وحشیانہ بربریت کے خلاف فلسطینیوں کے صبر واستقلال کا ایک سال مکمل

ظلم و تشدد کا طوفان کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو فتح اللہ والوں کی ہی ہوگی

اکیسویں صدی کا یہ سب سے المناک سانحہ ہے کہ فلسطین میں گز شتہ ایک سال سے اسرائیل کی دہشت گردی کا ننگا ناچ جاری ہے۔8 اکتوبر 2023کو اسرائیل نے غزہ پر یہ کہتے ہوئے فضائی حملے شروع کر دیے تھےکہ وہ حماس کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کا بدلہ لے رہا ہے ۔اس کی ان سفاکانہ کارستانیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے بلکہ ان میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ اب یہ جنگ فلسطین سے نکل کر لبنان، ایران اور عراق تک پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل کے ان وحشیانہ حملوں کے نتیجہ میں غزہ کا پورا علاقہ ایک ہولناک منظر پیش کر رہا ہے۔ہر طرف لاشوں کے انبار دکھائی دے رہے ہیں۔ جدہ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار "عرب نیوز” کی 8 جولائی 2024کی خبر نے دل و دماغ کو جھنجوڑ کررکھ دیا ہے۔ عرب نیوز نے لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدہ "لانسیٹ”کے حوالے سے یہ خبر شائع کی کہ غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کے نتیجہ میں اب تک ایک لاکھ 86ہزار فلسطینیوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ لانسیٹ ایک مستند اور معتبر علمی و تحقیقی جریدہ ہے ۔ اس نے پوری تحقیق کے بعد یہ اعداد و شمار پیش کیے ہیں اسے جھٹلاناممکن نہیں ہے۔ ایک لاکھ 86ہزار اموات کی تفصیل بتاتے ہوئے اس جریدہ نے یہ وضاحت کی کہ جنگ میں ہلاکتیں وہ نہیں ہوتیں جو صرف دشمن کے حملے کے زد میں آکر ہوتی ہیں، بلکہ ان اموات کو بھی شمار کیا جانا چاہیے جو جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے کئی دواخانے ، اسکولس اور رہائشی علاقے بھی تباہ و برباد ہوئے ہیں اور اس میں انسانی جانیں بھی گئی ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت اب بھی بہ دستور جاری ہے۔ اب بھی وہ پوری ڈھٹائی سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں لگا ہوا ہے۔ معصوم بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کے سامنے جنگ بندی کی تمام بین الاقوامی کوششیں بے فیض ثابت ہو رہی ہیں۔ غزہ کی غیر انسانی صورت حال اسرائیلی حکومت کے سیاہ مجرمانہ ریکارڈ پر ایک اور شرمناک داغ ہے۔ اس سارے خوفناک انسانی بحران میں دنیا کی نام نہاد اور بالخصوص امریکی حکومت کا رول ناقابل معافی ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی نے ہی اسرائیل کو اتنی طاقت بخشی کہ وہ فلسطینیوں پر مسلسل یلغار کر رہا ہے۔ اسرائیل ایک لاکھ 86 ہزار فلسطینیوں کا قاتل اور جنگی مجرم ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو اس کی پشت پر کھڑی ہیں۔ یہ دراصل وہ سامراجی طاقتیں ہیں جو نہیں چاہتی ہیں کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر اپنا ایک آزاد ملک قائم کر سکیں۔ یہی وہ سامراجی طاقتیں تھیں جنہوں نے ایک سازش کے تحت ایک سوسال پہلے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسایا تھا۔ برطانوی حکومت نے اپنے مفاد کے خاطر معاہدہ بالفور کے ذریعہ 1917میں یہودیوں کو تیقن دیا تھا کہ وہ انہیں عربوں کی زمین پرقبضہ دلائے گا۔ چناچہ اسی معاہدہ کی بنیاد پر 17 مئی 1948 کو ایک غیر قانونی مملکت اسرائیل کے نام سے فلسطین میں قائم کی گئی۔ اسی وقت سے فلسطینیوں پر اسرائیل مظالم ڈھا رہا ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ سرائیل عربوں اور بالخصوص فلسطینیوں کا احسان مند ہوتا ہے کہ انہوں نے صدیوں سے بھٹکتی ہوئی یہودی قوم کو جائے پناہ دی۔ دنیا کاکوئی ملک انہیں اپنے ملک میں بسانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہ عربوں کی انسانیت دوستی تھی کہ انہوں نے یہودیوں کو اپنے ملک میں بسنے کا موقع دیا۔ اسرائیل عربوں کے اس عظیم احسان کا بدلہ اپنے ان درندگی پر مبنی جارحانہ حملوں کے ذریعہ دے رہا ہے۔
فلسطین میں خون آشام تباہی کو دنیا مسلسل ایک سال سے دیکھ رہی ہے۔اس ایک سال کے دوران ہزاروں ٹن بموں کی بارش غزہ اور اس کے اطراف ہوئی ہے۔ ان دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فلسطینی عوام کی جہاں جانیں جا رہی ہیں وہیں انہیں ناقابل بیان تکالیف سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے۔ دواخانوں میں دوائیں ختم ہو چکی ہیں اس سے زخمیوں اور دیگر مریضوں کا علاج ممکن نہ رہا۔ اسکولس خاک کا ڈھیر بن گئے ہیں۔بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو گئے ہیں۔ مکانات اور دکانات پر بمباری کرکے فلسطینیوں کو زیر آسمان رہنے پر مجبورکر دیا گیا ہے۔ بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور نہتے شہریوں پر بم برساکرغاصب اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ پورے فلسطین سے فلسطیینوں کو نقل مکانی پر مجبور کردے۔22لاکھ فلسطینیوں کی غزہ سے منتقلی ایک خطرناک انسانی المیہ ثابت ہوگی۔ لیکن صیہونی طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا ہوجائے تاکہ اسرائیل پورے فلسطین پر اپنا قبضہ جماسکے۔ صیہونی غاصب مملکت اپنے قیام کے اولین دور سے ہی "عظیم تر اسرائیل "کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اسی خوفناک خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے اسرائیل ، فلسطین میں آگ و خون
کایہ شرمناک کھیل کھیلتا ہے۔ اس مرتبہ اس کے ظلم کے داستان طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ 8 اکتوبر 2023سے کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ اسرائیل نے غزہ پر اپنی بربریت کا بد ترین مظاہرہ نہ کیا ہو۔ بعض نادان اور حالات سے ناواقف لوگ یہ کہتے ہیں کہ حماس نے 7اکتوبر 2023کو اسرائیل پر حملہ نہ کیا ہوتا تو فلسطینیوں کو اس خون آشام تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ان کا یہ خیال اس لیے غلط ہے کہ اسرائیل کے ظلم کی داستان گز شتہ 75سال سے جاری ہے۔ 7اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کے خلاف جو فوجی کارروائی کی وہ اسرائیل کی 75سال سے جاری بربریت کا ردعمل تھا۔ حماس نے یا فلسطینیوں نے غزہ میں جنگ کا ماحول نہیں پیدا کیا۔ یہ تو اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے وہ ممالک تھے جنہوں نے متواتر فلسطین کی سرزمین فلسطینیوں کے لیے تنگ کرکے رکھ دی تھی۔ اس لیے اس پورے تنازعہ کو 1948سے دیکھنا چاہیے جب فلسطین میں بزور طاقت اسرائیلی مملکت کا وجود عمل میں لا گیا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے علاقوں کو ہڑپنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے فلسطینیوں کو ہمیشہ اپنے علاقہ کی فکر دامن گیر رہی۔ اسرائیل کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اپنے غاصابہ قبضہ کی توسیع کر تا رہا۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ فلسطینیوں کے پاس غزہ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا باقی رہ گیا ہے۔ سب کچھ اسرائیل کے قبضہ میں چلاگیا۔ غزہ کا کل علاقہ 41 کلو میٹر ہے۔ تصور کیجیے کہ 22لاکھ کی فلسطینی آبادی اتنے چھوٹے سے علاقہ میں کیسے گزر بسر کر رہی ہوگی۔ طرفہ تماشا یہ کہ غزہ کے پورے علاقہ کی اسرائیل نے ناکہ بندی کردی ہے۔ 2012سے غزہ کا پوراعلاقہ ایک کھلی جیل بناہوا ہے۔ وہاں فلسطینیوں کو کوئی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اب تو یہ پورا علاقہ راکھ کی ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی ظالم فوج نے غزہ میں جو تباہی مچائی ہے اس کے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کی اس دہشت گردی کی وجہ سے غزہ میں 40 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ پڑا ہوا ہے۔ اسے صاف کرنے کے لیے ہی 15 سال لگ سکتے ہیں۔ ملبہ جلد صاف نہ ہونے سے کئی خطرناک بیماریاں وہاں پھیل سکتی ہیں۔ انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ اسرائیل نے فلسطینیوں کی املاک کو بھی تباہ و برباد کرکے ان سے زندگی گزارنے کے مواقع بھی چھین لیے۔ اسرائیل کی اس درندگی پر دنیا میں کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والوں نے ظالم اور مظلوم کو نہ صرف ایک ہی صف میں لاکھڑے کردیا ہے بلکہ کھلے عام ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔
فلسطینیوں پر ہونے والے ان ظالمانہ اور سفاکانہ حملوں میں اسرائیل کلسٹر بم اور فاسفورس جیسے کیمیائی اسلحہ کے استعمال سے بھی گریز نہیں کر رہا ہے۔ فلسطین کی صورت حال دن بہ دن دھماکو ہوتی جا رہی ہے۔ ان سنگین حالات کا تقاضا ہے کہ دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ظلم کی اس آندھی کا تدارک نہ ہوگا تو دنیا جنگ کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ ظلم اور ظالم کے خلاف احتجاج نہ کرنا اس کی تائید کرنے کے برابر ہے۔ آج کی دنیا کو فلسطین کے معصوم بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہیں تو یہ تصور کیا جانا چاہیے کہ دنیا گونگی اور بہری ہوگئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اتنی ساری تباہی کے باوجود اسرائیل کی کامیابی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ وہ جنگ ہار چکا ہے۔ لیکن اس کا گھمنڈ اسے یہ ماننے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں کر رہا ہے کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے جنگی جنون سے باز آجائے ۔اسرائیل نے اپنی بربریت کا ثبوت دیتے ہوئے گزشتہ دنوں حماس اور حزب اللہ کے اہم قائدین کو بھی شہید کر دیا۔ حماس کے قد آور قائد اسماعیل ہانیہ کو اس وقت اسرائیل نے شہید کر دیا جب وہ ایران کے نو منتخب صدر کی رسم حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران گئے تھے۔ ان کا شہادت کا سانحہ تہران میں 31جولائی 2024کو پیش آیا۔ ابھی اسمعیل ہانیہ کی شہادت کا زخم مندمل بھی نہیں ہوا کہ 28ستمبر 2024کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اسرائیل کے حملے سے جاں بحق ہوگئے۔ اس طرح اسرائیل اپنے مشن میں رکاٹ ڈالنے والے قائدین کو بھی راستے سے ہٹانے میں لگا ہوا ہے۔ 7اکتوبر 2023کو حماس کی جانب سے ہوئے حملے کے بعد ہی اسرائیل نے دعوی کیا تھا کہ وہ حماس اورحزب اللہ کی لیڈرشپ کو ختم کردے گا۔
قارئین کو بتادیں کہ 1997میں اسرائیل نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو اس وقت شہید کر دیا تھا جب وہ اپنی وہیل چیر پر نماز فجر ادا کرکے مسجد سے نکل رہے تھے۔ اسرائیل اپنے ناپاک منصوبوں کے مطابق آگے بڑھتا جا رہا ہے اور گزشتہ 75سال سے فلسطین میں قتل و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی اس سفاکانہ حرکتوں کے خلاف اقوام متحدہ بھی کوئی سخت کارروائی کرنے سے ہمیشہ معذور رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں منظور کتنی ہی قراردادوں کو اسرائیل ماننے سے انکار کر تا رہا۔ اب تو انتہایہ کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو "ناپسندیدہ شخصیت”قرار دے دیا ہے۔ اس نے سکریٹری جنرل کا اسرائیل میں استقبال کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے اب اسرائیل کسی ملک یا ادارہ کو بھی خاطر میں نہیں لارہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک شروع دن سے اسرائیل کے حمایتی رہے ہیں۔ شکایت اور گلہ ان مسلم ممالک سے ہے جو اسرائیل کی کھلی دہشت گردی کو دیکھتے ہوئے بھی اس کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے سے اب بھی کترارہے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد ایران نے یکم اکتوبر 2024کی رات اسرائیل پر بالیسٹک میزائیل کے ذریعہ حملہ کیا۔اس حملہ سے اسرائیل حواس باختہ ہو گیا اور پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ اسرائیلی عوام بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ دیگرمسلم ممالک اگر اسرائیل کے خلاف جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ مسلم ممالک کو نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے فلسطینیوں کی مدد کے لیے کمربستہ ہوناہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے فلسطینی دنیا کی سب سے ظالم قوم سے نبردآزما ہیں اوراکثرمسلم حکم راں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ فلسطین اور مسجد اقصیٰ صیہونیوں کے ناپاک پنجوں سے آزاد ہوگا۔ اسرائیل چاہے کتنی ہی سازشیں کرلے اور اس کے حواری کتنا ہی اس کا ساتھ دیں وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ ان شاء اللہ۔

بشکریہ ہفت روزہ دعوت

«
»

شانِ رسالت میں گستاخی پر مضبوط قانون سازی ہو نفرتی پجاریوں کے متعصبانہ بیان بازیوں پر لگام کسی جائے

ملک کا دانشور طبقہ مذہب و ثقافت کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کو منہ توڑ جواب دے