لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

بقلم ارشد حسن کاڑلی دمام

سرمایہ حیات اور امنگ نامی کتابوں کے مصنف اور اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول بھٹکل کے سابق فیزیکل ایجوکیشن ٹیچر اور ہمارے استاد محترم زبیر چمپا صاحب 6 مئی کو بھٹکل عثمانیہ مسجد کے قریب اپنے مکان میں 78 سال کی عمر میں اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔
جس وقت میں نے سرکاری پرائمری اسکول میں چوتھی جماعت کی تکمیل کے بعد اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول میں پانچویں میں داخلہ لیا اس وقت محسن قوم عثمان حسن جوباپو ابھی بقید حیات تھے۔ ہر بدھ کی شام کو ماس ڈرل اور ورزش ہوا کرتی تھی۔ جس کے لئے زبیر چمپا صاحب نظامت کرتے۔ ورزش کے سمجھانے کے لئے وہ اکثر و بیشتر ہونہار طلبہ کو اسٹیج پر بلاتے اور انہیں ورزش کرنے کہتے اور باقی طلباء کو  مشاہدہ کرنے کہتے۔ پھر اجتماعی ورزش ہوتی۔ ہمارے دوست شعیب کوٹیشور کو اس طرح اسٹیج پر آنے کا شرف اکثر حاصل ہوتا۔ چمپا ماسٹر کا اپنے منفرد انداز میں نظامت کرتے ہوئے ان کا پورا نام سیدی محمد شعیب کوٹیشور کہ کر مخاطب کرنا ابھی تک نہیں بھلا پائے۔
ماس ڈرل کے علاوہ ہمیں ہفتے میں ایک دن کھیل کا وقفہ بھی ہوتاتھا۔ تعلیمی سال کے ابتدائی مہینوں میں وہ اکثر بارش کی نذر ہو جاتا۔ پھر بعد میں جب موسم بدل جاتا تو ہمیں گراؤنڈ میں لے جاتے اور مختلف کھیلوں سے روشناس کروانے کے علاوہ بعض غیر نصابی نظمیں بھی پڑھاتے۔ چند ایک نظمیں آج بھی یاد ہیں۔ اسی دور میں اچانک پتا چلا کے چمپا ماسٹر دوبی جا رہے ہیں۔ اگلے سال ان کی جگہ میرے محسن و مربی نظام الدین ممی گھٹی صاحب کی تقرری ہوئی۔ اور نظامت کی ذمہ داری مشتاق احمد ماسٹر کے ذمہ آگئی۔
 نظام ماسٹر نے جانفشانی سے طلباء کو کھیل کود سکھا کر ریٹائرمنٹ بھی ہو گئی۔ اس ناچیز نے نظام ماسٹر سے ریاضی سیکھی۔ میں نے اکثر محفلوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ آج میں جس مقام پر ہوں اس سفر کے ابتدائی دور میں میرے اساتذہ بالخصوص نظام ماسٹر کا بہت بڑا کردار ہے۔
بات ہو رہی تھی زبیر ماسٹر کی اور میں یہاں نظام ماسٹر کا کیوں تذکرہ کرنے لگا۔ جی ہاں اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے۔ جس طرح نظام ماسٹر نے پی۔ ای۔ ٹیچر ہوتے ہوئے میری تعلیم پر خصوصی توجہ دی تھی اسی طرح چمپا ماسٹر نے بھی بعض افراد کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھرپور حوصلہ افزائی کی تھی۔
دراصل چمپا ماسٹر کسی مالدار گھرانےمیں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ معاشی تنگی کے باوجود اپنے عزم اور لگن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ جس سماج نے انہیں تعلیم یافتہ بنایا تھا وہ اس سماج کا قرض ادا کرنے کے لئے فکر مند تھے۔ چنانچہ انہوں نے بعض طلباء پر خصوصی توجہ دی اور نہ جانے کتنے ایسے ہیرے تھے جو مرحوم چمپا زبیر صاحب کے ہاتھوں تراشے گئے۔
انہوں نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ ان کے ایک فرزند ڈاکٹر ہیں اور دوسرے فرزند نے بی۔ کام کے بعد  ایرپورٹ مینجمنٹ کا ڈپلومہ حاصل کیا ہے۔
اسی طرح ان کی تینوں بیٹیوں بھی پروفیشنل تعلیم حاصل کی ہے۔  
معاشی ترقی کی امنگ انہیں ۱۹۷۸ء میں  دبی کھینچ لائی، اور وہ پیشہ ورانہ زندگی سے وابستہ ہوگئے۔ آپ نے اس دوران سرمایہ معلومات اور امنگ کے عنوان سے کتابیں تصنیف کی۔
آپ جب ریٹائرمنٹ کے بعد بھٹکل تشریف لائے تو ایک بالکل الگ ہی فرد تھے۔ وہ گھر اور مسجد کے ہو کر رہ گئے۔ ان کو کسی جلسوں میں وغیرہ کم ہی دیکھا۔ کبھی کبھار ان کے گھر جانا ہوتا تو باہر برامدہ میں کرسی پر بیٹھے ہوئے رہتے۔ اکثر دعائیں دیتے اور اپنے لئے دعاؤں کی درخواست کرتے۔ مسجد میں تکبیرِ الاولی کی پابندی کرتے۔ رمضان المبارک میں معتکف رہتے۔ عین ممکن ہے کے اللہ کو ان کی کوئی ادا پسند آئی ہو۔ اس لئے رمضان کے مبارک ایام میں بلاوا آیا۔ عثمانیہ مسجد کے درودیوار اپنے مصلی کو موجود نہ پا کر غم منا رہے ہونگے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم چمپا زبیر ماسٹر کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔

«
»

نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے

زکوۃ کی حقیقت اور اس کا حکم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے