کروناکاقہر: تنبیہات ربّانی کامظہراورانسانی خیرخواہی کا رہبر

 

     ڈاکٹر آصف لئیق ندوی (گیسٹ لیکچرر،مانو۔حیدرآباد۔مدیر رابطہ خیر امت،انڈیا)

            مذہبی بے راہ روی، سیاسی پستی،علمی وفکری تنزلی، اخلاقی انارکی،معاشی بدحالی،فرقہ پرستی،طبقاتی کشمکش اور معاشرتی لاقانونیت کی نحوستوں کیوجہ سے آج پوری انسانیت پھر اسی طرح سسکتی اور بلکتی نظر آرہی ہے کہ کوئی اسکوبیمار زندگی کے بجائے کامیاب زندگی کا نسخہ بتا سکے، اسکی ڈوبتی نیاکو پارلگاسکے،مصائب ومشکلات کے انبار،امراض واسقام کی بھرمار،شروفسادکے ماحول اور ہمہ گیرتباہی وہلاکت کی حکمرانی سے انہیں نجات دلا کرامن وامان اور چین وسکون والی زندگی میسر کراسکے!! جس طرح جاہلیت کے بھیانک اور تباہ کن  دورسے اسلام نے قافلہ انسانیت کوبڑی سرخروئی اور سرفرازی والی زندگی عطاکی، ایک روح پرورفضا، حیات بخش پیغام اور امن آفریں منزل کی طرف اسے رواں دواں کردیا،آفتاب اسلامی کی کرنوں نے زندگی کاکوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا جہاں انسانوں کی پوری رہنمائی نہ کی ہو!آج پھر انہیں لذیذ کھانے، بہترین لباس اور شاندار عمارت کی تقاضے سے زیادہ قلبی اور روحانی سکون کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، دو نوالہ کھانا جوکہ انکی رمقِ حیات کو باقی رکھ سکے اور ایسا صبر و سکون جو انہیں دن میں چین اور رات میں آرام پہنچا سکے اور ایسی چھاؤں جس کے سائے تلے وہ بلا خوف وخطر اپنی محنت و مشقت سے کچھ روزی وروٹی کما سکے،جو انکے لیے اور ان کے خاندان والوں کے لئے کافی ہو جائے!آج اسی باد بہاری،خوشگوار زندگی اورہمہ گیر انقلاب وتبدیلی کی قافلہئ انسانیت کو شدت سے تلاش ہے! کتنے ایسے تلخ واقعات اور دلخراش مشاہدات ومناظر ہیں جو ناقابل بیان اور ناگفتہ بہ ہیں،بیس کی ٹیس اور اسکے منظرنامے سے کون شخص ہے جو واقف نہیں ہے، گذشتہ سال کے تلخ واقعات، اقلیتوں اوراپنے مطالبات لیے طویل احتجاج پر بیٹھے کسانوں کیساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے! کون ہے جو حکومت کی غلط پالیسی سے آگاہ نہیں ہے، انکے حقوق غصب کئے جارہے ہیں،جس سے صرف ملک کی عوام ہی نہیں بلکہ دنیا کے انصاف پسند لوگ اورکائنات کاپالنہار بھی ناراض ہے!جرائم پیشہ لوگوں کے ظلم وزیادتی اور شرپسندوں کو کھلی چھوٹ فراہم کرنے کیوجہ سے ملک کی شبیہ عالمی طور پربہت خراب ہوئی ہے، ایک طرف وباوقہرکی ہولناکی اوراسکے لیے طویل لاک ڈاؤن نے ملک کی معیشت اور ذرائع آمدنی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تو دوسری طرف بدعنوانی اورارباب اقتدار کی اوچھی سیاستوں نے ملک اور اسکے جمہوری نظام اور گنگاجمنی تہذیب کو خاصا نقصان پہونچایا ہے، کرونا کی وجہ سے آج ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے دوری اختیار کئے ہوئے ہے، معمول کی سوشل لائف کا سلسلہ اب بھی صحیح سے بحال نہیں ہوسکاہے اور اسکی وجہ سے آدمی اپنے لئے ساری دکھ تکلیف برداشت کر رہا ہے حالانکہ قدرت کی طرف سے انسانی زندگی کا نظام عمل ہی کچھ ایسا ہے کہ جس سے ایک انسان دوسرے انسان کی زندگی سے جڑا رہ سکے اور اسکی مددواعانت کرتا رہے،کیونکہ پوری مخلوق اللہ کا ایک کنبہ ہے، جس طرح آج ہم اپنے مضر اثرات سے دوسروں کو محفوظ رکھنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کررہے ہیں، کل ہمیں اسی طرح دوسرے انسان کو اپنے مفید اثرات سے مستفیض کرنے کا سبق حاصل کرلینا چاہیے اور آپسی اختلافات اور ادیان کے جھگڑوں کو نفرت و عداوت اور خونی نزاع کا سبب نہ بنانا لیناچاہیے! مگر افسوس! بعض شرپسندوں اور فرقہ پرستوں کے ظالمانہ رویوں، بہیمانہ سلوک اور ناشائستہ برتاؤ نے آج ہمیں قہرِ خداوندی کا وہ بوجھ اٹھانے پر مجبور کردیا ہے،جسکی وجہ سے نیک و بد،متقی و بدبخت اور طلباء و طالبات سب اپنے گھروں میں محبوس و مقید ہو کر رہ گئے ہیں، اس طرح غیروں کے جرائم ومظالم اور خشکی و تری میں بدکار لوگوں کے گناہوں اور برے کرتوتوں نے پوری انسانیت کو انکے گناہوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کردیاہے جوتاریخ انسانی کا نہایت ہی شرمناک دورہے۔

             جرائم پیشہ افراد کی حکمرانی اورغلطی سے اکثریت کا انکو انتخاب کرکے وزارت کی کرسی حوالے کرنے کے اس رویے اور طریقے سے رب کائنات بھی ناراض ہے، گناہوں پرانسانیت کی خاموشی اورمظالم و جرائم پر روک ٹوک کا سلسلہ بند کر دینا ہی انسانیت کا وہ قصور اور جرم ہے۔جسکے بارے میں پروردگار عالم کا کھلا چیلنج ہے:کہ”ڈرو اس فتنے سے جو اترے گا تو کسی برے یا بھلے کی تمیز نہیں کرے گا“بلکہ سب کو اپنی لپیٹ اور گرفت میں لے لیگا، جیسا کہ آج ایک بے قصور انسان بھی قوت وطاقت رکھتے ہوئے رزق کی تنگی سے دوچارہے!!مہنگائی کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے، نوکریوں کی عدم فراہمی کا شکوہ کررہا ہے، بے روزگاری کی بڑھتی ہولناکی سے جوجھ رہا ہے، کاروبار ڈھپ ہوکر رہ جانے کا گلہ کررہا ہے، ظالموں کے ظلم و زیادتی،مظلوموں،کمزوروں،مجبوروں،کسانوں،بے کسوں اور بے زبانوں کے حقوق تلفی اور ملک میں بڑھتے ناانصافی اور قتل و غارت گری کے مختلف واقعات نے ہم سب کو کرونا کے قہرمیں گرفتار کررکھا ہے،پھر بھی بدعنوانیوں کا سلسلہ بند نہیں ہورہا ہے اوراس پرروک ٹوک سے ہم بھی اپنامنہ پھیرے ہوئے ہیں اور ہماری اسی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے میں تنبیہات ربانی ہم پر نازل ہورہی ہیں، جو ہم سبھوں کوبڑی سزا و عقاب سے متنبہ کررہی ہیں اور انسانیت کو مستقبل میں صحیح زندگی بسر کرنے کی بھر پورتلقین کر رہی ہیں،فاعتبروا یاأولی الأبصار۔ کیونکہ ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز نہ اٹھانااور مظلوم و کمزور کو یوں ہی بے سہارا تڑپتے ہوئے چھوڑ دینااورہندو مسلم نفرت وعدوات اورخونی نزاع کے حوالے کردینا ہر ذی شعور انسان کاگناہ اور جرم ہے۔ جس کی سزا ہم اور آپ آج بھگت رہے ہیں۔ارباب حل و اقتدار،فرقہ پرست تنظیموں اور آر ایس ایس جیسی لابیوں کا قصور بتا کر اپنا دامن چھڑالیناہماراجرم اور غیر دانشمندانہ عمل ہوگا!ظالم و مظلوم بھائی کومددفراہم کرنا ہم سب پر فرض ہے، ظالم کواسکے ظلم سے روک دینا اور مظلوموں کو ہر حال میں سہارا دینا یہی ظالم و مظلوم بھائیوں کوہمارا مددکرنا ہے۔

             ظلم وزیادتی خواہ ارباب اقتدارکے اشارے پرہو یا شر پسند عناصر وتنظیم کے ذریعے۔ اسکا روکنا ہم تمام برادران وطن پر فرض عین ہے،اسی طرح مصیبتوں میں سب کے کام آنا، ظالموں اور مجرموں سے نفرت کرنا، ان کے ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک کے خلاف آواز حق بلند کرنا، بے کسوں کی مدد کرنا، مظلوموں کی فریاد سننا، کمزوروں کی قوت بازو بننا اور اندھوں کی بصارت بن جانا،حق اور حقانیت کی راہ دکھانا یہی انسانیت کا پیغام ہے، اسکے مطابق زندگی گزارنا اور مل جل کر رہنا سہنا ہر مسلم اور غیر مسلم پر فرض ہے، اس کی خلاف ورزی کرنا عذاب الہی اور قہر خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، ہمیں پوری زندگی نیز قہرخدا سے پہلے بھی اور قہر خداسے نجات کے بعد بھی یہی اصول اپنانا اور انکے مطابق خدمات انجام دیتے رہنابہت ضروری ہے، یہی ہمارے ضمیر کی آوازبھی ہے، علاوہ ازیں دین اسلام اور رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین بھی ہے بلکہہرمسلمان کی دوگنی ذمہ داری بھیہے۔اس لئے ہم مسلمانوں کو بھائی چارے، محبت و اخوت اور انسانی خدمات کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہنا چاہیے۔ کیونکہ ظالم و جابر افراد و اشخاص سے انسانیت کو نجات دلانا اور انکی خیرخواہی اور بھلائی کے لیے پیش پیش رہنا ہماری قائدانہ ذمہ داری ہے!!   

            دنیا کے قائدین اورتمام حکمراں اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقیات کے باوجود مذہبی ودینی بے راہ روی، اخلاقی انارکی، سیاسی پستی، علمی وفکری تنزلی،طبقاتی کشمکش اور معاشرتی و سماجی لاقانونیت سے انسانیت کو نجات دلانے میں ناکام ہوکررہ گئے ہیں بلکہ اکثر تو خود خستہ حال واوصاف ثابت ہو گئے ہیں، اسی طرح وہ انسانوں کوہلاکت، شروفساد اور ہمہ گیر تباہی سے نکالنے میں بھی نکما اور ناکارہ ثابت ہوگئے ہیں، اسکی کئی وجوہات ہیں: ایک تو یہ کہ ایک طرف عالیشان تخت و تاج اور دولت و ثروت کے انبار نے جہاں انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے، تو دوسری طرف نئے نئے ایجادات و انکشافات نے انہیں بیجا غرور و تکبر میں ملوث کر دیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں تلے ہے اور بڑے بڑے تاج و تخت ان کی ٹھوکروں میں ہیں اور سب ان کے آگے سب سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں، بعض تو انکے آگے رکوع و سجود کی حالت میں ہیں اور اپنے دنیوی آقا اور ظالم فرمانروا کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں! آج کہاں چلی گئی ان کی سرداری؟اور کیا ہوا انکے تکبروغرور کو!! کہ وہ سب کے سب اپنے بادشاہ حقیقی اور پروردگار ِعالم کے آگے مجبور وبے محض بنے ہوئے گھٹنے ٹیکے اور ہاتھ باندھے کھڑے ہیں!!! آج جب کہ معمولی کرونا وائرس نے انکی نیندحرام کردی ہے اورلاکھوں جانی و مالی نقصان سے انکی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے، سب حکمراں ادنی مخلوق ِخدا یعنی”کروناوائرس“ کے سامنے بے بس اور لاچار دکھائی دے رہے ہیں اور اپنی اپنی رعایاا ور عوام کے مفادات وتوقعات کی تکمیل سے بھی قاصر نظر آرہے ہیں،  سب اپنے اپنے دعووں اور وعدوں میں کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں، دولت و ثروت کی ریل پیل اور انکشافات وایجادات کی کثرت کی خام خیالی نے انہیں خدا کے قہر سے غافل بنا دیا تھا۔

            سب کچھ کے باوجودارباب اقتداراس ادنی وبااور وائرس کی صحیح دوا بنانے پربھی قدرت نہیں رکھتے!صرف اپنے کھوکھلےاور  بلند بانگ دعووں کے ذریعہ اپنى ہى عوام کو گمراہ کررہے ہیں اور تاریکی کے وسیع غار میں دھکیل رہے ہیں! اس سے بڑھ کر ان کی بے بسی اور کم مائیگی کی دلیل اور کیاہو سکتی ہے! قرآن نے ایسے لوگوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ ''ضعف الطالب و المطلوب'' ''دنیاوی آقا بھی کمزور اور انکے مریدین بھی کمزور''، بادشاہی صرف اس پاک پردگارعالم کی قائم و دائم رہنے والی ہے، جس کے سلسلے دنیا کے قائدین اور حکمراں خود بھی دھوکے میں ہیں اور اپنی رعایا کوبھی بڑے دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں، اگر اللہ انکے ہر ظلم وستم کے سبب ان کی گرفت شروع کردے توروئے زمین پرکسی فرد انساں کا ایک قدم چلنا بھی دشوار ہوجائے الا ماشاء اللہ! مگر وہ ہے جو بہت سی باتوں اور چیزوں کو در گزر فرمادیتا ہے اوراپنے غافل بندوں کومہلت بھی عطا کرتا ہے،''وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم ویعفوا عن کثیر''۔ ترجمہ: اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اْس (بداعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے، حالانکہ بہت سی (کوتاہیوں) سے تو وہ تم کو درگزر بھی فرما دیتا ہے۔ (الشّْورٰی، 42: 30)اسی لئے کبھی کبھی چھوٹی موٹی تنبیہ سے دنیا داروں کواللہ اسلئے آگاہ کرتا ہے۔تاکہ وہ راہ راست کیطرف لوٹ آئیں۔دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (سورۃ یونس، 10: 107)۔وہ وہی پروردگارہے جو بیماریوں کی شفا بھی نازل کرتا ہے اور اسکے لئے کسی خاص بندے کے دل میں دوائی کا الہام کرتا ہے۔مگر اکثر لوگ اس کی حکمت ودانائی سے غافل ہیں۔ وہ وہی اللہ ہے جو اپنے بندوں کو دولت و ثروت اور عقل و حکمت کا انباربھی عطا کرتا ہے، بعض ان میں سے اسکا شکرادا کرتا ہے اور بعض ناشکرا بن کر اپنا ایمان و یقین گنواں بیٹھتا ہے۔ اللہ ہمیں مال و دولت کے فتنوں اور سیم و زر کے ذخیروں کی بلاؤں سے محفوظ رکھے۔آمین

تاریخ انسانی کے حوالے سے ہم مسلمان قوم کا ایک سچاواقعہ بطور عبرت بتانا چاہتے ہیں، جوقوم قیادت انسانیت کے لیے برپا کی گئی،جب انکی حالت بھی اخلاقی ومعاشرتی،مذہبی وسیاسی،علمی و فکری حلقوں میں کافی عروج  کے بعد زوال پذیر ہوتی چلی گئی اس حال میں انکی خلافت و حکومت کو کہیں سے زوال کا کوئی شک و شبہ بھی نہیں تھا،مگر جب وہ اسلامی اخلاق وکردار کے اوصاف سے عاری ہوتى چلى گئى، دنیاداری میں وہ غرق ہوکر رہ گئى، عیش و عشرت میں محوومست ہوگئى حتی کہ معدود چند کے سب اپنے اللہ اوراسکے رسول کو ہی بھلا بیٹھى، تو ان کا بھی ماضی میں وہی ناقابل بیان حال ہواا ورتباہی وبربادی سے اسطرح دوچارہوئی کہ پوری دنیائے انسانیت میں کہرام مچ گیا،جیسا کہ آج پوری دنیا میں ایک معمولی وبا سے کہرا م مچا ہوا ہے، لاشوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں، لاکھوں افراد متاثر ہوگئے،خلافت کی چولیں ہل کر رہ گئیں، مسلمانوں کی تباہی کا یہ واقعہ دنیائے انسانیت کے لئے درس عبرت ونصیحت سے کم نہیں ہے! فرق یہ ہے کہ وہاں بے رحم ہلاکو خان اور اسکی سنگ دل فوج کا سنگدلانہ،ظالمانہ اور سفاکانہ معاملہ اور برتاؤتھا اور یہاں نظر نہ آنے والی وبا کرونا وائرس کاقہر۔فرقہ پرستوں کی ناپاک سازشیں اور شرپسندوں کے پروپیگنڈے وحربے ہیں،آج اگر ہم اپنے خالق کرونا کے مطالبات پوراکرنے والے بن جائیں توستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والاہمارا وہ اللہ اورپورے عالم کا پروردگار۔ ہم پر فوری رحم و کرم کا معاملہ کرسکتاہے،کرونا کے مصائب اور معیشت کی تنگی سے مکمل نجات دے سکتا ہے، ہلاکو خان کے پاس اگرچہ لاکھ التجا اور رحم کی درخواست کی گئی اور انکے تمام مطالبات تسلیم کرلینے کے باوجود ہلاکوخان نے کسی پررحم نہ کھایا اور بغدادکی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھدی اور جب تک مسلمانوں کی لاشوں کا انبارنہ لگا دیا اسوقت تک سکون و چین کی انہوں نے سانس نہیں لی۔مگر وہ اللہ کے مطالبات تسلیم کرلیتے تو قطعاً انکا وہ برا حال نہ ہوتااور نہ آج انسانیت در در کی ٹھوکر نہ کھاتی!!

            یقیناً قارئین کرام کودجلہ وفرات کا دردناک اور اندوہناک واقعہ یاد ہوگاجسے تاریخ اسلام کبھی فراموش نہیں کرسکتی، ایک زمانہ تھا جب دنیا کے سارے خزانوں اور دولت و ثروت کی ساری کنجیاں مسلم حکمرانوں کے قبضے میں تھیں۔وسیع و عریض کرہئ ارض پرانکی حکمرانی تھی، دولت و ثروت کی انکے پاس ریل پیل تھی، پھر کیا دیری تھی!! عظیم الشان اور خوبصورت محلات و باغات تعمیر ہونے شروع ہوگئے، مگرصد افسوس کہ کاشانہئ دل ویران ہوتا چلا گیا اور اخلاق بگڑتے چلے گئے!آنے والی ہلاکت و تباہی کی طرف کسی کا ذہن مبذول نہ ہوسکا، دیواروں میں قیمتی فانوس و قمقمے بھی آویزاں تھے، مگر دماغوں کی ظلمت اور عقلوں کا اندھیراکم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا اور اللہ کا شکر بجالانے کے بجائے اسکی ناقدری و ناشکری عام ہوتی چلی گئی۔ جس قوم کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا وہ عیش و عشرت اور شراب وکباب کی زندگی میں مست ہو کر احکام الہی کا پاس و لحاظ کھو دیا، اللہ نے انکو خلافت وامامت اس لئے دی تھی تاکہ زمین پر عدل وانصاف کا قیام برقرار رکھتے، انسانیت کی خدمت کرتے، دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیتے! مگروہ قوم کنیزوں اور باندیوں کے خوبصورت جسموں سے اپنے حرم کوسجانے میں لگ گئی اور نہ جانے کیا کیا برائیاں اس میں جنم لینے لگ گئیں، اللہ کی نظروں سے وہ گرتی چلی گئی،وہ دنیا کی نظروں سے بھی گر کر رہ گئی۔آج ہی کی طرح اسوقت بھی خدا نے تنبیہ کے لئے کرونا کے بجائے ایک مجذوب بندہ کو بھیجا، انہوں نے ببانگ دہل آنے والی دردناک ہلاکت وتباہی سے باخبرکیا۔ وہ بغداد کے شاہراہوں اور سڑکوں پر چیختاچلاتا رہا اور لوگوں کو خبردار کرتا رہاکہ”لوگو! خدا کی نافرمانیوں سے باز آجاؤ، رسول خدا کی اطاعت سے ہر گز منہ مت موڑو اور شراب وکباب کے ذخیروں کو نالیوں میں بہا دو، چنگ و رباب توڑ دو اور اللہ کو راضی کرنے میں جڑ جاؤ، ورنہ قدرت کا پیمانہئ برداشت چھلکنے والا ہے، عذاب وقہر کے دن گنے جا چکے ہیں، بس کچھ گھڑیاں باقی رہ گئی ہیں، ابھی بھی توبہ و استغفار کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ عناد وسرکشی چھوڑ دو،کثرت سے توبہ و استغفار کرو،ممکن ہے خدا تم سے راضی ہوجائے اور ذلت کی موت سے تمہیں چھٹکارہ اور نجات دے دے، نہیں تو تمہارے کاندھوں سے گردنوں کا بوجھ بھی کم کر دیا جائے گا، خون کی ندیاں بہنے لگیں گی، بڑی ذلت ورسوائی کا دن دیکھنا پڑے گا۔

             حق بات ہمیشہ کڑوی لگتی ہے! گردش ایام کے لمحوں کے ساتھ ساتھ مجذوب خداکی لے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ شروع میں لوگ اسے پاگل اور مجنوں سمجھ کر ایک دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہے، مگر وہ دیوانہ وار بڑے پتے کی باتیں کر تا رہا اور اپنے مسلمان بھائیوں کو اس فتنے سے آگاہ کرتارہا جوانہوں نے اپنی نور بصیرت سے دیکھا تھا اور بڑے خوفناک راز کوعوام کے درمیان فاش کر رہا تھا، آخر عشرت کدوں میں رہنے والوں کو اس وحشی اور مجنوں کے نعرے گراں گزرنے لگے، مجذوب خدا سے کہا گیا کہ وہ نعرہ بازی بند کر دے، اس کی بے ہنگم آوازوں سے شرفاء و امراء شہر کے آرام و سکون میں خلل پڑتا ہے، وہ کس عذاب کی باتیں کرتا ہے؟ عذاب تو ہمیں چھو بھی نہیں سکتا کہ ہم اہلِ ایمان ویقین ہیں، کئی بار تنبیہ کی گئی، لیکن مجذوب خدانے اپنی روش نہیں بدلی، وہ پریشاں حالوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ ہر گلی کوچے میں چیختا پھر رہا تھا۔خدا کا قہر آنے والا ہے!! مسلمانو! سنبھل جاؤ!! گناہوں سے توبہ و استغفار کرلو! ”اے بے خبر لوگو! سرخ آندھی آنے والی ہے۔ اس کے تیز جھونکوں میں تمہارے پتھروں کے مکان روئی کے تیز گالوں کی مانند اڑ جائیں گے، اب اس قہر سے تمہیں سوائے اللہ کے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہلاکت اور بربادی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔“ دنیاداری میں مست، آخرت سے بے خبر اور عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے لوگ آخر اپنی موت کی خبریں کیسے سننا گوارا کر سکتے تھے۔ بالآخر عمائدین خلافت اور امراء شہر نے مجذوب کی باتوں کو بدفالی و بد شگونی کی علامت قرار دے کر ایک سنگدلانہ حکم جاری کردیا۔ اب وہ بے ضرر انسان جدھر جاتا لوگ اس پہ غلاظت پھینکتے تھے، مجذوب ان کی اس حرکت پہ قہقہے لگاتا تھا، لوگوں کی حرکتوں پر افسوس کرتے ہوئے کہتا تھا۔”میرے جسم پہ گندگی کیوں پھینکتے ہو۔ اپنے اعمال و اخلاق، مسخ شدہ چہروں اور غلاظت میں ڈوبے اپنے ملابس و پوشاک کی طرف دیکھو۔ عنقریب ان پر سیاہی ملی جانے والی ہے، اور تمہاری دردناک اورسیاہ تاریخ لکھی جانے والی ہے، کچھ دن خدا کے نظام کا مذاق اڑا لو۔ پھر وقت تمہارا اس طرح مذاق اڑائے گا کہ تم موت کو پکارو گے مگر موت بھی تمہیں قبول نہیں کرے گی۔“

            اب مجذوب خداکی باتوں کو صحیح سمجھنے کے بجائے اب لوگ ظلم وتشدد پر اتر آئے، مجذوب جہاں سے گزرتا تھا، جوان اور بچے اس پر پتھر برساتے تھے، لاغر اور نحیف جسم اپنے خون میں نہا گیا، بدمستوں اور بے خبروں نے قہقہے بلند کئے، مجذوب خدا بغداد کی ایک شاہراہ پر کھڑا لڑکھڑا رہا تھا، اس خونی مناظرو تماشے کو دیکھنے کے لئے بے وقوفوں کی ایک بڑی جماعت جمع ہو گئی۔ مجذوب خدا نے مسلمانوں کے ہجوم کی طرف دیکھا اور بڑے ا  داس لہجے میں بولا۔”کیا تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ان سنگدلوں کو منع کرے اور میری طرف آنے والے پتھروں کو روک لے؟“ ألیس فیکم رجل رشید؟

بیچارے مظلوم و بے بس مجذوب کی فریاد سن کر لوگوں کے قہقہے کچھ اور بلند ہو گئے۔ کسی نے سنگ باری کرنے والوں کو منع نہیں کیا،اسطرح پورا مجمع گناہوں کا مرتکب ہوا اور ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا کیونکہ پوری قوم کا ضمیر مردہ ہو چکا تھا، عذاب ان کے اوپر لکھا جا چکا تھا۔ خون سے لت پت مجذوبِ خدانے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخا ”لکھنے والے نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا: آگ، خون، موت، ذلت اور بربادی۔ پھر مجذوب نے بہتے ہوئے خون کو اپنے چہرے پہ مل لیا، چند پتھر اور برسے، مجذوب زمین پر گر پڑا، اور شہید کا درجہ حاصل کرلیا۔

            یاد رکھئے!!“”مسخرا آسمان کی خبریں دیتا ہے۔“ لوگ دیوانہ وار ہنس رہے تھے۔ یہ خبر نہیں کہ خود اپنا کیا حال ہونے والا ہے؟ ہلاکو خان کل کیا درگت کرنے والا ہے، آخر کار ایک مظلوم ومجبور، اللہ والے مجذوب پر مشقِ ستم کرنے کے بعدپورا ہجوم منتشر ہو گیا، مجذوب کے جسم سے خون بہہ بہہ کر زمین پر جمتا رہا۔ دنیا کا خوبصورت شہر بغداد کے باہوش شہریوں اور انجام سے غافل عمائدین حکومت نے ایک دیوانے سے نجات حاصل کر لی، اس دن کے بعد پھر کسی نے مجذوب کو نہیں دیکھا، وہ اپنا کام ختم کر کے بہت دور جا چکا تھا، شہر کی فضائیں نغمہ بار تھیں، موسیقی کی پُر شور آوازوں نے گناہ کے خوابیدہ جذبوں کو بیدار کر دیا تھا، سیم تن بدنوں کے رقص نے جذبات کی دنیا میں وہ طوفان اٹھائے تھے کہ اہلِ دل اور ارباب حل واقتدار کی بینائی زائل ہو گئی تھی اور امراء اندھے ہو گئے تھے، سرحدی محافظوں کے بازو شل ہو گئے تھے اور تلواریں شاخِ گل کی مانند لہرا رہی تھیں۔اور پھر اہلِ بغداد اور عمائدین حکومت و خلافت کو قہرِ خداوندی اور عذاب الہی نے آپکڑا۔ ہلاکو خان رات کے اندھیرے میں شمشیر بکف آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔اور عظیم الشان اسلامی سلطنت کے نگہبان ہاتھوں میں چنگ و رباب لئے ہوئے جھوم رہے تھے، پھر ہر طرف فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی، سنگِ سرخ سے بنے ہوئے سر بہ فلک محلات میں آگ لگی ہوئی تھی اور علم و حکمت کے ذخیرے سوکھی لکڑیوں کی طرح جل رہے تھے، شاندار تہذیب و تمدن کے آثار وحشیوں کے نیزوں کی زد پر تھے، ہلاکو خان کے سامنے عالمانہ تقریریں کرنے والے بے شمار تھے، مگر وہ تلوار کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتا تھا، اس فتنہئ عظیم کو صرف جرأت و شجاعت کے ہتھیاروں سے ہی روکا جا سکتا تھا مگر مسلمان بہت پہلے ان ہتھیاروں کو زنگ آلود سمجھ کر اپنے اسلحہ خانوں میں دفن کر چکے تھے، اس لئے چنگیز خان کا سفاک پوتا مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا رہا تھا اور اہلِ بغداد ایک درندے سے تہذیب و شائستگی کی زبان میں رحم و کرم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر یوں ہوا ؎۔آگ اس گھر کو ایسی لگی کہ جو تھا جل گیا۔

            بھلا جب نبوت محمدی کے دور سے کافی قریب بلکہ انکے خویش واقارب کے ساتھ ایسادرد ناک اور اندوناک حادثہ پیش آ سکتا ہے تو ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں!!آخر ظلم و ستم کی ٹہنی کب تک پھلتی اور پھولتی رہے گی! کہنے والے نے صحیح کہا ہے کہ حکومتیں کفرِ خدا کے ساتھ تو قائم رہ سکتیں ہیں،مگر ظلم و بربریت کے ساتھ بہت دنوں تک نہیں چل سکتیں!البتہ اسکے علاج کے لیے  حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، بیہقی کی روایت ہے:کیا میں تمہیں تمہاری بیماری اور اسکی دوا نہ بتا دوں!! بے شک تمہاری بیماری تمہارا گناہ ہے اور اس کی دوا تمہارا کثرت سے توبہ و استغفار ہے“ کون جانتا تھا کہ ہلاکو خان اتنی بڑی تباہی کی تیاری کرچکا ہے۔جو صدیوں پرانے تخت و تاراج کوقوم سمیت الٹ پلٹ کر رکھ دے گا۔آج دنیا میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں ہورہا ہے،سب ہماری نظروں کے سامنے دو دو چار کی طرح عیاں ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کونساایسا میدان ہے جو ہمارے گناہوں اور ظلم و فساد سے بھر نہ گیا ہو!”ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس،لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون“۔

             آج کے موجودہ حکمرانوں کی سیاسی وسماجی،معاشی واخلاقی اورتعلیمی وتربیتی پالیسیوں سے انسانیت کااعتماد متزلزل ہو کر رہ گیا ہے!جس سے انسانیت کا دم گھٹتا نظرآرہا ہے، صحیح رہنمائی سے انسانیت محروم ہو کر رہ گئی ہے، مذہبی نفرت وعداوت کابازار گرمایا جارہا ہے،مفاد پرست اورمذہب بے زار ارباب حل و اقتدارپیاسی انسانیت کی صحیح خیر خواہی کیسے کر سکتے ہیں!؟ جن کے پاس سسکتی اور بلکتی انسانیت کے لیے مساوات کا کوئی پیمانہ نہ ہو اور میزان عدل قائم کرنے کا انکا کوئی ارادہ بھی نہ ہو،تو بھلا کہاں سے دووقت کی روٹی اوردو نوالے کھانادم توڑتی انسانیت کے لئے فراہم کرسکتے ہیں؟! بھلاوہ کیسے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے کے بجائے ان کی سچی اور صالح رہبری کر سکتے ہیں؟ ایسے حکمرانوں کے تمام بلند وبانگ دعوے سب کھوکھلے ثابت ہو کر رہ گئے ہیں،جو ایک معمولی مرض کی صحیح دوا بنانے پر بھی قدرت نہیں رکھتے! مہنگائی کو کم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے،روزگارپیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے،پروردگار عالم نے ایسے لوگوں کے بارے میں سچ کہا ہے ”ضعف الطالب والمطلوب“ ”حاکم بھی کمزور اوراسکے سب دعوے بھی کمزور“۔سسکتی انسانیت کے سامنے سب کی بے بسی صاف طورپر واضح ہوکر دکھائی دے رہی ہے۔

            آج مجبورمحض انسانیت کو پھر وہی نوع انسان کے گروہ کی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی ہے، جو اس کو خوفزدہ ماحول اور مقید زندگی کے بجائے بے خوف و خطر آزادانہ اور منصفانہ ماحول وزندگی کا نسخہ ئ کیمیا فراہم کرسکے،عاجز بندوں کی فضول عبادت اور لا حاصل جی حضوری سے ایک زبردست قوت و طاقت رکھنے والے قادر مطلق کی بندگی کی طرف نکال لائے، جو اسے کسی مخلوق خدا یعنی کرونا وائرس سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے اور معاشی بدحالی کے خوف اوردنیا داروں کے ظلم و بربریت سے نجات دلاسکے اور اپنے بے شمار انعامات و احسانات کا ان پر انبار لگا دے اور دولت و ثروت کی فراوانی ان پر انڈیل دے! دنیائے انسانیت کو آج پھر اسی جماعت ورہبر انسانیت کی جستجو ہے،جوانہیں ظالم بادشاہوں کے جرائم و مظالم، نا انصافی و حق تلفی، حرص و ہوس،باطل اور فرسودہ عقائدو اوہام اور ادیان و مذاہب کے جھگڑوں سے نکال کر امن و سلامتی، عزت وبلندی، عظمت ورفعت، لطف و کرم، رحمت وبرکت، غم خواری وہمدردی، شفقت ومحبت اور بے پایاں اجرو ثواب کے اس عادل و منصف دین و مذہب کی طرف رہنمائی اور خیر خواہی کرسکے، جہاں پہنچ کر انہیں غلامی سے آزادی کا زبردست احساس ہو، باطل سے چھٹکارا پاکر حق اور انصاف کا حقیقی ادراک ہو، ا نسا نیت کی سربلندی کاانہیں لازوال پیغام حاصل ہو۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پہنچ کر انہیں مساوات وبرابری کا وہ کامل احساس ہو جواس سے پہلے اسے کبھی محسوس نہیں ہوا ہو، جہاں انہیں ایک بادشاہ اور غریب، ایک بندہ اور صاحب،ایک محتاج اور غنی،ایک امیر اور فقیر کے درمیان بے مثال عدل و انصاف کانقشہ قائم ہواور انکو یہ ادراک ہو کہ اسلام ہی ہمارا حقیقی دین اورصحیح راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب کو عدل و انصاف فراہم ہوسکتا ہے۔کیونکہ”ان الدین عند اللہ الاسلام،ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الآخرۃ من الخاسرین“۔اوراسلام کامکمل پیغام ہرطرح کے بھید بھاؤ سے بالا تر،نفرت وعداوت سے کوسوں دور اوربرابری ومساوات پر مبنی وقائم ہے۔بقول شاعرمشرق اقبال علیہ الرحمہ

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز۔۔۔ نہ  کوئی  بندہ  رہا  اور  نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے۔۔تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئ

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

27فروری2021

«
»

بنت حوا کی خودکشی کا ابن آدم ذمہ دار!! …. عائشہ ،جہیز، شریعت، ہم اور ہمارا معاشرہ

یہ دنیا ہزاروں رنگ بدلتی ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے