ہفتہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو

 

عوامی سطح پر اردو کا استعمال

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند

 

عوامی سطح پر اردو کوجو سب سے بڑا مسئلہ ان دنوں در پیش ہے ، وہ ہے اردو کا عوامی استعمال، ہم اردو کومادری زبان کہتے ہیں اور اسے مسلمانوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں، کہ یہ مسلمانوں کی مادری زبان ہے ، ایک تو زبان کو مذہب کے ساتھ خاص کرنا غلط ہے، دوسرے یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ عملی طورپر یہ ہماری مادری زبان ہے ، عملی کا لفظ میں نے شعوری طور پر استعمال کیا ہے، عوامی سطح پر دیکھیں تو روز مرہ اور بول چال کی زبان نوے فی صد لوگوں کی اردو نہیں ہے ، ہمارے گھروں میں زبان بولی ہی نہیں جاتی ، ہم مختلف قسم کی بولیوں کو زبان سے تعبیر کرتے ہیں، ہمارے گھروں میں جو زبان بولی جا رہی ہے، وہ کہیں بھوجپوری ہے، کہیں میتھلی ہے، کہیں مگہی ہے، کہیں سنتھالی ہے ، کہیں بنگالی ہے،کہیں اڑیہ ہے ،کہیں کوکنی ہے، کہیں وجیکا ہے، کہیں کچھ اور ہے ، ان میں سے کچھ زبان (Language)کے زمرے میں آتے ہیں اور بیش تر بولیاں (Dialect)ہیں،ہمیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ بقول اختر اورینوی ’’ابھی تک کوئی ایسا ماہر لسانیات پیدا نہیں ہوا، جو بولی اور زبان کے درمیان واضح اور مستقل خط فاصل کھینچ سکے ۔لطیفہ یہ ہے کہ ڈاکٹر محی الدین زور نے اردوکو ہندوستانی یاکھڑی قدیم ویدک بولیوں میں سے ایک بولی ہی قرار دیا ہے، جو ترقی کرتے کرتے یا یوں کہئے کہ ادلتے بدلتے پاس پڑوس کی بولیوں کو دیتے اور کچھ ان سے لیتے اس حالت کو پہونچی جس میں آج ہم اسے دیکھتے ہیں۔ 

 ہمارے بچے اور عوام بھی انہیں بولیوں میں سے کسی ایک کا استعمال کرتے ہیں، اس لیے میرے نزدیک عوامی سطح پر اردوکو جو سب سے بڑا مسئلہ در پیش ہے وہ اسے بولی سے نکال کر اردو زبان تک لانے کا ہے ، تاکہ یہ عوام کی زبان بن سکے ، اس مسئلہ کا حل سمینار سمپوزیم سے زیادہ گاؤں اور محلہ کی سطح پر اسے مہم کے طور پر متعارف کرانا ہے، مہم بہت پتہ ماری کا کام ہوتا ہے ، جبکہ سمینار وسمپوزیم میں وہ جان کا ہی نہیں کرنی ہوتی ہے ، اس لیے معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم سمینارو سمپوزیم کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کر لیا ،جب کہ عوامی سطح پر اس کے اثرات کچھ نہیں ہوتے اور بات نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے نہیں بڑھ پاتی ،یقینا کہیں آگ لگی ہو توپانی پانی چلا نا بھی ایک کام ہے ، لیکن آگ بجھانے اور پانی کے حصول کے لیے بالٹی میں پانی لے کر دوڑنا یا دم کل والے کو بلالینا بالکل دوسرا کام ، پہلے سے بڑا بھی اور نتیجہ کے اعتبار سے مفید بھی ، میں سیمینار، سمپوزیم کی افادیت کا انکار نہیں کر تا ، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سمینار سمپوزیم سے موضوع کو متعارف کرایا جا سکتا ہے، اردو کے مخلصین تک بات پہونچائی جا سکتی ہے ،لیکن عوام کو بولیوں سے نکال کر زبان تک لانے کے لیے ٹولیوں کی ضرورت ہے جو ہر دروازے پر دستک دے اور ہر دماغ کو اپیل کرے اور لوگوں کو متوجہ کرے کہ وہ اردو میں بات کرنا شروع کریں، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر ضلع میں ضلع سے بلاک سطح تک کمیٹی بنائی جائے جو گاؤں گاؤں ، دیہات دیہات میں جاکر تحریک چلائے اور اردو بیداری کی لہر گاؤں گاؤں تک پہونچائے۔

اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہم سوچتے ہندی اورانگریزی ہی میں ہیں ، ہماری زبان پر جو کلمات فوری طور پر جاری ہوتے ہیں وہ ارد وکے علاوہ ہوتے ہیں، ہمیں اردو میں لکھنا بولنا ہوتا ہے تو ہم اس کے متبادل الفاظ تلاش کرتے ہیں، کامیابی نہیں ملی، ذہن متبادل الفاظ تک نہیں پہونچ سکا تو بلا تکلف دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ سوچ کرمطمئن بھی ہوجاتے ہیں کہ اس سے اردو کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتاہے۔ دوسری زبانوں کی ترکیب ، لغت اورقواعد کے اثرات سے زبان مالال مال ہوتی ہے، پروفیسر ثوبان فاروقی نے ایک بار کہا تھا کہ

’’ آج بنیادی مسئلہ اردو کے لیے کچھ کھونے اور پانے کا نہیں، اردو کی بقا کاہے، اردو جو ایک زبان ہی نہیں، مستقل تہذیب کلچر اور طرززندگی ہے، پچھلے پچاس سالوں میں اردو کہیں گم ہوگئی ہے، وہ نسل اٹھ گئی، جس کے احساسات ، تخیلات ، جس کی سوچ اور فکر جس کی وضع قطع، اورطرز زندگی اردو تھی، اب جو نسل ہمارے سامنے ہے وہ اردو کے مترجمین کی نسل ہے، ہمارے خیالات کو منتقل کرنے کے لیے جوالفاظ اچھلتے کودتے ہمارے سامنے آتے ہیں وہ اردو میں دوسری زبان کے الفاظ ہوتے ہیں، ہم ان کو دباتے ہیں، پھراس کا متبادل تلاش کرتے ہیں، ہمارے محاورے اور تلفظ تک بگڑرہے ہیں، بلکہ بگاڑنے کی منظم کوشش ہورہی ہے‘‘۔

لسانیات کے طلبہ کو اس صورت حال سے کس قدر پریشانیاں ہوتی ہیں، اور عجیب عجیب لسانی گتھیوں کے سلجھانے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے، اس کا اندازہ انہی لوگوں کو ہے جو اس کام سے لگے ہوئے ہیں؛ اس لئے اردو کو عوامی بنانے کے لیے ہمیں اپنی اس سوچ کو بھی بدلنا ہو گا اور یقینا اس سوچ کو بدلنے میں عوام کاحصہ کم، ہمارے اردو کے اساتذہ، تنقید نگار اور ادیب وشاعر کا حصہ زیادہ ہے ، اگر ان حضرات نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا تو اردو کو عوامی بنانے کی مہم کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر یہ مہم کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں یہ شکایت نہیں رہے گی کہ دوکانوں کے بورڈ زیادہ تر اردو میں نہیں لکھے جاتے ، کیوں لکھے جائیں ؟ دوکاندار سوچتے ہیں کہ اردو پڑھنے والے جب موجود ہی نہیں ہیں یا اقل قلیل ہیں تو اس زبان میں سائن بورڈ لگانے کا حاصل کیا ہے ، اردو عوامی بنے گی تو لوگ سائن بورڈ اور نیم پلیٹ اردو میں لگانے لگیں گے اور دوسری زبانوں کے ساتھ اردو کا استعمال بھی عوامی سطح تک ہو سکے گا ۔

 اردو کو عوامی بنانے میں دوسرا بڑا مسئلہ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا ہے ، مادری زبان میں ہم اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں ناکام ہو گیے ہیں،ہمارے زیاہ تر بچے اب گھرمیں تعلیم نہیں پاتے، نہ ماؤں کے پاس انہیں دینے کے لیے وقت ہے اور نہ باپ کو اس کی فکر ہے ، کم عمری میں ہی اسے کسی کنونٹ میں ڈال دیا جاتا ہے ، جہاں اسے جو زبان اور تہذیب سکھائی جاتی ہے وہ کم از کم نہ تواردو زبان ہوتی ہے اور نہ اس سے متعلق تہذیب، یہ بچے جنہوں نے اپنے ابتدائی درجات میں اردو سے کسی درجہ میں واقفیت نہیں بہم پہونچائی ہے، آگے چل کر اردو کی طرف ان کی رغبت ہو ہی نہیں سکتی، ایک شاعر نے کہا ہے   ؎

 ہماری قوم کے بچوں کو انگلش سے محبت ہے

ہمیں غم ہے کہ مستقبل میں اردو کون بولے گا

اس معاملے میں اگر کسی درجہ میں استثناء ہے تو مولویوں کا ، ان کے بچے مدارس اور مکاتب میں پڑھتے ہیں ، جہاں اردو ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے ، وہ دوسرے معاملات میں دنیاوی اعتبار سے جس قدر ناکام ہوں، لیکن اگر صد فی صد کہیں سے اردو زبان کو عوامی آکسیجن مل رہا ہے تو وہ مدارس دینیہ اسلامیہ ہیں،جن کا ذکر سمینار سمپوزیم میں کم ہوتا ہے، اور اردو کی سب سے زیادہ خدمت کرنے والا یہ طبقہ سرکاری سطح کے انعامات اور اس سے حاصل ہونے والے مفادات سے کوسوں دور ہوتا ہے ، بہت دور جانے کی ضرور ت نہیں ہے، بہار اردو اکیڈمی کے ذریعہ تقسیم انعامات کی  شروع سے آج تک کی فہرست ہی اٹھا کر دیکھ لیں تو معلوم ہو گا کہ اردو کے اس زمرہ کے خدام کی کس قدر ان دیکھی کی گئی ہے، سرکاری روپیوں سے چلائے جانے والے دوسرے اداروں کی صورت حال بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔اردو کو عوامی بنانے کے لئے اس طبقے کی خدمات کی پذیرائی اور اس کا کھل کر اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اکیڈمیوں اور اداروں کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ یہ اردو کے بے لوث خادم ہیں،انہوں نے اس نام پر نہ عوام سے کچھ لیا ہے اور نہ سرکار سے، صرف خدمت کیے جا رہے ہیں۔اردو کے دانشور اور اردوکی روٹی کھانے والے افسران اور ذمہ داران کہتے ہیں کہ مدارس میں تو چار فی صدہی بچے پڑھتے ہیں ، وہ اپنی نا کامی کو چھپانے کی فکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ چار فی صد بچے سو فی صد اردو پڑھتے ہیں، بقیہ چھیانوے فی صد میں اردو پڑھنے والے کا تناسب دو فی صد بھی نہیں ہے۔

 اردو کے سرکاری اسکول بھی اس زبان کو عوامی بنانے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں، لیکن سرکاری اداروں کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے ، اور بحالی کے سلسلے میں اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اس لیے کہیں تو اردو کے استاذ ہی سر ے سے دستیاب نہیں ہیں اور جہاں ہیں بھی ان کی دلچسپی اس زبان کو عوام تک پہونچا نے سے کم ہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو کے نام پر بحالی تو ہو گئی ہے؛ لیکن خود استاذ کی اپنی زبان اردو نہیں ہے، وہ اردو سے زیادہ ہندی پر قدرت رکھتے ہیں، ایسے استاذ کے ذریعہ جو بچے اردو سیکھتے ہیں ان کا املا، جملہ ، تلفظ سب کچھ غلط ہوتا ہے ،کبھی کبھی تو بعض الفاظ کے لکھتے اور بولتے وقت مضحکہ خیز صورت حال ہو جاتی ہے ، اس کی وجہ سے بھی اردو کو عوامی استعمال کی زبان بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے ، مشکل کاحل استاذ کے اپنے پاس ہے،جو طلبہ ان کے پاس آگیے ہیں، ان کو امانت سمجھیں اور طلبہ پر اپنی توجہ صرف کریں ، اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی بھی کو شش کرتے رہیں، اس کا حل صرف اور صرف مطالعہ کی کثرت ہے ، مطالعہ کی کمی کی وجہ سے اردو کی معلومات کمزور ہوتی ہے اور کمزور معلومات جب ہم طلبہ کو منتقل کرتے ہیں تو منتقلی اس سے بھی کمزور ہوتی ہے، اور کار طفلاں تمام ہوجاتا ہے۔

 اردو پڑھانے کے ساتھ اردو بولنے اور لکھنے کی مشق بھی طلبہ کو کرانی چاہیے، لیکن اگر استاذ خود اردو بولنے کے بجائے ’’وجیکا‘‘اور دوسری بولیوں کا استعمال کرتے ہوں تو طلبہ کس طرح اردو بولنے پر قدرت پائیں گے ، اسی طرح اردو لکھنے کی مشق کا معاملہ ہے، لکھنے میں املا کی صحت کے ساتھ خوبصورت تحریر کا بھی بڑا دخل ہے ، اور عوامی طور پر یہ خوبصورتی بھی باعث کشش ہوتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ تلفظ اور املا کی صحت کے ساتھ تحریر بھی خوبصورت بنائی جائے ، یوں تو سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، ہر عمر میں اپنے سے فائق لوگوں سے سیکھنے کے عمل کو جاری رکھاجا سکتا ہے ، لیکن بڑی عمر میں یک گونہ حجاب آتا ہے اور اس حجاب کی وجہ سے ہم شرمندگی محسوس کرتے ہیں، اس لیے بڑی عمر میں تحریر کی درستگی کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تھن پیپر لیکراسے مطبوعہ اردو کتابوں پر رکھ کر قلم پھیرا جائے اور روزانہ دو تین صفحہ اس طرح لکھا جائے تو ہاتھ بیٹھ جائے گا اور تمام حروف اور ا س کے مرکبات کے لکھنے کی مشق ہو جائے گی ۔

عوامی بیداری کے لیے کرنے کا ایک بڑا کام یہ بھی ہے کہ سرکار کے ذریعہ سابقہ اعلانات کو عملی طور پر نافذ کرنے کی جد وجہد کی جائے ، سرکار نے بار بار اعلان کیا ہے کہ دس طالب علم ہوں تو ایک استاذ بحال ہوں گے ، ہمارا کہنا یہ ہے کہ استاذ بحال کیجئے ،لڑکے ا ٓئیں گے ، یہ پہلے انڈا یا پہلے مرغی والا معاملہ ہے ،ہم پہلے مرغی کے قائل ہیں، مرغی موجود ہو اور وہ دیہاتی مرغی ہو، چکن نہ ہوتو انڈا تو آئے گا ہی، لیکن سر کار بغیر مرغی کے انڈا چاہتی ہے یہ تو کسی بھی حال میں ممکن نہیں ہے ۔

عوامی سطح پر اردو کو درپیش مسائل میں ایک یہ بھی ہے کہ اردو میں لکھی ہوئی درخواستیں سرکاری محکموں میں ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہیں،اس کی وجہ سے عوام اردو میں درخواست دینے سے گریز کرنے لگی ہے ، ڈاکٹر شکیل خاں صاحب کا یہ بیان بہت پہلے نظر سے گزرا تھا کہ انہوں نے سینکڑوں درخواستیں اردو میں ارسال کیں اور ان کا کوئی جواب اردو میں انہیں موصول نہیں ہو سکا۔اور اب درخواستوں کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے ، سارے فارم ہندی میں چھپے ہوئے ہیں، آپ ان کی خانہ پُری لازما ہندی ہی میں کریں گے، اردو میں فارم دستیاب ہویا کم از کم اسی فارم میں اردو کا اضافہ کر دیا جائے تو فارم اردو میں بھرے جا سکیں گے ، اردو سے متعلق سرکاری اداروں کو اس طرف پہل کرنی چاہیے۔دوسرے کام کے لیے عوامی سطح پر درخواستیں ہی اردو میں کم پڑتی ہیں ، یا نہیں پڑتی ہیں،اس لیے جن جگہوں پر مترجم بحال ہیں وہ بھی دوسری فائلوں پر لگادیے گیے ہیں، اور وہ بخوشی اس کام میں لگ گیے ہیں ، کیونکہ دوسری فائلیں زیادہ ’’بار آور‘‘ ہیں، انہوں نے اس تبدیلی پر کوئی احتجاج کبھی درج نہیں کرایا ، اور مطمئن ہو گیے کہ وہ سرکاری ملازم ہیں،اس صورت حال کی وجہ سے بھی عوامی طور پر اردو کا استعمال سرکاری دفاتر میں کم ہواہے ، واقعہ یہی ہے ،چاہے جس قدر بھی تلخ ہوکہ ہم نے ارد وکے نام پر روٹیاں زیادہ سینکی، ہیں کام کم کیا ہے ۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اردو ہائی پروفائل اعلی سطح کے لوگوں کے یہاں سے غائب ہے، ان کے یہاں ہندی انگریزی کے اخبارات ورسائل تو آتے ہیں،اردو اخبارات ورسائل کی بات کیجئے تو کہتے ہیں کہ اردو کے اخبارات ورسائل کا معیار ہی کیا ہے، باسی خبریں، غیر ضروری اور غیر معیاری مضامین ، طباعت ایسی کہ چھونے سے ہاتھ کالے ہو جائیں، جتنی کمی  کوتاہی ممکن ہے نکال دی جاتی ہے اور نئی نسل کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے میں اردو کو عوامی بنانا کس طور ممکن ہو سکتا ہے۔

 یہ مسائل سرکار کے پیدا کردہ نہیں ہیں، یہ تو ہماری ذہنی پستی کے نتیجے میں در آئے ہیں، اس کو دورکرنے کے لیے ہمیں خود ہی جد وجہد کرنی ہوگی ، آج تک ہماراطریقہ  یہ رہا ہے کہ ہم ہر کمی کو تاہی کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں، اس موقع سے داخلی طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے  اپنے عمل سے اردو کوعوامی بنانے میں کتنی رکاوٹیں پیدا کی ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ خارجی سطح پر بھی اردو کوعوامی بنانے میں جو رکاوٹیں ہیں وہ ہماری بے حسی کے نتیجے میں ہیں ، ہم نے ہمیشہ سرکار کی طرف دیکھا ہے،اپنے گریبان میں جھانکنے کی نوبت کم آئی ہے،یاد رکھیے زندہ قومیں اپنے مسائل خود حل کرتی ہیں،انہیں چار لوگوں اور چار کاندھوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ، چارکاندھے مُردوں کے لیے ہوتے ہیں، زندہ قوموں کو اپنا بوجھ، اپنے مسائل ، اپنی پریشانیاں خود اٹھانے ہوتے ہیں، جس دن ہم نے یہ طے کر لیا کہ اردو کا مسئلہ ہم خود حل کریں گے اس دن سے اردو کوعوامی بنانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی، کیونکہ 

ع۔    کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

یہ کیا،میرے ملک کا دستور ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے