’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

 نواب علی اختر

ہندوستان کے نوجوان اور ابھرتے ہوئے کامیڈین منور فاروقی کے لئے 2 جنوری کا دن کافی پریشان کن رہا ہوگا، کیونکہ انہیں اس روز ایسے گناہ کے لئے گرفتار کیا گیا تھا جسے انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔ منور فاروقی کو بی جے پی کے زیراقتدار مدھیہ پردیش کے اندور میں یکم جنوری کو ہندو دیوی دیوتاوں کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کر کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں اندور کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ جنوری میں دوعدالتوں نے منور فاروقی کو ضمانت دینے سے انکار کیے جانے کے بعد مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا مگر وہاں سے بھی جب کوئی راحت نہیں ملی تو نوجوان کامیڈین نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اورعدالت عظمیٰ نے انہیں ضمانت دے دی۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے اترپردیش میں دائر مقدمے میں جاری پروڈیکشن وارنٹ کو بھی روک دیا۔

منور فاروقی کو گرفتار کرنے والی ایک مذہب خاص کی انتہائی فرمان بردار پولیس کا عدالت کے سامنے کہنا تھا کہ انہیں رہا کرنے سے نقص امن کو خطرہ ہے تاہم ہماری ’تیز طرار‘ پولیس اب تک یہ واضح نہیں کرپائی ہے کہ یہ خطرہ کیا ہے اور کیوں ہے۔ منور فاروقی کی گرفتاری کا معاملہ صرف ضمانت پرختم نہیں ہوجاتا، پولیس کی کارروائی نے ملک کے دیگر کامیڈین کو دہشت زدہ کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ منورفاروقی کی گرفتاری تمام ہندوستانی شہریوں کے لئے پریشان کن ہونی چاہیے کیونکہ ایک مہذب معاشرے میں اس طرح کے اقدامات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگرآپ کو پسند نہیں ہے تو نہ دیکھیں۔ مگر ایسے وقت جب ملک کے لوگ اپنے اپنے مسائل سے پریشان ہیں، انہیں طنزومزاح بہت راحت اور سکون پہنچاتے ہیں۔ لیکن انتہا پسندوں کو شاید عوام کا سکون سے رہنا منظور نہیں ہے اور اسی لئے ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا پیدا کردیا جاتا ہے تاکہ لوگ آپس میں کشت وخون میں مبتلا رہیں۔

جہاں تک طنزو مزاح کی بات ہے تو یہ محض تفریح کا سامان ہے اور دور قدیم کی ثقافت کا حصہ رہا ہے اس لئے طنزومزاح پر بھی پابندی لگانا اس ثقافت کا قتل کرنا ہوگا، جس کی بنا پرمجاہدین آزادی نے انگریزوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ طنزو مزاح ایک الگ ہی دنیا ہوتی ہے جہاں اظہار رائے کے لئے کسی پارلیمنٹ، کسی پارٹی، کسی نظریہ یا کسی لیڈرکی منظوری یا نامنظوری کی اجازت ضروری نہیں ہوتی ہے۔ طنزو مزاح ہمیں اس دور سے جوڑتا ہے جہاں اپنی بات کہنے کے لئے رنگ اور ریکھاوں کا سہارا لیا جاتا تھا اور طنزومزاح اور کارٹونوں کے ذریعہ زندگی کو دیکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ تب نہ تو کسی پارلیمنٹ نے اس طرح کے طنزو مزاح یا کارٹون وں پرسوال اٹھائے تھے اور نہ ہی پارلیمنٹ کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالی تھی۔ تب سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں میں اتنی سمجھ ہوتی تھی کہ وہ طنزو مزاح کو زندگی میں اتار کر اس سے کچھ سیکھتے تھے۔

نئے دور کے راشٹر بھکتوں کو اپنے روایتی اور تاریخی ہندوستان کا مطالعہ کرنا چاہیے جب بھارتیندو ہریش چندر اور اکبرالہ آبادی جیسے شاعروں نے اس کے جسم میں جان ڈالی تھی۔ بابوبال مکند گپت اپنی دلکش طنزیہ تحریر کے لئے طنزیہ ادب میں ایک نیا معیار قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اردو شاعروں نے تو برطانوی دورمیں انگریزیت پر ایسے تلخ حملے کیے کہ انگریز اسے سمجھ بھی نہیں پاتے تھے اور ہندوستانی اس کا مزہ لیتے تھے۔ طنزو مزاح ہماری تہذیب کا حصہ رہا ہے جس میں بڑے دلکش اندازمیں پوری بات کہہ دی جاتی تھی۔ اس گفتگو میں ایک دوسرے پر ’حملہ‘ بھی کیا جاتا تھا مگر بڑے ہی مہذب انداز میں تاکہ کسی کو بدتمیزی کا بھی احساس نہ ہو اور اپنی بات بھی کہہ دی جائے۔ حالانکہ حقیقی زندگی میں طنزو مزاح کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے اسے محض تفریح تک محدود رکھا گیا ہے۔

اس سلسلے میں اکبرالہ آبادی کہتے ہیں کہ: بال میں دیکھا مسوں کے ساتھ ان کو کودتے….ڈارون صاحب کی تھیوری کا خلاصہ ہوگیا‘۔ اکبرالہ آبادی برطانوی دورحکومت میں منصف تھے لیکن وہ اپنے طنز کے تیروں سے ایسا گہرا زخم لگاتے تھے کہ پڑھنے والا ایک بار اسے پڑھ کر ہزاروں بار اس پرسوچنے کو مجبور ہوجاتا تھا۔ اکبرالہ آبادی نے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کا پوسٹ مارٹم جس بے باک انداز میں کیا اس کی گہرائی تک آج کے طنزیہ نگارسوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ ’توپ کھسکی پروفیسر پہنچے… بسولا ہٹا تو رندا ہے‘ پلاسی کی لڑئی میں سراج الدولہ کو شکست دے کر تمام دیسی ریاستوں کو جنگ میں مات دے کر انگریزوں نے توپ پیچھے ہٹالی اورانگریزی پڑھانے والے پروفیسروں کو آگے کر دیا۔ توپ کے بسولے نے سماج کو چھیل دیا اور پروفیسر کے رندے نے اسے انگریزوں کی خواہش کے مطابق کر دیا۔ توپ اور پروفیسر کا یہ تال میل برطانوی تعلیمی نظام پر بے جوڑ اور بے رحم حملہ ہے۔

تھوڑا پرانے دور میں جاکر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پنڈت مدن موہن مالویہ اور سر سید احمد خان جن دنوں یونیورسٹی اور مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لئے کوششیں کر رہے تھے انہیں ایام میں اکبرالہ آبادی نے ایک شعرکہا تھا:’شیخ نے گو لاکھ داڑھی بڑھائی سن کی سی…مگر وہ بات کہاں مالوی مدن کی سی‘ یہاں سن کی لفظ پرغور کیجیے۔ دونوں الفاظ کو ملا دینے پرجو مطلب نکلتا ہے وہ شاعر کے ہنر کی مثال ہے۔ اکبر الہ آبادی، پنڈت مدن موہن مالویہ کے دوست تھے۔ انہیں سرسید احمد خاں کی انگریزی پرستی پھوٹی آنکھوں نہیں بھاتی تھی۔ باوجود اس کے وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ وہیں مرزا غالب (1797-1869)کو طنزو مزاح کی مہارت میں استادی حاصل تھی، جن کے مزاح میں ستم ظریفی بھی شامل تھی اور انہیں ملا اور شیخ کو اپنے مزاح کا نشانہ بناتے تھے۔ وہ ان کا مزاح اس لئے اڑاتے یا ان کو اپنے طنز کا نشانہ اس لئے بناتے کیونکہ وہ بے وقوف اور بدعنوان تھے اور جب وہ حکمراں طبقہ کا مزاح اڑاتے تو وہ ان کے اصولوں کی تنقید نہیں کرتے بلکہ اقتدار کے غلط استعمال کو نشانہ بناتے۔

ہر نسل کے پاس تنقید کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ طنزو مزاح ان میں احساس کی نرمی اور بلندی پیدا کرتا ہے۔ اس کے بغیر باتیں بے مزہ اور محفل نہایت ہی بورنگ ہوجائے گی۔ ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو زبان جتنی فروغ پائے گی اس میں طنزو مزاح اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ طنزو مزاح کو سماجی بول چال، مہذب بات چیت یا مہذب گفتگو میں قبول کیا گیا اور وہ کافی مقبول بھی ہوا اور اس نے ادب کے ایک انداز کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔ اس کا زیادہ تر کریڈٹ اردو کے شاعر نظیر اکبرآبادی (1740-1830) کو جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس میدان کو منتخب کیا اور اس کے پھیلتے دائرے کو کبھی نہیں چھوڑا۔ ان میں اپنی بات کو مزاحیہ اور طنزیہ انداز سے کہنے کا فن کوٹ کوٹ بھرا ہوا تھا۔ ان کی شاعری میں یہ بات پوری طرح ابھر کر سامنے آتی ہے۔ وہ سنجیدہ موضوعات پر بھی طنز پیدا کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

ان حالات میں دور جدید کے راشٹر بھکتوں کی انتہا پسندی اور نفرت انگیزی سے صاف ہوجاتا ہے کہ ان کے لئے ہر وہ موضوع قابل ’جہاد‘ ہو جاتا ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ وہ حکومت وقت کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں خواہ بعد میں انہیں ذلیل ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ انہیں اپنا وجود بھی تو ثابت کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کا مقصد صرف ’راشٹر بھکت‘ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتی ہے کہ کس طرح ان کے ’فدائین‘ کی لسٹ میں اپنا بھی نام درج ہوجائے۔ یہ تو ’خاص‘ لوگوں کی بات ہوئی مگر افسوس تب ہوتا ہے جب محافظ ہی رہزن کے کردارمیں آجائیں۔ منور فاروقی معاملے میں چند انتہا پسندوں کی باتوں میں آنے کے بجائے پولیس کو چاہیے تھا کہ معمول کے مطابق پہلے معاملے کی تفتیش کی جاتی اور گناہ ثابت ہونے پر کارروائی کی جاتی مگر ’اندھیر نگری چوپٹ راجہ‘ والی کہاوت پرعمل کرتے ہوئے پولیس نے جو کام کیا اس نے پولیس کی جانبداری کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

07 فروری 2021

 

«
»

بنگال پر فرقہ پرستی اور فسطائیت کا حملہ ….. سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے

اگر اظہار راۓ کی آزادی نہ بچی، تو آئینی جمہوریت نہیں بچ پائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے