مولانا محمد یعقوب قاسمی: سرزمین بہار کی ایک مردم ساز شخصیت

 

   از: ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

  گیسٹ لیکچرار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد ومدیر رابطہ خیر امت، انڈیا

 

          مولانا محمد یعقوب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فارغین میں سے تھے، اسی لیے انکے نام کیساتھ قاسمی کا لفظ منسوب ہے، وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی منسلک تھے،انکے فکر ونظر میں بڑی توسع تھی، مولانا مرحوم کی شخصیت کو معتدل مزاجی اور فکری ہم آہنگی کے نمونہ کے طور پر بھی پیش کرسکتے ہیں،کیونکہ وہ آپسی اور اندرونی نزاع و اختلاف سے پاک معاشرہ کی تعمیر وترقی چاہتے تھے، امت مسلمہ کوہر صورت میں ایک پلیٹ فارم پر متحد اور متفق دیکھنا چاہتے تھے،وہ خود تو قاسمی تھے مگر انکی اولاددارالعلوم ندوۃ العلماء سے بھی فارغ تھیں،ان کے افکار و خیالات میں بڑی وسعت و گہرائی پائی جاتی تھی اور اسی نہج پر وہ طلباء اوراپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کرنا چاہتے تھے اور اسکی ترویج و اشاعت کے ذریعے موجودہ حالات کارخ موڑنا چاہتے تھے۔مسلمانوں کا مسلکی اور نظریاتی اختلاف کیوجہ سے آج جو حال بنا ہوا ہے وہ بڑی حکمت عملی سے سب کا اتحاد و اتفاق چاہتے تھے اور مل جل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ بطور خاص ندوی، قاسمی اور مظاہری کا کوئی فکری اور نظریاتی تنازع ذہن و دماغ میں پلتے ہوئے دیکھنا پسند بھی نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کی بعض اولاد ندوی بھی ہیں۔

          ندوی، قاسمی اور مظاہری وہ نسبتی الفاظ ہیں جو ملک ہندوستان کے ممتاز اور مایہ ناز مدارس اسلامیہ مثلا ندوہ، دیوبند اور مظاہر العلوم سے فراغت حاصل کرنے والوں کیلئے مستعمل ہوتے ہیں اور عالمیت و فضیلت کی سند حاصل کرنے والے اپنے ناموں کے اخیر میں اس کو جوڑتے ہیں، تاکہ وہاں کے متخرجین کی ایکدوسرے سے امتیاز ہوسکے، ندوی بولتے ہی سامعین بلاتأمل یہ سمجھ جاتے ہیں کہ انکی فراغت ہندوستان کے مشہور ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ سے ہوئی ہے، جن کی وجہ سے نہ صرف انکے فارغین و فضلاء کو ہمارے درمیان ایک امتیازی مرتبہ حاصل ہے بلکہ عالم اسلام میں بھی ان کو ایک مقام حاصل ہے اور ہر جگہ انہیں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان سے معاملہ کیا جاتا ہے، ان کے فارغین کو انکی صلاحیت و استعداد کیمطابق مختلف مناصب و عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے،  ہزاروں فارغین آج بھی گلف میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اوقاف کی ملازمتوں میں بھی انکی خاصی تعداد ہے، اسکے علاوہ ملک و بیرون ملک میں انکے فارغین کا جو نمایاں رول اور کردار ہے، زندگی کے مختلف شعبوں میں انکا جتنا بڑا حصہ ہے، قابل فخر و اعزاز قربانیاں ہیں، تعلیم و تربیت، دعوت وتبلیغ اور علم وادب کے فروغ واشاعت میں ہر جگہ انکا جو قابل قدر کارنامہ ہے، اسکی وجہ سے بعض اہل زبان و ادب سے بھی فوقیت و برتری کا نمایاں مقام رکھتے ہیں، دنیا انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ انکے کارناموں کی ستائش و تعریف میں اور انکی گرانقدر خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں متعدد بے بیش بہا جوائز و انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے، حالیہ عرصے میں حضرت مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی رح کی شخصیت کو عمدہ مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، ہندوستان کی مایہ ناز شخصیتوں کی فہرست میں انکے نام اور کارناموں کو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے، ان پر جتنا بھی رشک کیاجائے وہ کم ہے اور اللہ کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے وہ بہت تھوڑا ہے۔ وللہ الحمد والمنۃ والیہ یرجع الفضل والکرامۃ۔

          ندوہ، دیوبند اور مظاہر العلوم کی آج بھی عالم اسلام میں بڑی قدر و قیمت ہے اور انکو دینی و روحانی مدارس میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہے ان کے بلند پایہ مقام تک پہنچنے کیلئے دوسرے مدارس و ادارے قاصر ہیں، اس کی کئی وجوہات وعوامل ہیں، جن کا تفصیلی ذکر یہاں مناسب نہیں! البتہ اخلاص و للہیت روحانی تعلیم وتربیت، تقویٰ و پرہیزگاری، انسانیت کی خیر خواہی اور بھلائی والے جذبات و احساسات کی تخلیق ان کے نمایاں خصوصیات ہیں، دین و شریعت، علم و ادب، فقہ و قضا اور تحقیق و نظر کے میدان میں انکے جو روشن کارنامے ہیں، جن سے متصف ہو کر ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی ممتاز درجہ کرلیتا ہے اور دوسروں پر انکو بڑی فضیلت وفوقیت حاصل ہوتی ہے، جنکی وجہ سے ادارہ اور اساتذہ کا دنیا میں بھی نام روشن و ممتاز ہوتا ہے اور یہی کسی ادارے کا مطمح نظر اور کسی فرد کی بڑی کامیابی ہے، کتنے ایسے افراد و اشخاص اور علماء و صلحاء ہیں جن کی وجہ سے مدارس و جامعات کی شناخت و پہچان وابستہ ہے۔واللہ الموفق و الھادی الی سواء السبیل

          مذکورہ بالا اداروں کے فارغین کی ایک لمبی فہرست ہے اور ان کے بعض سپوتوں کو بعض پر وہ فوقیت حاصل ہے جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں، کوئی ایسا عالم نہیں جن سے بڑھ کر دوسرا کوئی عالم نہ ہو، اسی بات کو قرآن نے اسطرح سمجھایا ہے کہ ''وفوق کل ذی علم علیم''، اور سورہ مجادلہ کی آیت سے اس بات کی مکمل تائید ہوتی ہے کہ ''یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین أوتوا العلم درجات واللہ بما تعملون خبیر'') مجادلۃ: 11.

          آج بھی ایسے بڑے بڑے علماء کے کارناموں اور محاسن اوصاف کی طوطی بول رہی ہے، انکا تذکرہ آج بھی محبین میں بدستور قائم و دائم ہے، کون سی گھڑی اور کون سا ایسا وقت ہے جس میں ان کا ذکر خیر نہ ہوتا ہو، ان کی سوانح حیات اور ان کی کتابوں کو پڑھنے کی چاہت نہ ہوتی ہو، طالبان علوم نبوت انکے احسان و انعام کے مداح و قدرداں ہیں، انکے لیے بہترین بدلہ کی دعائیں کرتے ہوں خدا ان کے کارناموں اور کاوشوں سے دنیا کو تادیر مستفیض فرمائے۔

          انہی ممتاز و معروف شخصیت، لائق و فائق استاذ، تجربہ کار مہتمم و منتظم، ماہر فقیہ وقاضی، جید عالم و فاضل، شفیق و کریم مربی وباپ اور متعدد امتیازات و خصوصیات کے حامل علماء و فضلاء اور ایک مردم ساز شخصیت اور ہمدرد انسانیت میں حضرت مولانا محمد یعقوب قاسمی رح کا نام نامی اسم گرامی سرفہرست آتا ہے، جو سرزمین بہار کے درخشندہ ستاروں اور روشن میناروں میں سے ایک مضبوط مینارہ ہے، جو ایک طرف دل درد مند اور فکر ارجمند سے متصف ہیں تو دوسری طرف استادوں میں ممتاز مقام و حیثیت رکھتے ہیں، ان کے عمل میں خلوص و للہیت کا عنصر زیادہ غالب ملتا ہے، ان کی خدمات کے مطالعے اور احاطے کرنے سے راقم الحروف قاصر ہے پھر بھی اس تحریر کے ذریعے راقم دریا کو کوزے میں سمونے کی  کوشش کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مزید توفیق و مدد کی درخواست ہے کہ وہ ہمارے اس کوشش کو قبول فرمائے اور نفع عام و خاص کا ذریعہ بنائے۔

          بڑے خوش نصیب ہیں برادر محترم، مشفق دوست، پی ایچ ڈی کے ہمارے کلاس ساتھی، مانو یونیورسٹی کے سابق گیسٹ لیکچرار، فعال ندوی عالم، صاحب کتاب، ڈاکٹر محمد فضیل ندوی، جن کی اپنی الگ خصوصیات و امتیازات ہیں جن سے ہم بخوبی واقف ہیں، بے شمار مقالے اور مضامین ہیں جو ہندوستان کے مختلف اخبار و جرائد کی زینت بن کر منظر عام پر آچکے ہیں، آج بھی ان کی فکروں سے امت کو فائدہ پہونچ رہا ہے، اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں حتی کہ اب اپنے والد کی سوانح حیات پر نفع عام کے واسطے ایک کتابچہ کو ترتیب دے رہے ہیں، آپ کے ہاتھوں میں یہ کتابچہ انہی کا مرتب کردہ ہے جو انکے علمی، ادبی اور دینی مزاج کی عکاسی کر رہا ہے، اللہ ان سے خوب کام لے اور ان کی عمر دراز فرمائے ان کی مرادیں بر آور فرمائے اور والد مرحوم کی صفات کا جامع و پیکر بنائے۔

          حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کی شخصیت کے گوشوں پر لکھنے والوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے بالکل بجا لکھا ہے اور ان کی سوانح حیات کی ترتیب میں جن جن حضرات کا وافر حصہ ہے، اللہ ان کی محنتوں کو مقبول فرمائے اور ان کو بہار کے لوگوں بالخصوص طالبان علوم نبوت کے لئے مشعل راہ بنائے، مرحوم کو ان کی خدمات کا بھرپور صلہ عطا فرمائے، ان کی نسبت دارالعلوم دیوبند سے منسوب ہوکر نہ صرف سندی اعتبار سے ممتاز نظر آتی ہے بلکہ وہ دیوبند کے اغراض و مقاصد اور اہداف و مشاریع کو بروئے کار لانے میں عملی نمونہ بن کر ابھرتے ہیں اور پوری زندگی سر زمین بہار میں رہ کر اسکی مٹی کو زرخیز بناتے ہیں اور علم و ادب کے میدان میں وہ نمایاں کردار ادا کرتے ہیں کہ ان گنت طلباء انکے نقوش وخطوط کے پابند ہوجاتے ہیں، جنکی تعلیم و تربیت میں اپنی عمر کھپاتے ہیں، اپنے آل و اولاد کی علمی، عملی اور دینی پرورش و پرداخت کرتے ہیں، سبھوں کو دین و شریعت اور اسکی تعلیم کی دولت سے آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں حتی کہ پورے علاقے کی عوام کو بھی اپنے علم کی روشنی سے سیراب کرتے ہیں ہیں۔ فقہ و قضا کے لائن سے ان کی خدمت کرتے ہیں۔

          علم و عمل کی آمیزش سے انکی شخصیت نمایاں عالم و فاضل کی شکل میں ترقی پذیر ہوتی ہے جس میں انکی جدوجہد اور شوق و لگن کا خاصا دخل ہے اور نور اللہ نور یہ کہ وہ درسی زمانے میں بڑے بڑے اساتذہ سے کسب فیض کرتے ہیں جن کی شخصیتوں کا آج بھی نامور ہستیوں میں شمار ہوتاہے بخاری شریف کی سند بھی وہ بہت بڑے محدث اور جلیل القدر عالم دین سے حاصل کرتے ہیں، جن کی تربیت سے انکی ذات مزید نکھر جاتی ہے، ایسے ایسے افراد اور علماء انکے درسی رفقاء ہیں، جن کا شمار قدآور شخصیتوں اور باوقار ہستیوں میں ہوتا ہے، حتی کہ حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ انکے درسی رفیق ہیں۔ جن کے کارناموں پر ملک ہندوستان کو نازوفخر ہے، ان کی خدمات جلیلہ سے کون عالم و فاضل ہے جو واقف نہیں ہے، جن کا ابھی ابھی فی الحال انتقال ہوا ہے، آج بھی ان کے اوپر مستقل مضامین اخبارات میں پڑھنے کو مل رہے ہیں، ایسی شخصیات جن کے چشموں اور ان کے سونتوں کی انتہا نہیں ہے، ان کے علم و فکر سے مستفید ہونے والوں کی فہرست ناقابل احصاء ہے انہیں عالموں میں قاضی و مہتمم حضرت مولانا محمد یعقوب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہے جن کے اہتمام و انتظام کی سلیقہ مندی، درس و تدریس کی لیاقت اور فقہ و قضا کی مہارت کے علاوہ انسانیت کی خیرخواہی سے متعلق بہترین نقوش ہیں، شاگرد تو شاگرد عوام بھی مداح ہے، وہ انسانیت کی خیرخواہی کے اچھے کارناموں سے نہ صرف مدرسہ، ان کے اساتذہ اور اپنے شاگردوں کو سیراب کرتے ہیں بلکہ سرزمین بہار کی عوام کو بھی اپنی خوبیوں کا خوگر بناتی ہے، جن پر عوام و خواص کو فخر ہے ہمیں ان پر اعتبار و اعتزاز ہے، ہم سب مل کر انکے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔

          عمر کے آخری مرحلے میں اگرچہ انہوں نے اپنے آپ کو مدرسے کی ڈیوٹی سے خدا کی عبادت و ریاضت کیلیے فارغ کر لیا تھا مگر علاقہ پہنچ کر بھی آپ نے انسانیت کی رہنمائی، دین و شریعت کے رہنمائی اور عوام کی ملی، سماجی، دینی، اخلاقی، اصلاحی و اجتماعی فرائض سے الگ نہیں کرسکے، تادم حیات انکی خدمات میں لگے رہے اور اس کی ذمہ داری کی ادائیگی کے ساتھ وہ اللہ کے حضور روانہ ہوگئے، خدا کے یہاں پہنچ کر ان کی روح کو بڑی تسکین حاصل ہوئی ہوگی، اور اس آیت کریمہ کی سراپا مصداق ہوئی ہوگی جس میں اللہ کا وعدہ اپنے بندوں اور ولیوں کے لیے مذکور ہے وہ یہ ہے۔إِنَّ الَّذِینَ قَالُواْ رَبُّنَااللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَٰٓءِکَۃُ أَلَّا تَخَافُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَبْشِرُواْ بِالْجَنَّۃِ الَّتِی کُنتُمْ تُوعَدُونَ۔۔۔۔۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے  

21جنوری2021فکروخبر)

«
»

بہ یاد یار مہرباں

میڈیا۔کووڈ کے بعد………..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے