حسن کوزہ گر…..اور پروفیسر شمیم حنفی کا تنقیدی رویہ

                                          حافظؔ کرناٹکی
                                
                                 
    پروفیسر شمیم حنفی صاحب کی شخصیت ہمہ جہت تھی، وہ ناقد محقق شاعر، اور ڈرامہ نگار کے علاوہ رسالہ جامعہ کے مدیر بھی تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ جامعہ اسلامیہ دہلی میں اردو زبان و ادب کے استاد تھے۔اور بہت ہی خلیق اور چہرہ شناس استاد تھے۔ وہ بچوں کو دیکھتے ہی پہچان لیتے تھے کہ اس میں کیا کیا خوبیاں ہیں، انہوں نے جس قدر لگن سے بچوں کو ادب پڑھایا اسی طرح زبان و ادب کی خدمات بھی نہایت انہماک اور ایمانداری سے ادا کی۔ اور اردو زبان و ادب کو بہت ساری گرانقدرکتابیں دیں۔ ان کی اہم کتابوں میں ”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“ غزل کا نیامنظر نامہ، اور نئی شعریات کا خاص مقام ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ بھی ان کی درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کے ڈرامے مٹی کا بلاوا، مجھے گھر یا د آتا ہے، اور زندگی کی طرف کویمپو یونیورسیٹی کے ڈگری کورس میں شامل ہیں۔ ان کاشعری مجموعہ ”آخری پہر کی دستک“ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ منٹو پران کی کتاب ”منٹوافسانہ سے حقیقت تک“ منٹو کے مطالعے کے باب میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ وہ سچ مچ اردو کے نابغہ تھے، ان کی خدمات کا احاطہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ میں یہاں پر ان کے ایک مضمون جو ن م راشد کی شاعری پر لکھا گیا ہے اس کے حوالے سے اپنے معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
    شمیم حنفی صاحب اردو کے ان قدآور ناقدوں میں سے تھے جن کے ہونے سے تنقید کی اہمیت کا احساس ہوتا تھا۔ اگر اردو کے پانچ اہم ناقدوں کا نام لیا جائے تو اس میں شمیم حنفی صاحب کا نام بھی شامل ہوگا۔ شمیم حنفی صاحب فاروقی صاحب نارنگ صاحب، وارث علوی صاحب، کی عمر معیار اور مطالعہ پسند ناقدوں کی صف کے ناقد تھے، وہ ایک بہترین ڈرامہ نگار بھی تھے مگر ان کی شہرت صرف اور صرف ناقد کی حیثیت سے تھی۔ ان کے تنقید کا اندازاور اسلوب دوسرے ناقدوں سے بالکل الگ تھا۔ جس طرح فاروقی صاحب کی تنقید ان کی علمیت، مطالعہ پسندی اوران کی عبقریت کا احساس دلاتی ہے۔ بالکل اسی طرح شمیم حنفی صاحب کی تنقیدبھی ان کے تفکر اور ان کے وسعت مطالعہ کا احساس دلاتی ہے۔ وہ دوسرے ناقدوں کی طرح کسی بھی فن پارے یا فنکارکے بارے میں عجلت میں رائے قائم نہیں کرتے تھے اور نہ اپنی رائے دواور دوچار کی طرح پیش کرتے تھے۔ ان کی تنقیدی رائے بھی فلسفیانہ انداز کی ہوتی تھی۔ اور وہ بہت گہرے مطالعے کا احساس دلاتی تھی۔ ن م راشد اردو کے جدید شعرا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ باالخصوص نظم گوشاعر کی حیثیت سے ان کا مقام و مرتبہ کافی بلند ہے۔ ان کی شاعری اپنی فلسفیانہ اساس اور تخلیقی اظہار کی تہہ داری کی وجہ سے ہمیشہ سے موضوع گفتگو بنتی رہی ہے۔ اور اردو کے تقریباً تمام اہم ناقدوں نے ان کی نظموں کی تہیں کھولنے کی کوشش کی ہیں۔ پروفیسر شمیم حنفی صاحب نے راشد کی نظموں کو اور ان کی شخصیت کو کچھ الگ ہی انداز میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اور انہوں نے بہت سارے ناقدوں کے جذباتی بیانوں کا تجزیہ کر کے راشد کو اس کے اصل مقام پر فائز کرنے کی کوشش کی ہے۔ ضیاء الحسن نے توراشد کی نظم ”حسن کوزہ گر“ کو اقبال کی نظم مسجد قرطبہ سے بھی بہتر اور اہم قرار دے دیا تھا۔ جس سے ظاہر ہے کہ اقبال کے پرستاروں کے ساتھ ساتھ ان کے پارکھی ناقدوں کو بھی تکلیف پہونچی اور بہت سارے لوگوں نے اس رائے کو رد کردیا۔ مگر شمیم حنفی صاحب کا انداز سب سے جدا محسوس ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے؛
    ”راشد کے ایک جواں سال اور تازہ فکر شارح (ضیاء الحسن، مضمون حسن کوزہ گر ایک جائزہ) کی یہ تعبیر کہ اس نظم کی راشد کے کلام میں وہی حیثیت ہے جو اقبال کی شاعری میں ”مسجد قرطبہ“کی ہے۔ مجھے دورازکار اور مبالغہ آمیز دکھائی دیتی ہے۔ حسن کوزہ گر جدید انسان کے اجتماعی آشوب کا احاطہ کرنے کے باوجود ”مسجد قرطبہ“ کے جیسی یا ہم مرتبہ نظم نہیں ہے۔ اور اپنی بے مثالیت اور بہت سی غیر معمولی خوبیوں کے باوجود ”حسن کوزہ گر“ راشد کے مجموعی ادراک اور وژن کا احاطہ اس عظیم الشان اور مہیب پیمانے پر نہیں کرتی ہے جس طرح ”مسجد قرطبہ“ اقبال کے فکر کے شکوہ اور رفعت کا احاطہ کرتی ہے۔ راشد کے بارے میں اسی لیے ان کے نہایت نکتہ اس اور متین نقاد حمیدنسیم کی یہ رائے بھی مجھے غلوآمیزاور دوراز کار محسوس ہوتی ہے کہ
    ”اگر راشد صاحب نے حسن کوزہ گر کی چار نظموں کے سوا اور کچھ نہ کہا ہوتا جب بھی ان کی یہ نظمیں عالمی برترادب میں شامل کی جاتیں۔ اور راشد صاحب کا نام لوح دوام پر ثبت ہوجاتا۔ مگر راشد صاحب بہت وافر، بہت فراواں، تخلیقی جوہر رکھتے تھے۔ ماورا کی ابتدائی بھونڈی پھسپھسی کئی نظمیں لکھنے والا راشد محنت لگن و فکر کی تعمیر اور دل کی جلا سے اس مقام عظمت پر پہونچا کہ اقبال کے بعد اس کے دور تک کا کوئی شاعر اس کے ہم دوش دائیں بائیں کھڑا نظر نہیں آتا۔ اس کی پوری قامت رکھنے والا۔“
آپ ذراسی توجہ کریں گے تو یہاں پر شمیم حنفی صاحب کے شریفانہ ناقدانہ انداز کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا، انہوں نے ضیاء الحسن کی رائے کو یکسر رد نہیں کیا اور نہ یہ کہ ان کی رائے کو رد کرکے بلاتکلف آگے بڑھ گئے اور نہ یہ کہ انہوں نے راشد کی شاعری کو کمتر قرار دیا، بلکہ انہوں نے نہایت خوبی سے مسجد قرطبہ کی خوبیوں اور علامہ اقبال کی فکری بلندیوں کو اس خوب صورتی سے بیان کیا اور خود راشد کی شاعری کی امتیازی خوبیوں اور ان کی نظم ”حسن کوزہ گر“ کی تہہ داریوں کو اس طرح کھولاکہ دونوں کے مقام و مرتبے سے قاری کو نہایت آسانی سے واقفیت ہوگئی۔ اسی طرح انہوں نے حمید نسیم صاحب کی رائے سے بھی اپنی نااتفاقی کا اظہار کردیا۔ مگر اس طرح نہیں کہ کسی طرح کی ہٹ دھرمی کا احساس ہو اور لوگ یہ سمجھیں کہ شمیم حنفی صاحب بلاتکلف کسی کی بھی رائے سے اختلاف تو درج کرادیتے ہیں مگر اپنی رائے کو دلائل سے مستحکم نہیں کرپاتے ہیں۔ حمید نسیم صاحب کی رائے پر گفتگو جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ؛
    ”یہاں دوباتوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے، ایک تو یہ کہ راشد کسی معینہئ ضابطہ فکر اور طے شدہ نظام اقدار کے شاعر نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ راشد کو جب تک ان کی کلیت میں نہ دیکھا جائے ان کے تخلیقی اور ذہنی ارتقا کے بارے میں وثوق سے کوئی بات کہی نہیں جاسکتی۔ وہ ”ماورا“ کی رومانیت سے ہونے والے ”ایران میں اجنبی“ کے حقیقت پسندانہ معاشرتی احتجاج تک پہنچے تھے۔ اور بعد کے دونوں مجموعوں، لا انسان، اور گمان کا ممکن، میں جو گہری بصیرت ان کے شعور اور مجموعی تہذیبی رویوں میں نمایاں ہے اس کی بنیادیں بھی ”ایران میں اجنبی“ کی نظموں سے جھلکنے لگی تھی۔
    آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ شمیم حنفی صاحب بالکل دوٹوک انداز میں تنقیدی گفتگو کرنے کے روا دار نہیں ہیں، ان کی شرافت نفس اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی ہے کہ وہ کسی کی علمی رائے کو بھی علمی انداز میں اس طرح رد کردیں کہ جس کی رائے رد کی جائے اس کا دل بدل جائے۔ وہ اپنی بات نہایت آہستگی سے رکھنے کے عادی ہیں۔ وہ برجستگی سے باتیں کہنے پر قطعی یقین نہیں رکھتے ہیں۔ غالباً انہوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ برجستگی کا مظاہرہ صرف تخلیقی شہ پاروں میں کریں گے اور تنقید میں عالمانہ فراست اور تفکرانہ انداز واسلوب میں گفتگو کریں گے۔یہاں اس بات کا اعادہ کیا جاسکتا ہے کہ جب جدیدیت کا رجحان تیزی سے پروان چڑھنے لگا۔ اور اس کی ہمنوائی میں پڑھے لکھے نوجوان قلمکار اپنے قد کے پورے احساس کے ساتھ اپنی موجودگی درج کرانے لگے تو انہوں نے بھی فاروقی صاحب کی طرح عاجلانہ رایوں کا اظہار کرنا ضروری سمجھ لیا۔ فاروقی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ظفر اقبال کو اپنے عہد کا غالب اور احمد مشتاق کو فراق سے بڑا یا اہم شاعر قرار دیا۔ حالاں کہ بعد میں فاروقی صاحب نے اس رائے کی تردید کردی اور کہا کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا تھا۔ مگر تب تک یہ باتیں جدیدیت کے نوجوان قلم کاروں میں پھیل گئی اور ان لوگوں نے بھی اپنی علمیت اور بے باکی کا اظہار کرنے کے لیے طرح طرح کے بیان دینے لگے۔ غالباً ضیاء الحسن صاحب کی رائے بھی اسی نوعیت کی ہے نہیں تو وہ راشد کی نظم”حسن کوزہ گر“ کو علامہ اقبال کی نظم ”مسجد قرطبہ“ جیسی اہم نظم کسی بھی حال میں قرار نہیں دیتے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ انداز بیان بازی اس حد تک بڑھ گئی کہ اکثر لوگوں نے بزرگ اور سینیر شاعروں کا مذاق اڑانا اپنا حق جان لیا اور اپنے عہد کے شاعروں کو باون گزا بتانے لگے۔ یہی کوشش حمید نسیم نے بھی کی، مگر ان کی رائے کو دھیان سے پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ انہیں نہ تو اپنے مطالعے پر اعتماد ہے اور نہ راشد کے اجتماعی شعری سرمائے پراسی لیے وہ راشد کے مجموعہ کلام ”ماورا“ کی ابتدائی نظموں کو بھونڈی پھسپھسی اور نکمی قرار دیتے ہیں اور پھر سربدل کر تعریف کے پل باندھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی لگن اور محنت سے اس مقام عظمت پر پہونچا کہ اقبال کے بعد کوئی دوسرا شاعر اس کے آس پاس نہیں پہونچ سکا۔
    اردو تاریخ کے سرمائے پر نظر کریں تو کوئی بھی شاعر ایسا نہیں ملے گا جس نے بھونڈی پھسپھسی اور نکمی نظمیں اور غزلیں کہی ہوں اور بعد میں وہ اردو کا عظیم شاعر بن گیا ہو۔ چاہے وہ انیس ہو کہ میر، غالب ہو کہ اقبال، اس لیے شمیم حنفی صاحب ان ناقدوں کی گرفت کرنے میں حق بہ جانب نظر آتے ہیں۔ خود راشد کی بات پر توجہ کریں تو محسوس ہوگا کہ انہیں بھی اپنی شاعری پر اس قدر اعتماد نہیں تھا جتنا ان کے چاہنے والو کو ہے۔ میرکو تو اتنا اعتماد تھا کہ خود ہی کہتے تھے؛
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

انیس کو بھی اعتماد تھا وہ فرماتے ہیں، اک پھول کا مضمون ہو تو سورنگ سے باندھوں غرض یہ کہ اردو کا ہر عظیم شاعر اعتماد اور خود آگہی سے مالا مال تھا۔ علامہ اقبال جیسے شاعر نے فرمایا تھا کہ
محمد بھی ترا جبرئیل بھی قرآن بھی تیرا
مگر ہر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میر
جس فنکار کے اندر اعتماد نہ ہو جسے اپنی شاعری کے اپروچ کا احساس نہ ہو اس شاعر کو اردو کے سب سے عظیم شاعر کے ہم پلّہ قرار دینا اس کی کسی نظم کو اردو کے عظیم شاعر کی بہترین نظم کے برابر یا اس سے بڑھ کر قرار دینا سوائے جذباتیت کے اور کچھ نہیں ہے۔ ن،م راشد اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ؛
    (بہت سی اردو شاعری میں) کتنے اشعار ایسے ہیں جو قاری کی ذات کا تنقید کرسکیں، اس کو فکر اور احساس کی وہ رفعت بخشیں جس سے وہ بے بہرہ رہا ہے۔ اس کو ایک ایسی دنیا میں لے جائیں جہاں وہ خود کو نئے سرے سے پرکھ سکے؟ غزل ہی کاکیا گلہ ہماری نام نہاد جدید شاعری جس کے بدنام مبلغوں میں میرا بھی شمار ہوتا ہے، ابھی تک وہ قوت فراہم نہیں کر سکی جو شعر کو آئندہ ہزار برس کا چشمہ بنادیتی ہے۔ لیکن ہم اپنی شاعری کو اپنی قوم سے بہتر کیوں کر پاسکتے ہیں۔“
شاعر کی بے اعتمادی پوری طرح واضح ہے۔ اسے اعتراف ہے کہ پوری جدید شاعری میں یہ دم نہیں ہے کہ وہ فکر و احساس کو رفعت بخش سکے۔ پھر اپنی ناکامی اور نامرادی اور تخلیقی بے بسی کا جوازیہ کہہ کرتلاش کرتے ہیں کہ ہماری قوم ہی چوں کہ اس پایہ کی نہیں ہے اس لیے اتنی زبردست شاعری ہماری زبان میں نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر یہی بات علامہ اقبال بھی مان لیتے کہ ان کی قوم کسی لائق نہیں ہے تو وہ بھی عظیم شاعر نہیں بن پاتے۔ شمیم حنفی صاحب نے راشد کی رائے کا خوب صورت تجزیہ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے؛
”ہزار برس کا یہ چشمہ راشد کے احساسات پر کسی آسیب کی طرح چھایا ہوا ہے، اس سے کم از کم یہ اندازہ تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ راشد کا ذہن بڑا تھا۔ اور وہ بڑی شاعری کا تصوّر اور شاعری میں عظمت کا تصوّر تخلیقی عمل اور اظہار کی دیر پائی کے ساتھ کرتے تھے………حسن کوزہ گر کی چوتھی فصل میں بھی راشد نے باالواسطہ طریقے سے اسی سوال کی نشاندہی کی۔

جہاں زا، کیسے ہزاروں برس بعد
اک شہر مدفون کی ہر گلی میں 
مرے جام و مینا و گلداں کے ریزے ملے ہیں 
کہ جیسے وہ شہر برباد کا حافظ ہوں 

                    یہ ریزوں کی تہذیب پالیں تو پالیں 
                    حسن کوزہ گر کے کہاں لاسکیں گے؟
                    یہ اس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
                    جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
                    جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
                    خزاں سے خزاں تک

                    وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
                    ہمہ عشق ہیں ہم
                    ہمہ کوزہ گر ہم
                    ہمہ تن خبر ہم
                    خدا کی طرح اپنے فن کے خدا سر بسر ہم
اسی تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ گرچہ ن،م راشد اپنی تخلیقی خود اعتمادی کا بڑھ چڑھ کر ذکر کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں علامہ اقبال والی تخلیقی فکر اور فلسفہ کی ہمہ گیری کا کوئی احساس نہیں پایا جاتا ہے۔
    شمیم حنفی صاحب کی نثر بہت رواں دواں نہیں ہے، اگر اردو کے اہم ترین نقادوں مثلاً حالی کلیم الدّین احمد، محمد حسن عسکری اور فاروقی صاحب کی نثر کو دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ شمیم حنفی صاحب اپنے اختلافی رویے کی کڑواہٹ کو حلاوت میں بدلنے کے لیے ایسی نثر لکھتے ہیں کہ قاری اس میں بہت حدتک الجھ کر رہ جاتا ہے۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ اس عہد کے ایک بڑے اور عالم فاضل نقادتھے۔ ان کی موت سے تنقید کی بستی جوپہلے ہی ویران ہوچکی تھی اور بھی ویران نظر آتی ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے

زکوۃ کی حقیقت اور اس کا حکم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے