر میں ماحول بگاڑنے والے شرپسندوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی خبر لکھے جانے تک نہیں کی گئی تھی۔فساد کے بعد مہراج گنج سمیت ضلع کے مختلف مقامات پر کشیدہ صورت حال کو مد نظر رکھتےہوئے منگل کو اے ڈی جی اور ایس ٹی ایف چیف امیتابھ یش نے حفاظتی کمان سنبھال رکھی رتھی  اور ایس ٹی ایف کی چار ٹیمیں بھی وہاں تعینات ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے کرفیو جیسی صورتحال سے لوگوں کو ایک گھنٹے کی ہی رعایت دی گئی جس میں لوگوں نے جلدی جلدی روزمرہ کی اشیاء خرید کر اپنے گھروں کا راستہ لیا ۔

 اتر پردیش پولیس اور انتظامیہ جہاں درگا مورتی وسرجن جلوس کے دوران بہرائچ میں بھڑکے فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کی کوشش میں تھی، وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ایم ایل اے نے سوشل میڈیا پر ایک اور فرقہ وارانہ آگ بھڑکا دی۔ انہوں نے مسلمان صحافیوں کی ایک فہرست شیئر کی، اور ان کی کوریج کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا۔

گزشتہ 13 اکتوبر کی شام کو بہرائچ کی مہسی تحصیل کے مہاراج گنج علاقے میں بھڑکے فرقہ وارانہ تشدد میں گوپال مشرا نامی ایک ہندو نوجوان کی  گولی لگنے سے موت ہوگئی  اور کئی دیگر زخمی ہو گئے ۔

ان واقعات کے درمیان دیوریا سے بی جے پی ایم ایل اے شلبھ منی ترپاٹھی، جو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سابق میڈیا صلاح کار ہیں، نے ایکس  پر پوسٹ کیا ، ‘بہرائچ سے خبریں بھیجنے والے صحافیوں کے نام پڑھیے، آپ سمجھ جائیں گے کہ خبریں کتنی غیرجانبداراور سچی ہیں۔یو ٹیوبرس کا ایک گروپ بھی لگا ہوا ہے۔ پورا سسٹم  دنگائیوں کو بچانے اور جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہے۔’

ترپاٹھی، جو بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے خود ایک ٹیلی ویژن صحافی تھے، نے اپنی  پوسٹ کے ساتھ 13 صحافیوں کی فہرست منسلک کی۔ تمام صحافی مسلمان ہیں۔ انہوں نےان میڈیا گروپوں کے نام بھی بتائے ہیں جن سے یہ  صحافی وابستہ ہیں۔ این ڈی ٹی وی، پی ٹی آئی، انڈیا ٹی وی، اے این آئی، نیوز 24، بھاسکر ٹی وی اور بھارت سماچار سے وابستہ صحافی اس فہرست میں شامل تھے۔ جبکہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سمیت کئی دیگر صحافی ضلع کے واقعات کی رپورٹنگ کر رہے ہیں، ترپاٹھی نے اپنی پوسٹ میں صرف مسلمان صحافیوں کا نام لیا ہے۔
  دریں اثناءبہرائچ تشدد میں گولی کا نشانہ بننے والے نوجوان رام گوپال مشرا کے اہل خانہ نےلکھنؤ میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ نے انہیں ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ۔ ملاقات کے دوران مہسی کے بی جے پی ایم ایل اے سریشور سنگھ بھی موجود تھے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ نے مہلوک رام گوپال مشرا کے کنبہ کو ۱۰؍ لاکھ روپےکی مالی امداد، رہائش گاہ کے ساتھ’ انتودیہ کارڈ‘ بنانے کی ہدایات اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات د ئیے ہیں۔وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں مہسی کے ایم ایل اے سریشور سنگھ کےعلاوہ مہلوک رام گوپال مشرا کے والدین اور اس کی بیوہ شامل تھی۔ ملاقات کے بعد لواحقین کی مدد کیلئےایس ڈی ایم اکھلیش سنگھ، ڈی ڈی او راجکمار اور دیگر افسران مہلوک کے گاؤں پہنچے۔افسران نے متاثرہ خاندان کو  ۱۰؍اکھ رو پے کا  چیک  اور وزیر اعلیٰ رہائش گاہ اسکیم کی منظوری کا خط دیا۔اس کے ساتھ ہی ’ انتودیہ کارڈ’ آیوشمان کارڈسمیت تمام سرکاری اسکیموں کے تحت فائدہ پہنچانےکی یقین دہانی کرائی۔ واضح رہے کہ یہ وہی رام گوپال مشرا ہے جس نے مسلم فیملی کے گھر پر زبردستی  چڑھ کر سبزپرچم اتار دیا تھا اور بھگوا پرچم نصب کردیا تھا اور اسی دوران گولی کا شکار ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق بہرائچ تشدد کے دوران ۵۰؍ سے زائد گھروں میں توڑ پھوڑ اور آتشزنی کی گئی ہے۔ ان گھروں میں ایک بھی شخص موجود نہیں ہے۔ پولیس نے ہردی اور مہسی کے  ۲۰؍ کلومیٹر کے دائرے میں گشت بڑھا دیا ہے۔

«
»

ادارہ ادبِ أطفال بھٹکل کی جانب سے بروز جمعہ منعقد ہونے جارہا ہے ایک اہم پروگرام : ناظم ندوۃ العلماء لکھنو کریں گے شرکت

وقف ترمیمی بل پر دو دنوں میں دوسری بار اپوزیشن اراکین کا احتجاجاً واک آؤٹ