لمحۂ فکریہ اور لمحۂ فکریہ سوچ مسلماں سوچ !!!

 

    ازقلم: جاوید اختر بھارتی 

 

قارئینِ کرام  شائد مضمون کی سرخی سے آپ کو یہ احساس ہوتا ہو کہ آخر ایسی سرخی کیوں لگائی گئی تو دراصل بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر ایسے مضامین نظر سے گذرتے ہیں کہ جن کی سرخیوں کے نیچے باریک شکل میں لکھا ہوتاہے کہ لمحۂ فکریہ،، تو ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ ایک مضمون کی سرخی ہی لگا دی جائے لمحۂ فکریہ کے نام سے پھر وہ سارے حالات اور سارے مناظر بیان کئے جائیں کہ جو طریقہ اپنا کر پہلے کامیابیاں حاصل ہوا کرتی تھیں اور آج ہمیں وہی طریقہ اپنانے کے بعد بھی سرخروئی حاصل نہیں ہوتی تاکہ ہمیں معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی احساس ہوسکے کہ ہمارا طریقہ واقعی قرون اولیٰ کے مسلمانوں والا طریقہ یا صرف اس طریقے کی نقلیں کرتے ہیں بس ایک رسم سمجھ کر یعنی ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عزت و ذلت دینا اللہ کے اختیار میں ہے تو پھر اللہ نے تو عزت دینے کا وعدہ کیا ہے پھر ہمیں عزت کیوں نہیں ملتی،، اللہ کا فرمان ہے کہ میری عبادت کرو اور مجھ سے ہی مدد طلب کرو تو پھر ہم نے اسے نماز تک ہی کیوں محدود کردیا ( ایاک نعبد و ایاک نستعین) احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسافر کی دعا رد نہیں ہوتی، افطار کے وقت دعا رد نہیں ہوتی، فرض نمازوں کے بعد کی دعا رد نہیں ہوتی، عیادت کرنے والے کے حق میں کسی مریض کی دعا رد نہیں ہوتی، کعبے پر جب پہلی نظر پڑتی ہے تو اس وقت کی جانے والی دعا رد نہیں ہوتی ،، تو یہ ساری باتیں مسلمانوں کے لئے ماننا ضروری ہیں کیونکہ یہ برحق ہیں لیکن ہم نے صرف اسی کو پکڑ رکھا ہے جن لمحات و مواقع کا ذکر کیا گیا ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ احادیث کی روشنی میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ چار قسم کے لوگوں کی دعائیں نہیں قبول ہو سکتیں اگر انہوں نے اپنی عادت کو نہیں بدلا اور چاروں قسموں سے پہلے توبہ نہیں کیا اور اس سے باز نہیں آئے تو ان کی دعائیں شب برٔات، شب عاشورہ اور شب قدر میں بھی قبول نہیں کی جائیں گی اور وہ چاروں قسموں کا تذکرہ یوں ہے شراب نوشی، والدین کی نافرمانی، رشتہ داروں سے لڑائی جھگڑا کرنا اور چوتھی چیز مسلمان ہو کر مسلمان سے حسد و کینہ رکھنا،، اب ہمیں اندازہ لگانا چاہیے کہ ہم کس کٹیگری میں آتے ہیں اور ہمارا معیار کیا ہے جہاں تک بات شراب نوشی کی ہے تو شراب کو قرآن نے شیطان کی گندگی کہا ہے اور دنیا کا کوئی بھی انسان اور مسلمان کسی دوسرے کی گندگی تو دور کی بات ہے خود اپنی گندگی نہیں کھا سکتا لیکن شیطان کی گندگی کھانے والے آج بھی موجود ہیں جبکہ شیطان ویسے ہی کھلا ہوا دشمن ہے،، اب بات والدین کی کریں تو آج والدین کی نافرمانیاں کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جبکہ والدین اپنے بچوں کی پرورش کے لئے بیشمار مشقتوں کا سامنا کرتے ہیں لیکن اپنی اولاد کا چہرہ خوش دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں اور ماں کا تو مرتبہ ہی اتنا بلند ہے کہ ایک بیٹا زندگی بھر ماں کی خدمت کرے تو ایک قطرے دودھ کا قرض بھی ادا نہیں کر سکتا اور کاندھے پر بیٹھا کر بیٹا اپنی ماں کو حج بھی کرادے تو اتنی بڑی نیکی اور خدمت بھی ماں کی اس ایک آہ!کی بھرپائی نہیں کر سکتی جو اس کی پیدائش کے وقت منہ سے نکلی تھی یہ مقام ہے ماں کا تو اب اس سے ماں کی نافرمانیوں کے انجام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،، جہاں تک بات رشتہ داروں کی ہے تو ان کی عزت کرنا ہے اور رشتے کو فروغ دینا ہے جو رشتہ داریوں میں بگاڑ پیدا کرے اور قربت کو کاٹنے والا کام کرے اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مؤمن نہیں اب کعبہ شریف کی بات کریں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام جب خانۂ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو جیسے جیسے اونچائی بڑھتی جاتی تھی تو ویسے ہی پتھر بھی اونچا ہوتا جاتا تھا اور آج اسی  خانۂ کعبہ میں رو رو کر دعائیں کی جاتی ہیں لیکن کورونا وائرس کا خاتمہ نہیں ہورہاہے،، دنیا میں امن و امان قائم نہیں ہو رہا ہے،، بیت المقدس یہودیوں کے قبضے سے آزاد نہیں ہو رہا ہے،، خود خانۂ کعبہ میں پہلے کی طرح نماز میں شامل ہونے کی سب کے لئے اجازت نہیں ہے یہ سارے حالات لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہیں کعبہ شریف کل بھی معظم و محترم تھا اور آج بھی ہے اور صبحِ قیامت تک رہے گا فرق یہ ہے کہ کل اس مقدس مقام کی زیارت کرنے والے بھی معظم و محترم تھے اور آج لوگ وہاں پہنچتے بھی ہیں اور خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہیں لیکن لین دین صاف نہیں رہتا ، تجارت میں دھوکہ دہی پھر اسی پیسے سے وہاں پہنچتے ہیں ، مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی روک کر پہنچتے ہیں، مسلمان ہو کر مسلمان سے بغض رکھ کر ، حق مار کر وہاں پہنچتے ہیں اور خوب نمائشی انداز ہوتا ہے بتاؤ کیسے دعا قبول ہوگی، ایک مسافر تھکا ماندا فجر،ظہر،عصر،

مغرب و عشاء کی نماز کے بعد باربی یاربی کی صدائیں بلند کرتا ہے، تہجد بھی ادا کرتاہے پھر رو رو کر دعائیں کرتاہے اے اللہ مجھے یہ دے مجھے یہ دے لیکن اللہ کہتا ہے اے میرے بندے میں تجھے کچھ نہیں دوں گا،، بندہ کہتاہے کہ اے اللہ تو نے تو کہا ہے کہ میں مسافر کی دعا ضرور قبول کرتا ہوں اللہ کہتاہے کہ اے میرے بندے  تو سچ کہہ رہا ہے  لیکن تجھے صرف میرا وعدہ یاد ہے اور شرائط یاد نہیں،، و ملبسہو حرام، و مشربہو حرام، ومکانہو حرام یعنی جو لباس تونے پہن رکھا ہے وہ مال حرام کا، جو تو پی کر آیا ہے وہ مال حرام کا، جس مکان تو رہتا ہے وہ مکان مال حرام کا بتا کیسے تیری دعا قبول کروں میں تو پاک ہوں اور پاکی کو پسند کرتا ہوں میری رحمت پاک لوگوں کے لئے ہے، میری جنت پاک لوگوں کے لئے ہے،، اور احادیث کی کتابوں سے یہ ثابت ہے کہ حرام کا لقمہ حلق میں یا پیٹ میں ہوگا تو دعا کرتے کرتے کمر تیر سے ٹیڑھی ہوکر کمان کی طرح کیوں نہ ہو جائے لیکن اس کی دعا ایک بالشت سے اوپر نہیں جائے گی،، ایک مہینہ رمضان کا روزہ رکھنے کے بعد بھی اس کے اثرات ہماری زندگی پر مرتب نہیں ہوتے، حضرت طفیل توسی نبی کو نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے سنا تو بیچین ہو گئے، عبداللہ ذوالمجادین نے جنگل بکریاں چراتے ہوئے تلاوتِ قرآن سنا تو بیچین ہو گئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے اور ہم نے ایک ماہ تراویح میں قرآن کی تلاوت سنا پھر بھی کوئی اثر نہیں ہوا یہ لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے،،

سحری و افطار میں عمدہ قسم کے پکوان کا انتظام تو کرتے ہیں لیکن اپنے دائیں بائیں نہیں دیکھتے، ہم دعائیں پڑھتے ہیں لیکن اس کا مطلب نہیں جانتے، ہم دوستی تو کرتے ہیں لیکن اس کی پاکیزگی کو نہیں سمجھتے، ہم اپنے بچوں کو مساجد میں بھیجتے ہیں لیکن ان کو مساجد کے اداب نہیں بتاتے، ہم سرپرست تو بنتے ہیں لیکن سرپرستی کی ذمہ داری نہیں نبھاتے اور یہی وجہ ہے کہ آج پھر مسلمانوں کے بچے شراب پینے لگے، مسلمانوں کے بچے جوا کھیلنے لگے، دوست ہو کر بھی دوست کو برائے مخاطب ماں بہن کی گالی دینے لگے انہیں مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی تعداد سمندر کے جھاگ کے مانند ہوگی لیکن ایمان بہت کمزور ہوگا ، مفاد پرستی کا بول بالا ہوگا برائیاں اس قدر بڑھ جائیں گی کہ طرح طرح کی وباؤں کے پھیلنے کا اندیشہ ہو گا،، اور آج شائد وہ وقت آگیا،، آج ہمارے پاس دولت ہے ہم شادی بیاہ کرسکتے ہیں، مکانات کی تعمیر کرسکتے ہیں، اشیاء خوردونوش اور کپڑوں کی خریداری کرسکتے ہیں لیکن خواہش رکھتے ہوئے بھی ماضی کی طرح حرمین شریفین کی زیارت نہیں کرسکتے، رمضان المبارک کا مہینہ ہے بیشمار خاندان ایسے ہیں جن کے پاس سحری و افطار کا انتظام بڑی مشکل سے ہوتا ہے کئی کئی دن لاک ڈاؤن رہتا ہے اور جب کھلتا ہے تو مارکیٹ میں نقاب پوش خواتین کی قطاریں نظر آتی ہیں یعنی ہم بھول جاتے ہیں کہ کہیں آج اسی بے حیائ اور بے غیرتی کے مظاہرے کی سزا تو ہمیں قدرت کی طرف سے نہیں مل رہی ہے کیونکہ اللہ نے فرمان جاری کیا ہے اور رسول کائنات نے اعلان کیا ہے کہ اے عورتوں تم اپنے گھروں کو لازم پکڑلو،، احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو دھوکہ دینے والا مؤمن نہیں اور جدید روشن خیالی کو دیکھا جائے تو آج مکاری، بے ایمانی دھوکہ دہی کو چالاکی اور سپر کوالٹی سے تعبیر کیا جانے لگا تو کیا شریعت کو طبیعت کے رنگ میں ڈھال نے کی سزا نہیں ملے گی،، اب بھی وقت ہے سنبھلنے کا جس طرح مختلف دروازے بند ہورہے ہیں ارے کہیں توبہ کا دروازہ بند نہ ہو جائے اس لئے سر بسجود ہوجا، حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے تیار ہوجا اللہ نے مچھلی کے پیٹ میں یونس علیہ السلام کی حفاظت کی، دریائے نیل میں راستہ دے کر اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کی، اللہ نے کفل کے گناہوں کو معاف کیا، بنی اسرائیل کا وہ نوجوان گناہ کرنے کے بعد خوف خدا کی وجہ سے لرز کر اپنے آپ نذر آتش کرنے کا اپنی اولادوں کو نصیحت کیا تو اللہ نے اس کے گناہوں کو بھی معاف کیا اور اللہ نہیں معاف کرے گا تو معاف کرے گا کون؟ اس لئے آؤ دعا کریں کہ  اے اللہ ہم گنہگار ہیں، خطاکار ہیں، سیاہ کار ہیں، بدکار ہیں لیکن اے اللہ ہم تیرے بندے ہیں تیرے محبوب کی امت ہیں ہمیں معاف فرما، سسکتی ہوئی انسانیت کو سکون عطا فرما، علمی میدان کو خالی نہ فرما، ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی توفیق عطا فرما، توبہ و استغفار کی سعادت نصیب فرما، اور اپنے گھروں کا دروازہ ہمارے لئے کھول دے ہماری دعاؤں کو قبول فرما، کورونا وائرس جیسی عالمی وبا کا خاتمہ فرما آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم آمین یارب العالمین – 

جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے

زکوۃ کی حقیقت اور اس کا حکم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے