عنوان: پر چہ

 

 از قلم: ماریہ نور

یہ دنیا عارضی ہے۔اصل زندگی تو قیامت کے بعد والی ہے،ابدی زندگی،لامتناہی، جب ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق صلہ دیا جائے گا۔

یہ دنیا ایک کمرہ امتحان ہیں ہیں اور ہماری زندگی امتحانی پرچہ،ہر کسی نے اپنی مرضی کے مطابق اپنے امتحان کا انتخاب کیا ،جتنا مشکل امتحان، اتنا بڑا انعام۔

اللہ تعالی  نے تمام انسانوں کو پیدا فرمایا تو انہیں کہا کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنا پرچہ اٹھا لو۔سب نے اپنی مرضی کے مطابق اپنا اپنا پرچہ اٹھا لیا۔جس نے جتنا مشکل پرچہ اٹھایا،اگر اس پرچے میں پاس ہوتا ہے تو جنت میں میں اتنا ہی اعلی مقام ملے  گا اور اور اگر اس پرچے میں فیل ہوتا ہے  تو دوزخ میں اتنا ہی گہرا گڑھا ملے گا۔

ہم دنیا میں آگئے لیکن ہم  دنیا میں اپنے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں۔اپنے پرچے کو  حل کرنے پر  توجہ دینے کی بجائے  دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں۔

اللہ پاک عادل ہے۔  وہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا۔جب وہ دیکھتا ہے  کہ ہمارے اعمال اتنے اچھے نہیں ہیں  تو وہ ہمارے حالات سخت کر دیتا ہے اور ہمیں آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ روز قیامت ہمیں نوازنے کے لیے اس کے پاس کوئی وجہ موجود ہو۔

درحقیقت آزمائش ہماری زندگی میں  ہماری نیکیوں کو بڑھانے اور  گناہوں کو کم کرنے کے لیے ہوتی ہے۔اللہ تعالی انسان کو اسی چیز پر آزماتا ہے جس سے اسے سب سے زیادہ محبت ہو۔آزمائش  ہے ہی اپنی  محبوب ترین شے  کو قربان کرنے کا نام۔کسی کو اللہ  اپنی محبت نواز کر آزماتا ہے تو کسی کو دنیاوی محبت سے۔اور کبھی کبھی اللہ انسان کو اپنی اور  دنیاوی  دونوں محبتیں دے کر آزماتا  ہے۔

اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ کچھ بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ وہ چاہے  تو دونوں محبتیں عطا کر دے۔ لیکن وہ آزمائش  اس لیے رکھتا ہے تاکہ  وہ بندے کے اپنے ساتھ تعلق کی مضبوطی کو پرکھ سکے کہ آیا بندہ اس کے لیے اپنی دنیا کی محبت کو قربان کر سکتا ہے کہ نہیں۔

ہم کمزور ہوتے ہیں اور بجائے فوراً کسی فیصلے پر پہنچنے کے ہم شش وپنج  میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اللہ سے سے آزمائش ختم کرنے کا کہتے ہیں ۔کسی ایک محبت کو چننے کا فیصلہ نہیں کر پاتے، یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہوتی ہے۔ہمارا ایمان، ہمارا اللہ پاک سے رشتہ اتنا تو مضبوط ہونا چاہیے کہ جب اللہ اور دنیاوی محبت میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو ،اگر ،مگر، کیوں ،کیسے ،کیا ،تمام سوالوں میں الجھے بغیر آنکھیں بند کر کے اللہ کی محبت کا انتخاب کر لیں۔ تاکہ اس آزمائش میں کامیاب ہوکر دنیا میں بھی سرخرو ہوسکیں اور آخرت میں بھی۔

اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کریں اور اپنے  منتخب کردہ پرچےکو اچھی طرح سے حل کریں۔ اگر آپ اے پلس گریڈ نہیں لے سکتے تو اتنا تو ضرور حل کریں کہ فیل نہ ہوں۔ کم ازکم ٪33 نمبر سر لے کر پاس ہو سکیں۔ باقی اللہ کا غضب کبھی بھی اس کی رحمت بہت پر حاوی نہیں آ سکتا۔بےشک وہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ملک میں مسلمانوں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ضروری ہے۔

سیاست سے حمایت تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے