"پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے”””

 
   تحریر : ام ماریہ فلک(ممبرا)
 
"اللہ کے نام پر دے بیٹا، اللہ تیرا بھلا کرے گا " یہ وہ صدا تھی۔ جس نے میرے قدم روک دیئے اور میں نے  پرس سے کچھ روپئے نکال کر اس کے ہاتھوں پہ رکھے، ساتھ ہی ایک سرسری نگاہ اس سائل پر ڈالی۔ دھول مٹی سے اٹا ہوا بوسیدہ لباس، جو کہ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، ہاتھوں اور پیروں پر گرد جمی ہوئی تھی، بال بکھرے ہوئے اور آنکھیں، آنکھیں ہر ایک سے سوال کر رہی تھیں۔تبھی دوچار خوش پوش (شاید غیر مسلم) لڑکے اُس سائل کے قریب سے گزرے۔ اور سائل نے اپنا سوال دوہرایا "اللہ کے نام پر دو بیٹے، اللہ تمہارا بھلا کرے گا"۔  
"اگر اللہ کو بھلا کرنا ہو تو وہ تمہارا بھلا ہی کردے، ہمارا بھلا تو ہوتا رہے گا" ان لڑکوں میں سے ایک نے حقارت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے فوراً جواب دیا۔ اور وہ  اس بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔اس لڑکے کی بات میرے دل پر تیر سی لگی۔  دل و دماغ میں سوالات کی دھڑ پکڑ شروع ہوگئی۔ کہ کیا واقعی اِس سائل کا اللہ کی ذات پر اتنا بھروسہ تھا؟ جو لوگوں سے سوال کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ "اللہ تمہیں دے گا"۔ یا سوال کرنے والا محض اپنی جھولی بھرنے کے لئے اللہ کا نام استعمال کر رہا تھا؟ اور اگر، واقعی اِس سائل کو اس بات کا یقین ہے کہ اللہ ہی سب کو دینے والا ہے۔ تو پھر اس کا لوگوں سے سوال کرنا۔ چہ معنی دارد؟
نجانے کتنے ہی ضرورت مند ایسی حقارت بھری نظروں کا شکار ہوتے ہوں گے، نجانے کتنے حالات کے مارے، تنفر اور ذلت کا نشانہ بنتے ہوں گے  اور نجانے کتنوں کا سینہ؛ ایسی کراہیت بھری نظروں اور کرخت لہجوں سے چھلنی ہوا ہوگا۔ان سوالات سے گِھری میں گھر کی طرف قدم بڑھا رہی تھی، کہ تبھی دل کے کسی حصے سے جوابات آنابھی شروع ہوئے۔ کہ حقارت، تنفر، ذلت تو چھوٹے لوگوں کا کام  ہے۔ان لوگوں کا جو رعونت ، گھمنڈ اور تکبر سے لیس خود کو اپنے سے کمتر لوگوں کا خدائی فوجدار سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور سوال کرنے والوں کو پل بھر میں ذلیل و رسوا کر چھوڑتے ہیں۔
 ورنہ ہمارا خدا، جو خالقِ دو جہاں ہے۔ جو فیاض ہے اور فیاضی کو پسند کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے، اس سے مانگا جائے۔ اور اس رب کی  شان یہ ہے کہ اُسے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے دستِ سوال دراز ہو۔۔ اور اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں کئی جگہوں پر  بندوں کو صرف اور صرف اُسی سے مانگنے کا سلیقہ بھی سکھایا ہے، کبھی "اُدعُونِی اَستَجِبْ لَکُم" کہہ کر۔ تو کبھی "وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي" کے ذریعے اپنے بندوں کو یقین دلایا کہ میں ہمیشہ تمہارے لئے تمہارا حاجت روا ہوں۔ اور کبھی "أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ" کہہ کر "بغیر کسی شرط کے ساتھ" اپنے مہربان ہونے کا اعلان کر دیا اور تو اور ہر رات کے آخری پہر وہ اپنے بندوں کو پکارتا ہے کہ "ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟". " ہے کوئی ضرورت مند جو اپنی حاجات مجھ سے بیان کرے اور میں اس کی مشکلات آسان کروں؟۔ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ میں  اسے بخش دوں؟؟"پھر! یہاں نہ کسی ذلت کا خوف ہے، نہ حقارت بھری نگاہ، نہ کرخت لہجہ، نہ ہی محروم کر دئیے جانے کا خدشہ۔ تو آخر کون 
سی چیز ہے! جو ہمیں در در کا سوالی بناتی ہے؟۔
 "یہ یقیناً ہمارا اپنے رب پر سے یقین اور اعتماد کی کمی ہے۔ اوراُس کے مسبب الاسباب ہونے کو نہ سمجھ پانا ہی ہمیں زمانے میں خوار کرواتا ہے"گھر پہنچتے پہنچتے میں بھی نتیجہ پر پہنچ گئی۔ اور اللہ رب العالمین کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے ہونے کے احساس کو میرے دل میں  زندہ رکھا۔ وہی احساس جو ہر حال میں دلوں کو اُس کے وجود کا یقین دلاتا ہے۔
 
 
 

«
»

موت کا ایک دن متعین ہے

آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں اور گستاخوں کے سروں پر کس کا ہاتھ؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے