………او ربھی غم ہیں زمانے میں

  سہیل انجم

گزشتہ کالم میں اترپردیش میں لو جہاد مخالف قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں پر عرصہ ¿ حیات تنگ کیے جانے سے متعلق اظہار خیال کیا گیا تھا۔ اس کالم کو پڑھ کر اعظم گڑھ کے بزرگ رکن اسمبلی جناب عالم بدیع نے فون کیا اور کالم کی پذیرائی کی۔ انھوں نے موجودہ صورت حال پر اظہار تشویش کرنے کے ساتھ ساتھ کالم کی ان آخری سطور پر بطور خاص اظہار خیال کیا جن میں مسلم نوجوانوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ ہندو لڑکیوں سے محبت اور شادی کے طلسم سے باہر آئیں اور خود کو اور اپنے اہل خانہ کو ممکنہ آزمائشوں سے محفوظ رکھیں۔ عالم بدیع صاحب نے بڑے کرب کے ساتھ کہا تھا کہ آج مسلم نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ بے راہ رو ہو گیا ہے۔ وہ کوئی تعمیری کام کرنے کے بجائے ہندو لڑکیوں کے حسن و ادا کا دیوانہ ہو گیا ہے اور اسے اس کی بھی فکر نہیں ہے کہ اس کی ان کرتوتوں سے نہ صرف اس کے والدین اور اہل خانہ بلکہ پورے مسلم معاشرے کو کس توہین و تذلیل کے تکلیف دہ عالم سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ مذکورہ کالم میں جو باتیں کہی گئی تھیں وہ تصویر کا ایک رخ تھا۔ یعنی ریاست کی پولیس لو جہاد مخالف قانون کے نام پر کسی کی بھی شکایت پر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور ان کے خلاف کیس دائر کرکے انھیں جیل میں ڈال دیتی ہے۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ اس پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
میڈیا میں جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں، اگر وہ درست ہیں تو ان کی روشنی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کے دام محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یا تو وہ اسکول و کالج میں ہم جماعت ہوتے ہیں اور ساتھ پڑھنے اور رہنے سہنے کی وجہ سے ان میں پہلے انسیت اور پھر محبت ہو جاتی ہے۔ یا پھر محلے پڑوس کے لوگ ہوتے ہیں، روزانہ نگاہیں چار ہوتی ہیں، آپس میں گفت و شنید ہوتی ہے اور پھر گفت و شنید کی یہ گاڑی محبت کی پٹری پر دوڑنے لگتی ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ وہ جوڑا شادی کرنے اور ایک ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھنے لگتا ہے اور اگر ان میں سے کسی کے اہل خانہ شادی کے لیے تیار نہیں ہوتے تو وہ چپکے سے یا گھر سے فرار ہو کر شادی کر لیتے ہیں۔ جب حقیقت عیاں ہوتی ہے تو ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے اور پولیس کارروائی کے نتیجے میں جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ حالانکہ ایسے کئی معاملات بھی سامنے آئے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی کہیں کسی تقریب میں شرکت کے بعد ساتھ گھر کو لوٹتے ہیں اور ہندوتو وادی تنظیموں کی شکایت پر ان کے خلاف بھی پولیس کارروائی ہو جاتی ہے اور محض ساتھ گھر جانے کی وجہ سے لڑکے کے اوپر لو جہاد مخالف قانون کے تحت مقدمہ قائم ہو جاتا ہے۔ 
صنف مخالف کے لوگوں کا خواہ وہ کسی بھی عمر کے ہوں، ایک دوسرے کی طرف مائل ہونا ایک فطری بات ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بار بار دیکھنے یا ملنے جلنے سے آپس میں محبت ہو جائے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم نوجوان صورت حال کو سمجھیں۔ حالانکہ ہم صرف مسلم نوجوانوں کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہراتے۔ کیونکہ بہرحال محبت کا ٹریفک یکطرفہ نہیں چلتا۔ جب تک دوسری طرف سے حوصلہ افزائی نہ ہو بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہمیشہ مسلم نوجوان ہی پہل کرتے ہوں یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ نوجوانوں کی جانب سے کم حوصلہ افزائی ہو اور فریق مخالف کی جانب سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جاتا ہو۔ لیکن جو بھی ہے اس قانون کی زد لڑکوں ہی پر پڑتی ہے۔ اس لیے صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر چہ کسی معاملے میں لڑکے کی کوئی خطا نہ ہو تب بھی کارروائی اسی کے خلاف ہوگی۔ لڑکی کی جانب سے لاکھ یہ بات دوہرائی جائے کہ ان میں محبت نہیں ہے، وہ لو جہاد نہیں کر رہے تھے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے یا لڑکا اسے جبراً مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا لیکن اس کی بات نہیں سنی جا ئے گی اور پولیس حکومت کو خوش کرنے کے لیے کارروائی کر ے گی۔ اس لیے مسلم نوجوانوں سے گزارش ہے کہ خدا را خود کو، اپنے والدین کو اور پورے مسلم معاشرے کو اس بدنامی سے بچانے کے لیے خود کو کنٹرول میں رکھیں۔ ہندو لڑکیوں کے دام محبت سے بچیں اور ان سے شادی کرنے کا خواب دل سے نکال دیں۔ 
یہ صورت حال سماجی نقطہ نظر سے تو انتہائی دھماکہ خیز اور خطرناک ہے ہی، کہ اس کی آڑ میں سماج میں فرقہ واریت پھیلائی جاتی ہے اور فسادات کی نوبت آجاتی ہے، مذہبی نقطہ ¿ نظر سے بھی درست نہیں ہے۔ اسلام میں یا تو ہم مذہب سے شادی کرنے کی اجازت ہے یا پھر اہل کتاب سے۔ ہندو مذہب کے پیروکار اہل کتاب نہیں ہیں۔ لہٰذا کسی ہندو لڑکی سے شادی شرعی نقطہ ¿ نظر سے درست اور حلال نہیں ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مسلم لڑکے اور ہندو لڑکی نے شادی کر لی۔ کسی نے نکاح پڑھوایا تو کسی نے مندر میں جا کر پھیرے لگوائے۔ یہ دونوں صورتیں غلط ہیں۔ ایک مسلمان کا دوسری کسی ایسی خاتون سے جو دوسرے مذہب کی ہو یا اہل کتاب نہ ہو نکاح بھی نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ ہندو رسوم و رواج کے مطابق پھیرے لگواکر شادی کرنا۔ اگر کسی نے نکاح کر بھی لیا ہے اور لڑکی مسلمان نہیں ہوئی ہے وہ ہندو ہی ہے تو اس نکاح کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسلام میں اس شادی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ او راگر دونوں نے ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی کی ہے تب بھی ایک مسلمان کی ایسی شادی کی اجازت شریعت نہیں دیتی۔ لہٰذا اس کو بھی کوئی جواز حاصل نہیں ہے۔ ایسی شادیوں میں لڑکا لڑکی یا مرد و عورت اس وقت تک حرام کاری کے مرتکب ہوتے رہیں گے جب تک کہ وہ شرعی نقطہ ¿ نظر سے شادی نہ کر لیں۔ دیکھا جائے تو اس قسم کی شادیاں عموماً غلط ہی ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ایسی ہر شادی کامیاب ہو اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس سے سماج میں پیچیدگی پیدا ہوتی ہے، منافرت کا ماحول بنتا ہے اور دوفرقے آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ازدواجی زندگی میں بھی بہت سی دشواریاں اور پریشانیاں آتی ہیں۔ اس قسم کی شادیاں عام طور پر ناکام ہو جاتی ہیں۔ وقتی اور جذباتی ابال کے تحت اٹھائے جانے والے ایسے قدم تباہی و بربادی کی منزل پر لے جاتے ہیں۔ اس راہ میں قلبی اطمینان و سکون کا کوئی لمحہ میسر نہیں آسکتا۔ ممکن ہے کہ ابتدائی ایام میں جوش و جذبات کے تحت زندگی خوشی و مسرت کے ساتھ گزرے لیکن وقت کا پہیہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ محبت کی یہ گاڑی پٹری سے اترنے لگتی ہے اور پھر اس کا اختتام ناخوشگوار موڑ پر یا کسی تباہ کن حادثے پر ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مسلم نوجوانوں پر تو ذمہ داری عاید ہوتی ہی ہے کہ وہ ایسے ناخوشگوار حالات کے شکار نہ بنیں، مسلم معاشرے اور اس کے سرکردہ افراد پر بھی ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ایسے بے راہ رو نوجوانو ں کو سمجھائیں اور انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ مسلم تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ اس بارے میں ایک مہم چلائیں اور ایسی شادیوں کے تباہ کن نتائج سے لوگوں کو باخبر کریں۔ جس طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے کبھی کبھار اصلاح معاشرہ کی مہم چلائی جاتی ہے اسی طرح اسے اس کے خلاف بھی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی نظرانداز کر دینے والا معاملہ نہیں ہے۔ اس پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علما کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ مسجدوں میں خطاب کے دوران نوجوانوں کو اس قسم کی محبت سے بچنے کی تلقین کریں۔ کبھی کبھار یہ خیال دل میں آتا ہے کہ کیا مسلم لڑکوں کے پاس اور کوئی کام نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ ہندو لڑکیوں کے ارد گرد گھومیں اور ان کے عشوہ و انداز و ادا پر فریفتہ ہوتے رہیں۔ اگر وہ بے روزگار ہیں تو اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کو کام پر لگایا جائے، انھیں روزگار فراہم کیا جائے اور انھیں اس کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ گمراہی کے اس دلدل میں دھنسیں۔ بہرحال ہم مسلم نوجوانوں سے کہنا چاہیں گے کہ:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ویلما روڈولف: ایک معذور لڑکی جس نے تاریخ رقم کی!

2020: پوچھ اپنی تیغ ابرو سے ہماری سرگزشت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے