مولانا نذر الحفیظ صاحب کی یاد میں

مفاز شریف ندوی

ایسا موتیٰ ہے زندۂ جاوید

رفتۂ یار تھا جب آئی ہے

مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ

کیا دوانے نے موت پائی ہے

میری خوش قسمتی دیکھیے کہ کورونا کے ان ناگفتہ بہ حالات میں اور معاش کے مسائل کے باوجود شوال مجھے ندوے جانے کا موقع ملا۔ کورونا کی قہرمانی اور حکومت کی سخت نگرانی کے سبب دار العلوم بند تھا۔ درس و تدریس کا سلسلہ مگر جاری تھا۔ عام روایت کے برعکس تاریخ ندوہ میں پہلی مرتبہ اونلاین تعلیم ہو رہی تھی۔ کتنی پہیلیاں اس ذہن نے بوجھی ہونگی لیکن اس آفت ناگہانی کو بوجھنا ممکن نہیں ہوا۔ بہر کیف اب کی بار جو ندوے کے احاطے میں داخل ہوا تو دل میں مسرت کی لہر ضرور اٹھ رہی تھی مگر فضا پر ایک اداسی اور مایوسی نظر آئی۔ اشجار کی شاخوں پر خموشی اور حیرت افزا تفکر چھائے ہوئے۔ صدر دروازے پر چند ملازمین بیٹھے چائے کی چسکیاں اور ایک دوسرے کی چٹکیاں لے رہے تھے۔ یہ منظر بتا رہا تھا کہ یہاں زندگی کے آثار موجود ہیں۔ سڑکوں کے کنارے سبزے کا بچھونا تھا مگر لطف معدوم اور تو اور متعدد مواضع پر پھول دار پودے بھی موجود تھے، جن پر رنگ برنگ کے پھول لٹک رہے تھے اور ان کے سرے پر نیلی و پیلی تتلیاں کچھ لمحے بیٹھتی اور پھر اڑ جاتی تھیں۔ ان میں مہک تھی مگر سرور موہوم سا معلوم ہوتا تھا۔ پرندے بڑی دھن میں اپنے نغمے سنا رہے تھے مگر بلبلان گلشن ندوہ کے غیاب سے ان کا نغمہ بے ہنگم صدا معلوم ہوتا تھا۔ یہاں کے طلبہ جو غیر موجود تھے تو یہ گلشن ذرا ویران اور سنسان سا معلوم ہوا۔

 گلشن بھرا ہے لالہ و گل سے اگرچہ سب

پر اس بغیر اپنے تو بھائیں لگی ہے آگ

افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ

دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ

خدا کا شکر ہے کہ یہاں پر اساتذہ موجود تھے اور چند طلبہ بھی وقفے وقفے سے آکر اپنے نشیمن میں مقیم ہوگئے تھے۔

کچھ ہفتے یہاں گزارنے کا موقع ملا۔ عشا کے بعد حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کی مجالس میں ضرور شرکت کرتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کے پر آشوب دور میں حضرت کی شخصیت بڑی قیمتی ہے۔ بلکہ انھیں اقبال کی زبانی یہ کہنے کا حق حاصل ہے:

مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں

کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو

ان نورانی مجالس میں میرے محبوب اساتذہ اور ایک دو طالب علم بھی موجود ہوتے تھے۔ آج کی مجلس بڑی دلچسپ رہی، وجہ یہ کہ مولانا سید محمد رابع صاحب نے اپنے ماضی کے واقعات بتاۓ۔ پہلے بتایا کہ مولانا علی میاں درجے میں عربی انشاء پڑھا رہے تھے اور سب کا ہوم ورک دیکھ رہے تھے۔ جب میری کاپی دیکھی تو اس میں لسانی غلطی نظر آئی۔ جو اردو ترجمے کی رو سے تو یہ استعمال صحیح تھا، مگر عربی میں مضحکہ خیز غلطی تھی۔ مولانا نے مجھے بلایا اور دونوں کان پکڑ کر خوب سخت سست سنایا۔ اور وہ جملہ پچاس یا سو بار لکھنے کو کہا۔ میری کان کی لویں سرخ ہوگئیں اور آنکھوں سے آنسو کی لڑی جاری ہوگئی۔ آنسوؤں کے یہ گرم گرم قطرے میری کاپی کے اوراق میں جذب ہوگئے۔ میں بہت خفیف ہوا اور ہم سبقوں کے سامنے اپنی اس سبکی پر شدید مغموم ہوا۔ یہ واقعہ ہر وقت ذہن میں تازہ رہا۔

مولانا محمد رابع صاحب یہ واقعہ سنا رہے تھے اور ان کے سامنے بیٹھے مولانا نذر الحفیظ صاحب زیر لب مسکرا رہے تھے۔ چند سیکنڈ بعد پھر فرمایا کہ مولانا علی میاں رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنوں کی تربیت میں شدید نگرانی کا اہتمام کیا۔ وہ ہمیں معمولی غلطی پر سخت ڈانتے اور سزا بھی دیتے تھے۔ یہ تو زمانہ تعلیمی کی بات تھی، جب ہم ندوے میں استاد مقرر کیے گئے تب بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا: کسی پروگرام کی مناسبت سے ہم نے عربی میں مضمون لکھا۔ جانے سے پہلے ہم نے مولانا کو وہ مضمون دکھایا تاکہ کوئی غلطی ہو تو اس کی اصلاح ہو، بہتر تعبیر مولانا بتائیں تو اس کو درج کرلوں، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی تحسین بھی حاصل ہو۔ اتفاق سے اس میں ایک بھونڈی نحوی غلطی نظر آئی۔ جب آپ کی نگاہ اس پر رکی تو آپ کو غصہ آگیا اور آپ نے مضمون کے اوراق ایک کونے پر پھینک دیے اور ہمیں سخت ڈانٹ سنائی۔

مولانا رابع صاحب نے پھر یہ واقعہ سنایا کہ وہ اپنے کسی عزیز کے پاس ایک مضمون پڑھنے کے لیے جاتے تھے۔ وہ بڑے سخت گیر تھے اور توانا و تنومند آدمی۔ عبارت پڑھتے ہوئے ہم سے ایک غلطی ہوگئی، جس پر انھیں طیش آگیا اور ہمیں سینے پر ایک لات ماری۔ ہم خفیف الوزن اور قلیل اللحم تھے، اس لیے ان کی لات سے کمرے کے دوسرے کونے پر لڑھکتے ہوئے پہنچے۔

تمام حاضرین ان واقعات سے محظوظ ہو رہے تھے۔ مولانا نذر الحفیظ صاحب بھی ان واقعات سے مسرور تھے اور ایک دو جملہ اپنی طرف سے احساسات کا کہتے۔ مولانا علی میاں رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں کوئی بات سننا اور سنانا ان کے لیے ایسا ہی تھا، جس طرح چھوٹے بچوں کو اپنی بوڑھی دادی سے کہانیاں سننا یا آج کے ماحول میں کارٹون دیکھنا۔ ایک ایک جملے سے لطف لیتے تھے۔ خدا معلوم انھوں نے یہ واقعات کتنی دفعہ سنے ہونگے مگر اب بھی انھیں ایک نیا سرور اور نئی لذت حاصل ہوتی تھی۔

اب مولانا رابع صاحب نے مغربی تہذیب پر نشتر چلانا شروع کیا۔ کہنے لگے کہ ان بھلے مانسوں کو کیا ہوگیا ہے کہ مریخ پر کمند ڈالنے کی فکر میں ہیں۔ اپنی تو کوئی فکر نہیں ہے۔

تم نے اہل خرد، چھان لیے ہفت افلاک

خاک ویرانۂ دل کی نہیں چھانی، افسوس

سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسان کی ضروریات اور ترقیات کے لیے ضرور استعمال ہونا چاہیے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ ایٹمی بم بنا رہے ہیں اور اپنی بربادی کا سامان اکٹھا کر رہے ہیں۔ چاند پر قیام کرنے کی سوچ رہے ہیں چند منٹوں تک یہ گفتگو جاری رہی۔ جب حضرت رکے تو مولانا نذر الحفیظ صاحب نے نہایت برجستہ اقبال کے یہ اشعار پڑھے:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا

آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

سبحان اللّٰہ! مجلس ختم ہوئی اور حاضرین منتشر ہو کر اپنے اپنے ٹھکانے کا رخ کرنے لگے۔ میں مولانا نذر الحفیظ صاحب کے پیچھے پیچھے آہستہ روی کے ساتھ بڑھنے لگا۔ جب انھوں نے میرے قدموں کی آہٹ محسوس کی تو پیچھے مڑ کر ایک دفعہ مجھے دیکھا اور فرمایا: إن للمتقين مفازا. بلا مبالغہ دسیوں دفعہ اس طرح مولانا سے استفادے کا موقع ملا۔ اب یہ آخری موقع تھا، اور آخری ملاقات تھی۔ میں نے مولانا سے ان برمحل اشعار کے استعمال پر خوشی کا اظہار کیا، جس پر وہ مسکرائے۔ کہنے لگے کہ ایک مغربی مصنف نے کتاب لکھی ہے: Man

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے