آو کسی غریب و محتاج کو سھارا دیں

 

 از قلم ، مفتی محمد ضیاءالحق  فیض آبادی 

 

اسلام پوری دنیا کے لئے مکمل نظام حیات ہے اسلام میں ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے ۔اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا ۔ہر ایک کے لیے ایسے اسباب و ذرائع ابلاغ مھیا کر دیا ہے ۔کہ اللہ عزوجل کے بندے آسانی کے ساتھ زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے شب و روز شائستگی اور شگفتگی کے ساتھ بسر کر سکے ۔یتیم و مفلس ونادار  اور لا وارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں۔ان کی مکمل کفالت اور ان کے حقوق کی پاسداری ہے ۔اور اس سے صرف نظر کر لینا ان کے حقوق کے تقدس کی پامالی ہے اسلامی تعلیمات ہر طرح سے اپنے چاہنے والوں کے لیے مکمل نظام زندگی بیان کرتی ہے چاہیے وہ معاشراتی زندگی ہو یا کہ سیاسی زندگی ہو یا انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی ہو اس وقت جو بات موضوع بحث ہے وہ ہے معاشرے کے ایک خاص حکم کی جو ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد ہونے سے روکتا ہے میری مراد ہے غرباء و یتماں اور مساکین کی دل جوئی  اور ان سے الفت و محبت ان کی ضروریات زندگی کا پاس و لحاظ اور ہمدردی و غمگساری اسلام کی ایسی پاکیزہ تعلیمات ہیں جو معاشرے کو تباہ وبرباد ہونے سے بچاتی ہیں ۔

محتاجوں، غریبوں، یتیموں، اور ضرورت مندوں کی مدد،مزاج پرسی، حاجت روائی اور اور دل جوئی کا پس و لحاظ کرنا اسلام کا بنیادی درس (نقطہ نظر ) ہے ۔ دوسروں کی امداد کرنا اور ان کے ساتھ حتی المقدور تعاون کرنا ان کے لیے روز مرہ کی ضرورت کی  اشیاء فراہم کرنا دین اسلام نے کار ثواب اور اللہ عزوجل کو راضی کرنے کا نسخہ کیمیا بتایا ہے ۔خالق کائنات اللہ عزوجل نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی  حتی المكان مدد کرے ۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔*ليس البر ان تولواوجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من أمن بالله و اليوم الآخر و الملائكة والكتب و النبين و اتي المال على حبه وذى القربى و اليتمى والمسكين و ابن السبيل والسائلین وفى الرقاب و اقام الصلاة و اتي الزكوة و الموفون بعهدهم إذا عهدوا و الصبرين في الباساء و الضراء و حين الباس أولئك الذين صدقوا و أولئك هم المتقون. سورة البقرة 177

ترجمہ *کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصل نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گروئیں چھوڑنے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنھوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیز گار ہیں*(ترجمہ کنز الایمان )

اور دوسرے مقام پر اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا 

* یسئلونك ماذا ينفقون قل ما انفقتم من خير فللوالدين و الاقربين و اليتمى والمسكين و ابن السبيل و ما تفعلوا من خير فان الله به عليم* سورة البقرة 215

 ترجمہ *تم سے پوچھتے ہیں ۔کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں محتاجوں 

اور راہ گیر کے لیے ہے اور جو بھلائی کرو بےشک اللہ اسے جانتا ہے*(کنز الایمان )

ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ پاک کی خوشنودی کی طلب میں دل کی خوشی سے خرچ کرتے ہیں ۔تو وہ لوگ تنگ دستی اور حاجت کے وقت میں بھی اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کریں قرض حسن یا صدقات و خیرات کے لیے لازم و ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک بڑی رقم ہی خرچ کریں یا اسی وقت امت مسلمہ کی مدد کریں ۔جب ہمارے پاس دنیاوی وسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے دنوں میں بھی ہمیں حسب استطاعت مدد کرنے کے لیے پیش پیش رہنا چاہیے ۔جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان عالی شان ہے

الذين ينفقون في السراء والضراء (سورة آل عمران 134)ترجمہ وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں (کنز الایمان )

ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلے میں گناہوں کی معافی اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں مفسر قرآن صدر الأفاضل سید نعیم الدین علیہ الرحمہ اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان فرماتے ہیں یعنی ہر حال میں خرچ کرتے ہیں ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن العیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا یعنی خدا کی راہ میں دو تمہیں اللہ عزوجل کی رحمت سے ملے گا  (بخاری ومسلم شریف )

سماجی کامیابی کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بکسوں، اور معزورں ،بیماروں، بیواؤں، غریبوں،یتیموں لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و کامرانی ہے اور ضروریات زندگی کا خیال رکھنا درس عظیم ہے۔اسلامی تعلیمات کا اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اس حوالے سے  متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے  حکم دیا ہے  ان کی دل جوئی کی جا ے انہیں بے سہارا نہ چھوڑا جائے مگر  ایک بات کا ہم سب کو خصوصیت کے ساتھ خیال رکھنا چاہیے  انہیں صدقات و خیرات و عطیات دے کر ان پر احسان نہ جتایا جائے کیونکہ دے کر احسان جتانا تمہاری نیکی کو برباد کر دے گا ۔اللہ عزوجل قرآن مجید میں میں مومنین سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو اپنے صدقات ضائع نہ کرو لینے والوں کو ایذا دے کر آج ہماری قوم  حال یہ  ہو چکا ہے غریبوں کی مدد کرتے وقت کچھ مال اس کے ہاتھ میں دے کر تصاویر لی جاتی ہے اس تصویر کو فیس بک پر اپلوڈ کرتے ہیں  اور اخبارات وغیرہ میں بھی نکلواتے ہیں  اس غریب عزت دار کی  عزت کا جنازہ نکلتے ہیں اس طرح کا یہ فعل بدترین گناہ ہے لہذا اس قبیح عمل سے ہماری قوم کو پرہیز کرنا چاہیے  یہ تھوڑے ہی آپ ہم ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں جو انہیں سر عام رسوا کر رہے ہیں یہ تو عین عبادت اور حکم ربی ہےاگر ہم اس سے صرف نظر کر لیں تو یقینا یہ ہمارے ایمان کے لیے کوئی سعادت مندی کی بات تھوڑی ہوگی ۔

اے ہماری قوم کے خیرخواہوں ان غرباء و محتاجوں کی بے کسی کا تماشا مت بناؤ ۔ان کی عزت و توقیر کو سر بازار نیلام مت کرو یہ اسلام کی تعلیمات نہیں ہے بلکہ ابلیسی مکرو فریب ہے ورنہ حکم تو یہ ہے  لینے والا ہاتھ بہتر ہے  دینے والے سے۔

احادیث مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں بار ہاں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ یتیموں محتاجوں مفلسوں کی امداد کی جائے اور ان کے ساتھ  حسن سلوک سے پیش آیا جائے ۔سرکار مدینہ سلطان با قرینہ قرار قلب و سینہ فیض گنجینہ صاحب معطر پسینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خود بھی ایسا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو یتیموں کے والی غریبوں کے مولی ملجا تھے آپ کی چشم مبارک نم ہو جاتی تھی جب کسی لاچار و مفلس کو دیکھ کر ۔

اللہ کے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یتیموں اور مسکینوں محتاجوں کے بارے میں اپنی امت کے خیر خواہوں کو کیا کیا تعلیم دیا ہے  

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کے سخت ہوجائے کے بارے میں ذکر کیا تو کریم آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکینوں کو کھانا کھلاو اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھو ۔

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کثرت سے ذکر الھی مشغول رہتے عام بات چیت بھت کم فرماتے ۔آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نماز کو طول فرماتے اور خطبے کو مختصر اور آپ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بیواؤں اور مسکینوں کی حاجت روائی کرنے کے لیے ان کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے 

حضرت ابو امامہ  رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا مقصد صرف الله عزوجل کی خوشنودی حاصل کرنا تھا ۔تو اس کے لیے ہر اس بال کے بدلے نیکیاں ہیں جس جس بال کو اس کا ہاتھ لگا تھا جس نے اپنی زیر کفالت کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے ۔اپ کریم اقا نے اپنی شھادت کی انگشت مبارکہ اور درمیانی انگشت مبارک میں تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔

*عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "انا و كافل اليتيم في الجنة هكذا "و قال يا صبعيه السباحة والوسطى* 

ترجمہ۔نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہونگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت اور بیچ والی انگشت مبارک سے اشارہ کیا (باب فضل من يعول يتيما بخاري شريف)

حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ  (ان کے والد ) حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ خیال ہوا کہ انہیں اپنے سے کم تر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،تم لوگ تو انھیں کمزوروں کی وجہ سے مدد کئے اور رزق دیئے جاتے ہو۔(بخاری شریف )

ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ان لاچار و مفلس ونادار لوگوں کی مدد کرنا حکم نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے طریقہ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی بحیثیت امت یہ ہم غلامان محمد مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے عین عبادت ہے اس میں ہم غلامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فلاح و کامرانی ہے پر اس بات کا خیال رہے کہ ہمارا یہ عمل خیر صرف عبادت ہو تجارت نہ بنے۔

اس دور پر فتن میں جھاں امت مسلمہ انتہائی کرب و اذیت میں مبتلا ہے ہر چھار جانب امت مسلمہ کی چینخ و پکار بلند ہو رہی ہے بچے بوڑھے مردوں زن قربان ہو رہے ہیں ہزاروں قیمتی افراد بے گھر بےسھارا (بے یارو مددگار )در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنی حالات کو یاد کر کے خون کے آنسو بہا رہے ہیں تو وہی پر امت مسلمہ کی ایک کثیر تعداد مختلف شہروں و مختلف  ممالک میں  کچرے سے کھانے کے چند لقمے چن رہی ہے اور اپنی شکم آگ کیب کو مٹا رہی ہے ۔چھوٹے چھوٹے بچے روٹی کے لقمے  نہ ملنے کے سبب اپنی یڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کر رہے ہیں ۔

تو ایسے میں ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں بیواؤں اور یتیموں و مفلسوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کہ بے سھارا و بے کس ہیں جن کے پاس سبحانہ تعالٰی کے نام کے سوا کچھ بھی نہیں ۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ عید قریب ہے ایک دن کا فاصلہ ہے پر یتیموں کے گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہیں بیوائیں اپنی بے بسی و لاچارگی کی مار کو برداشت کر رہی ہیں پر انکی مدد کرنے والا کوئی موجود نہیں ان کی آنکھوں سے بھتے موتیوں کا سمندر ان کا درد بیان کرنے کو کافی ہے اور وہ بیوائیں اپنے رب کے حضور لرزتے ہوے ہونٹ اور آنسوؤں کی شکل میں پیش کر کے امداد کی  بھیک مانگ رہی ہیں ۔اور ایسے بھی یتیموں کی تعداد کچھ کم نہیں ایسے بھی یتیم اور بیوہ ہمارے مابین موجود ہیں جن کے والد و شوہر نے اپنی پوری زندگی ملت اسلامیہ کی بقا و تحفظ کے لئے قربان کر دی تو یہ فریضہ ہم پر بھی اب عائد ہوتا ہے کہ ان بچوں کا خیال رکھیں ان کی بیواؤں کی مدد کریں ۔اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو یقینا وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ نہ کرے کوئی غلط قدم اٹھا لیں کیونکہ لاچارگی انسان سے اس کی پہچان ہی نہیں اس کی عزت و توقیر بھی چھین لیتی ہے۔

ان مبارک ساعتوں میں ان کی امیدیں بھی ہم سے وابستہ ہیں ۔ کہ اب امت مسلمہ کے خیر خواہ ہماری مدد کرینگے ۔ اور ہم بھی اپنا چولھا گرم کریں گے ۔تو اے ہم اپنے اس پاس میں اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ کہیں ہمارا حال ایسا تو نہیں کہ جن کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ وہ مومن ہی نہیں جو خود شکم سیر ہو جائے اور اس کا پڑوسی بھوکا پیاسا ہو ۔

*ایک اور یاد دہانی امت مسلمہ کے خیر خواہوں کے لیے*

اکثر و بیشتر ہمارے معاشرے میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ھے کہ ماہ صیام کے آخری عشرے کے آخری دنوں میں صدقات و خیرات دینا زیادہ بہتر ہے ۔ایسا کچھ بھی نہیں میرے عزیزوں ہم جو رمضان المبارک کے پھلے عشرے کے اختتام پر ہی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بچوں کے مختلف انواع و اقسام کی خریداری کرتے ہیں رقم الحروف کا ملت اسلامیہ کے لوگوں سے سوال ہے کیا یہ یتیم بچے بیوائیں اپنی ضروریات صرف ایک دن پہلے ہی  عید کی پوری کر سکتے ہیں ایک بار دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے کہ اللہ عزوجل نہ کرے اگر یہ ہمارا بچہ ہوتا گر یہ بیوہ ہماری بھن یا بیٹی ہوتی تو کیا تب بھی ہم اس کی اعانت ایسے ہی کرتے ہر گز نہیں ۔تو پھر رسول رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امت کے بچوں اور بیواؤں سے یہ سلوک رکھنا ہم باعث فخر ومسرت سمجھتے ہیں ۔زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ ان کی مدد پہلے سے ہی کی جاتی تاکہ یہ اپنی ہلکی پھلکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پریشان نہ رہتے۔

*دوسری*

ہم یہ جو ایک دو روپیہ یا زیادہ سے زیادہ دس بیس روپیہ کسی غریب و محتاج کو تھما دیتے ہیں اس سے تو ممکن ہی نہیں کہ یہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں بہتر یہ ہوتا کہ اگر ہم ان کی کم از کم کوئی ایسی ضرورت خود ہی پوری کرتے جو ان کو حاجت ہوتی یہ بات بھی کوئی فرض عین  نہیں ہے کہ جو صدقہ فطر کی رقم مقر کی گئی ہے اس سے زائد ایک روپیہ بھی نہیں دینا ہے میرے بھائی ہم سے جتنا بھی ہو سکے ہماری جتنی استطاعت ہو ہمیں ان کی اعانت کرنا چاہے اللہ تعالٰی تو کبھی  بھی ہمیں گن گن کر نہیں دیتا بلکہ اللہ پاک کا فرمان ہے والله يرزق من يشاء بغير حساب. 

تو ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ۔اللہ عزوجل سے دعا ہے مولی اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صدقے یتیموں اور مسکینوں محتاجوں و بیواؤں کی اعانت کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین یا رب العالمین

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے

زکوۃ کی حقیقت اور اس کا حکم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے