کیوں نہ ذہنوں پہ جمی گرد اڑادی جائے

 

ام ھشام،ممبئی

رنگوں کے ڈبوں کو دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آیا کہ اتنے سارے خوبصورت رنگوں کے بیچ یہ سفید بھلا کس کام کا ہوسکتا ہے۔بے جان،تھکا تھکا سا،مرجھایا سا،ہمیشہ رنگوں کے ڈبوں میں اس کونے اس کونے بے نیاز سا پڑا رہتا۔اب وقت نے سمجھادیا کہ اس سفید رنگ کی کیا اہمیت ہے؟ گویا واقعی اب سمجھ آگیا کہ سارے رنگوں کی کمی ایک دوسرے کے امتزاج سے پوری کی جا سکتی ہے،لیکن سفید،اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔سفید کا کام سفید ہی کر سکتا ہے۔گویا سفید رنگ اپنے آپ میں خو د اپنی طاقت ہے۔اللہ کی بنائی اس دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اس سفید رنگ کی مانند ہیں۔چھپے چھپے،شرمائے شرمائے،جھجھکتے ہوئے خاموشی کے ساتھ ساری زندگی بتا دیتے ہیں،لیکن اپنے خول سے باہر نہیں آتے ہیں۔

آج یہ تحریر انہی کے نام!!!!!

کچھ کئے جاؤ لے کے نام خدا 

کچھ نہ کرنا بڑی خرابی ہے 

کامیابی کچھ اور چیز نہیں 

کام کرنا ہی کامیابی ہے 

جس نے یہ حسیں کائنات سجائی اپنی مرضی سے کائنات کو مختلف قسم کے لوگوں سے پر کردیا۔یہ اس کی اپنی صنّاعی ہے،مرضی ہے،بے غرضی ہے،محبت ہے،قدرت ہے،اس نے اپنے بندوں کو بڑی کمال کی خوبیوں ست نوازرکھاہے ساتھ ہی اس نے بلاامتیاز ہر انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے تو اس طرح ہر ایک یہاں اپنی نگری کا راجا ہے۔

پھر یہ دلوں کو اندھیر نگری اور چوپٹ راج کیوں بنا رکھا ہے بھئی!!!!

جس نے آپ کی تخلیق کی اسے آپ پر اعتماد ہے اس لئے تو اس نے آپ کا انتخاب کیا،عالم ارواح میں آپ کا اس سے قرار ہے کہ آپ خود کو ضائع نہیں کریں گے،لیکن آپ نہ صرف خود کو ضائع کر رہے ہیں بلکہ مسخ ہوکر کالعدم ہوجانا بھی چاہتے ہیں،گویا آپ کی زندگی میں بس تاریکی،مایوسی،خود ترسی جیسی ملیح و قبیح صورتحال کا دور دورہ ہے۔

بھئی………..زندگی زندہ دلی کانام ہے۔

زندگی جینا شروع کیجئے، ناکامیوں کے سامنے سینہ سپر ہوجائے،جب جب بھی آپ اپنے مقصد اور گول کے ایک قدم قریب جاتے ہیں،یقین جانئے ناکامی آپ سے خود دور جارہی ہوتی ہے۔

آپ اگر کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں تو آپ نے پہاڑ چڑھ کر اسے نہیں جیتا،بلکہ آپ نے اپنے آپ کو فتح کیا ہے،بے شمار ناکامیوں کے بعداگر ایک بڑی کامیابی آپ کا مقدر بنتی ہے تو آپ کو صرف کامیابی نہیں ملی آپ کو اپنی پچھلی ہر ناکامی اور محرومی کا بدلہ پورے تاوان کے ساتھ مل چکا ہے۔ناکامی اور شکست کا ہر ایک پڑاؤ بڑا چیلنجنگ ہے، آزمائش اور ابتلاء حضرت انساں کی قوت مدافعت جانچنے کے لئے ہیں۔آپ خاص ہیں اس لئے آپ کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے ہیں،آپ تپائے جارہے ہیں،کیونکہ آپ کو بنانے والا جانتا ہے کہ آپ کالا پتھر نہیں بلکہ کندن ہیں۔   

جو جس قدر محبوب ہو اسے رب اسی قدر آزماتا ہے۔دنیا کے افضل ترین نفوس انبیاء سب سے زیادہ آزمائے گئے،ستائے گئے،محروم کئے گئے اور بالآخر تا قیامت اہل دنیا کے لئے اولو العزمی کی مثال بن گئے۔اس لئے آزمائشوں کو اپنی خوش بختی اور رب کا فضل سمجھیں۔

تو خوش ہوجائیں آزمائش آٹھانے والے!!!اپنی کوششیں جاری رکھیں،زندگی کو ہر لمحہ آپ کے اس سفیدرنگ کی ضرورت ہے  جسے بیکار سمجھ لیا گیا ہے۔اللہ کہتا ہے لیس للانسان الا ما سعیٰ……..انسان کے لئے اور کچھ نہیں…….سوائے اس کی کوششوں کے۔تو رنگ برنگے نہ سہی اپنی سفید طاقت کے ساتھ ہی کوشش کیجئے۔اللہ نے دنیا میں ہر کسی کو اپنا قائم مقام طے کر رکھا ہے،ہر کسی کی زندگی کا سوالیہ پرچہ دوسروں سے ایک دم مختلف بنا رکھا ہے،اس لئے خود کو دوسروں سے،ان کی زندگی سے،ان کے معاملات سے تشبیہ دے دے کر ہلکان نہ کریں۔

کامیابی کا کوئی خاص پیمانہ نہیں ہوتا،تتلی کو دیکھیں پھولوں کا رس چکھ کر ہی مگن مگن سی یوں اٹھلاتی پھرتی ہے مانو دنیا اسی کے پروں پہ ٹھہری رہی تھی۔چیونٹی اناج کا ایک دانہ اپنی پیٹھ پر سوار کر کے اپنی کمیونٹی کا حق ادا کرتی ہے۔جگنو رات کو ٹمٹما کر راہوں میں دیئے روشن کرتے ہیں،مرغ بانگ دے کر سحر گاہی کرتا ہے۔مزدور شب و روز جاں توڑ محنت کرتا ہے تب جا کر نان شبینہ میسر ہوتی ہے۔ان سب کے لئے ان کی کامیابی یہی ہوتی ہے اور اسی لئے یہ ہمیشہ پر سکون،آزاد،خوش اور مطمئن ہوتے ہیں۔جس کے نائب بن کر ہم دنیا کو سنبھالنے پر مامور کئے گئے ہیں کبھی اس رب کے حلم پر ہماری غور و فکر کی سوئی جانی چاہئے۔

وہ اپنے کلام میں مچھروں،چیونٹیوں،مکڑیوں کی مثال دیتا ہے،وہ چاند،سورج،ستاروں اور سمتوں کی قسمیں اٹھاتا ہے،تین و زیتون جیسی اشیاء کو اہمیت دیتا ہے۔اسے کوئی عار نہیں۔وہ جہاں،جیسے،جسے مناسب سمجھتا ہے ان الفاظ کے ذریعے شعور و آگہی کے اسرار انسان پر کھولتا ہے۔وہ مثالیں بیان کرنے سے شرماتا نہیں۔لیکن ہم شرماتے ہیں کسی چھوٹے کام کو کرنے میں،وہ اپنے بندوں کی اصلاح سے نہیں تھکتا،وہ مسلسل آواز دینے سے بھی کبھی زچ نہیں ہوتا،بندوں کی سرکشی نہ اس کی دل آزاری کرتی ہے اور نہ ہی اسے مایوس کرتی ہے۔تو کیا اس کے بندوں کو اس روش پر نہیں ہونا چاہئے؟مایوسی،احساس کمتری،بے جا خوف اور خود ترسی کی کشکول توڑ کر پھینک دیجئے تب ہی کوئی دوسری دولت ہاتھ آئے گی،ورنہ دنیا تو چند سکے پھینک کر اپنا دامان گناہ ہلکاکرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔اپنی طاقت،اپنے ہنر،اپنے ذوق و معیار کو پہچانئے،اس خوابیدہ عزم  و صلاحیت کو بیدار کیجئے،جسے تھپک کر آپ نے سالوں پہلے گہری نیند سلادیا۔

یاد رکھئے! تعبیر ہمیشہ خوابوں کی نہیں خیالوں کی بھی ہوتی ہے۔تو زندگی کو ایک مضبوط خیال دے دیجئے  جو آپ کی زندگی کا سب سے بڑا وژن ہو اور پھر اپنے اس خواب کی تعبیر مکمل کرنے میں لگ جائیے۔

آپ تو سفید رنگ ہیں،ایک مضبوط مرکزی اور مستحکم کردار۔

سوچئے کیا ہوگا !   اگر آپ نے پردہئ سیمیں سے ہی خود کو الگ کر لیا؟کسی خول میں جا کر خود کو بند کر لیا۔کیا آپ کی شخصیت کے وہ جوہر سامنے آپائیں گے جس سے اللہ کو آپ سے کام لینا ہے،وہ کردار کس طرح وجود میں آئے گا جو خلق خدا کے آرام کا باعث ہو؟

یاد رکھئے!    اندھیرے فرار ہیں یہ کبھی قرار نہیں دے سکتے،تاریکی کبھی روشنی کو مات نہیں دے سکتی،مصائب و مشکلات میں حالات سے نبرد آزما ہونے کے بجائے تاریکی،مایوسی میں بیٹھ کر قیمتی آنسو بہانے والو……………..! لازم نہیں ترکش کا ہر تیر شکار کو گھائل کر جائے،

لازم نہیں کہ ہر شبنم گہر بن جائے،لازم نہیں کہ ہر بارش کا پانی زمین کو زر خیز بنائے،لازم نہیں کہ زمین پر بسنے والا پرندہ کبھی پرواز نہ بھر سکے،در پیش ہجرت ہو تو پرندے سات سمندر کا سفر بھی کر لیتے ہیں۔

آپ پر بھی لازم نہیں کہ پہلی ہی جست میں آپ کوکامیابی مل ہی جائے،دنیا کی ہرچیز اللہ کے بنائے اصول کے مطابق چلتی ہے،آپ اپنے اصولوں پر چلتے رہیں،کامیابی اپنے اصول پسندوں کے ہی ہاتھ آتی ہے۔ 

شرط: یقین کامل +توکل+جہد مسلسل=فائز المرامی   

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

بنگال پر فرقہ پرستی اور فسطائیت کا حملہ ….. سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے

اگر اظہار راۓ کی آزادی نہ بچی، تو آئینی جمہوریت نہیں بچ پائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے