یک گستاخ و صد عشاق

از قلم:- محمد عثمان ابنِ سعید بمبوی

متعلم عربی اول جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل

ایک لمحے کے لئے تاریخ سے صرفِ نظر کرکے پچھلے سال کا ہی تصور باندھ لیجئے، عرب و عجم، چین و ایران، ہند و خراسان، روس و افریقہ، یورپ و امریکہ، غرضیکہ ہر ملک اور ہر شہر کی سڑکیں ویران تھیں، بازار خاموش تھے، کاروبار ٹھپ تھے، دنیا بھر میں ہو کا سناٹا طاری تھا؛ لیکن اسی خاموش منظر میں روزانہ پانچ وقت دنیا بھر کی مساجد کے میناروں سے ایک صدائے جاں فزا و معطر کناں بلند ہورہی تھیں گویا 'ورفعنا لك ذكرك' کی تفسیرِ دل پذیر مجسم ہو ہو کر نظروں کے سامنے آجا تی تھیں۔ 
          واہ! کیا شان ہے ہمارے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جنہیں خود خالق کائنات نے فرمایا ہے کہ "ہم نے آپ کے ذکر کو بلند و بالا اور اعلی و ارفع کیا"۔ جسے وہ بلند کردے اسے کون 'ابو جہل' پست بتا سکتا ہے؟ جسے وہ اچک لے اسے کون 'عتبہ' یا 'شیبہ' گرا سکتا ہے؟ جسے وہ اپنا کہہ دے اسے کس 'ابنِ اُبی' کے چھوڑ جانے کا غم ہو؟ جسے اللہ کا سہارا ہے اسے کس گستاخ 'نرسنگھ آنند' کی پرواہ ہو؟
          پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان ہمیشہ ہمیش کے لئے بلند و بالا تھی، ہے اور رہے گی۔ آپ کی شانِ بالا تر  کسی عقیدت مند کی مدح خوانی کی محتاج نہیں اور نہ ہی کسی بے عقل دشمن کی شپرہ چشمی سے آپ کے مرتبے میں سرِ مو کٹوتی ہو سکتی ہے۔ البتہ عقیدت مند عاشق سعادت و کامرانی سے ہمکنار ہوگا اور بے عقل گستاخ قعرِ ذلت و رسوائی  میں اوندھے منہ جا گرے گا۔
          نرسنگھ آنند کی بکواس جہاں آج اسے اپنے ہم خیالوں میں مقبول و منظور بنانے کا باعث ہے وہیں شیدائیانِ اسلام و فدائیانِ پیغمبرِ خیر الانام کے لئے بارِ خاطر ہے۔ ہم ناموسِ رسالت کے نعرہ زنوں کے لئے مقامِ فکر ہے کہ آخر اس گستاخ میں اتنی ہمت و جرات آئی کہاں سے؟
          در اصل ان جیسوں کو ہم ہی نے مواقع فراہم کئے ہیں، شاید اس بات سے آپ متفق نہ ہوں لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے کہ اگر براہ راست ہماری ملت و شریعت سے جڑے  بابری مسجد اور طلاق ثلاثہ جیسے معاملوں میں ہم چپی نہ سادھتے اور ہمارے خلاف ہونے والی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیتے تو کیا آج کھلے عام ہمارے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر یلغار کرنے کی ان کائروں اور بزدلوں کو جرات ہوتی؟ اتنے مسلمانوں کی اس ملک میں بود و باش ہونے کے باوجود کون 'آ بیل مجھے مار' کا مصداق بننے کی ہمت کرپاتا؟
          خیر! ماضی پر پچھتا کر حال بگاڑنے سے مستقبل روشن نہیں ہوتا، 'کیا کردیا' کے دلدل سے نکل کر 'اب کیا کرنا ہے؟' کے میدان میں آجائیں اور رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عظمت پر کیچڑ اچھالنے والے ذلیلوں اور ان ذلیلوں کی پیٹھ تھپتھپانے والے رذیلوں کو جواب دیں۔
          شہادتِ بابری کے موقع سے خاموشی بلکہ کہیے کہ بزدلی کا عذر لنگ ہمارے پاس یہ تھا کہ کسی لیڈر یا سربراہ نے احتجاج کی اپیل نہیں کی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اب بھی ہم اس نامعقول عذر کو  عذرِ معقول گرداننے لگ جائیں یا ہماری بہانہ جو طبیعتیں وائرس اور لاکڈاون کا بہانہ تراشنے لگیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی کم ہمتی کا دوش اپنے قائدین کو دیتے ہیں، اگر کسی کی قیادت منظور نہیں تو اپنے حلقہ اثر کے احباب کو لیکر نکل جائیں، محلے کے کنارے تک ہی سہی لیکن اپنی زندہ ضمیری کا ثبوت تو دیں۔
          کم سے کم درجے میں اپنے جذبات کا تو کھل کر اظہار کریں اور تمام شرپسندوں سے کھلم کھلا کہہ دیں کہ اگر باز نہ آئے تو پوری دنیا وہی منظر پھر دوبارہ دیکھے گی جو سی اے اے (CAA) اور این آر سی (NRC) کے موقع سے ہم نے پیش کیا تھا، شہادتِ بابری پہ خاموشی نے تمہیں جو ڈھارس بندھائی ہے وہ اب معین نہ ہوگی، اب بات ہمارے نبی تک آپہنچی ہے لہذا اب برداشت کا کوئی جواز ہمارے لئے باقی نہیں رہ گیا ہے۔
          ممکن ہے کہ اس میں ہماری آزمائش ہو، مبادا ہم اس آزمائش میں پورے نہ اتریں تو اپنے انجام پر خون کے آنسو رونا پڑے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمت، جرات، غیرت و حمیت جملہ اوصاف سے متصف فرمائے۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ 

«
»

غیرمسلم میت اور اسلامی تعلیمات

"پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے”””

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے