غم خوارِ انیساں (عزیز دوست سید غفران مرحوم کے مرقد پر )

از: محمد سمعان خلیفہ ندوی (6 جون ۲۰۲۱)

عزیز از جان دوست سید غفران جن کی جدائی پر آج تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ بیت گیا، مگر ؀
تجھ سے اتنی تھی محبت ہمیں معلوم نہ تھا 
اب تک یقین نہیں آتا کہ وہ دنیا سے چلے گئے ؀
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں
ہر وقت ان کی معصوم صورت، پاکیزہ مورت، رشکِ دستِ گل فروشاں ان کی سیرت نگاہوں میں رہتی ہے، وہ شرافت کا گلستاں، وہ ظرافت کا دبستاں یاد آتا ہے، جب بھی حافظے میں دوستوں کی فہرست کھلتی ہے اُس میں نمایاں نام مرحوم غفران کا ابھرتا ہے اور دل سے اُن کی مغفرت کی دعائیں نکلتی ہیں۔ 
گزشتہ سال ان کے گھر پر حاضری دی اور ان کے والد محترم سے ملاقات ہوئی تب بھی اور اب بھی جب کہ دو روز قبل ان کو ہمارے سفر کی اطلاع ملی اور انھوں نے اپنے دولت کدے پر حاضری کی دعوت دی، ہر موقع پر مرحوم غفران کی جس صفت کا سب سے زیادہ تذکرہ انھوں نے کیا بلکہ ان کے بھائیوں سے بھی جب جب ملاقات ہوئی تو اسی صفت کا سب سے زیادہ تذکرہ زبانوں پر رہا، اور اسی کی کمی آج کے دور میں نظر آتی ہے جب کہ یہ وہ صفت ہے جو پل بھر میں ایک شخص کو محبت ومحبوبیت کے مقام پر فائز کردیتی ہے اور سب سے زیادہ جس کی گواہی بیرون خانہ سے بڑھ کر اہل خانہ دیں وہ ہے حسن اخلاق۔ سچ فرمایا میرے نبی نے کہ حسن اخلاق کی بدولت ایک صاحب ایمان روزے دار اور عابد شب بیدار سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ غفران سے میری رفاقت سترہ سال رہی مگر ان کی وفات کے بعد سے میں نے بہت اپنے حافظے پر زور دیا اور اب تک دے رہا ہوں کہ کیا کوئی ایسا موقع بھی زندگی میں آیا تھا جب غفران غصہ ہوئے ہوں؟ مگر تھک ہار کر حافظہ جواب دے جاتا ہے کہ ایسا کوئی موقع مجھے یاد نہیں۔ دیکھنے میں چھوٹی سی بات ہے مگر واللہ اس میں دل جیتنے کی صلاحیت ہے اور غفران میاں نے ایسے ہی دل جیتا تھا، حیات مستعار کے جتنے لمحے ان کے لیے مقدر تھے وہ گزار کر چلے گئے مگر ہر دل عزیز بن کر اور ہر ایک کا دل جیت کر چلے گئے، کیا والد اور والدہ، کیا بھائی بہن، کیا رفیقۂ حیات اور کیا ان کے رفقائے کار اور کیا ان کے دوست اعزہ، چھوٹے بڑے ہر ایک نے تو گواہی دی اور آج ان کے آبائی وطن میں ان کے رشتے داروں سے ملاقات ہوئی تو جتنی باتیں ہوئیں ان میں سب سے زیادہ بلکہ شاید سبھی باتوں کا مرکز گھوم پھر کر مرحوم کے حسن اخلاق ہی تھے۔ سوچا تو نہیں تھا کہ اس بار باندہ حاضری ہوگی، مگر ان کے والد محترم کی خواہش اور ان کے ماموں جان کی پر خلوص دعوت اور ان کے محب اور چاہنے والے مولوی جنید فاروقی ندوی اور مولوی صدیق حیدرآبادی ندوی، مولوی عمر عثمان ندوی، شفیق بھائی اور مرحوم کے بھتیجے عزیزم عفان سلمہ کا حسن رفاقت کہ مرحوم کی محبت کہیے یا ان کے حسن اخلاق کی خوش گوار یادیں جو آج ان کے مرقد تک اس حقیر محب کو لے گئیں۔
آہ یہ تربت! آہ یہ مرقد ہے غفران کا ان کے نانا مرحوم صدیق دوراں حضرت باندوی کی پائنتی! یہ شہر خموشاں! یہ گنج شہیداں! مرحوم کی ایک ایک ادا یاد آرہی تھی! زندگی میں ان کا مہمانوں کا استقبال یاد آرہا تھا! گویا اب بھی وہ کانوں میں بہت کچھ کہہ رہے ہوں اور پیغام دیے جارہے ہوں۔ 
مسلسل اشک بہے جارہے تھے اور زبان پر مغفرت کی دعا جاری تھی۔ 
وہاں سے فارغ ہونے کے بعد مرحوم کے خالو مولانا فرید ندوی نے مدرسے (جامعہ عربیہ ہتھورا) کی ایک ایک بات بتائی اور ایک ایک چیز کا تعارف کیا۔ مدرسے کے معائنے کے بعد پھر ایک بار مجلس لگی اور ہم ساتھیوں کے ساتھ ان کے خالہ زاد بھائی عزیزم احمد عبد اللہ اور ماموں زاد بھائی برادرم مونس بیٹھے اور مرحوم کا پھر ذکر خیر ہوا، اور یہ نشست تقریباً گھنٹہ بھر سے زائد چلی۔ اتنا ذکر خیر اب تک مسلسل کیا جاتا ہو ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے، بلکہ بڑے بڑوں کو جو چیز حاصل ہوتی ہے اللہ نے اتنی مختصر مدت میں مرحوم غفران کی قسمت میں لکھ دی۔ اس نشست میں وہ مرثیہ بھی پڑھا گیا جو ان کے اس حقیر محب اور دوست نے ان کے حادثۂ وفات سے متاثر ہوکر لکھا تھا۔ (پھر مفتی نجیب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، اور ان کی پرخلوص باتوں سے لطف اندوز ہوئے)۔ قند مکرر کے طور پر آئیے اس کے اشعار آپ بھی پڑھیں اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کریں۔

چل دیا وہ سوئے رضواں چل دیا 
چھوڑ کر ہم سب کو غفراں چل دیا 

اس کے جانے سے بہاریں کھوگئیں
جان_ جاں روح_ بہاراں چل دیا

تیری سیرت کی وہ خوشبو کیا کہوں 
رشک_ دست_ گل فروشاں چل دیا  

مسکراہٹ پر ہو پھولوں کا گماں
وہ شرافت کا گلستاں چل دیا

علم اور تحقیق کا شیدا تھا وہ
وارث_ “صدیق_ دوراں” چل دیا

مشعل_ سنت سے رشتہ جوڑ کر
حامل_ انوار_ قرآں چل دیا

خُلق کو تیرے میں کیا عنوان دوں
زیست کی خوبی کا عنواں چل دیا

لے کے ہاتھوں میں شہادت کا علم
خوش نصیبی کی وہ پہچاں چل دیا

گلشن_ صدیق میں ماتم بپا
بوئے گل وہ جان_ جاناں چل دیا

خواب ہائے عشق کی تعبیر وہ
کھول کر ہر راز_ پنہاں چل دیا

ماں کا وہ نور_ نظر لخت_ جگر
کرکے اُس پر جان قرباں چل دیا

تو ہمارے گھر سے اے جان_ پدر !
کیا گیا، ماہ_ درخشاں چل دیا

اپنی بہنوں کے لیے رشک_ قمر
نازش_ عمران وسلماں چل دیا

اب تبسم کو ترستے ہیں یہ لب
وہ ظرافت کا دبستاں چل دیا

بس گیا تھا ہر گل_ گلشن میں وہ
بن کے خوشبوئے پریشاں چل دیا 

خلد کی آسائشیں راس آگئیں
مجھ کو گریاں کرکے خنداں چل دیا

حق اسے جنت میں رکھے شادماں
جو تھا غم خوار_ انیساں چل دیا

اپنے سمعاں ؔکو غموں کی دھوپ میں
چھوڑ کر مغموم وحیراں چل دیا

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے