مسلمان صفوں میں اتحاد پیدا کریں!!

 

 عبدالکریم ندوی گنگولی

جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلور کرناٹک

             آج پوری دنیا ایک انقلابی دور سے گزر رہی ہے، سفینۂ انسانیت ہچکولے کھا رہی ہے، حالات روز افزوں کروٹ بدل رہے ہیں، ساری قومیں مل کر مستقبل کا خاکہ و نقشہ بنارہی ہیں، اس ترقی پذیر دنیا میں جہاں ملکوں کا پرانا نظام بدل رہا ہے، وہیں دوسری طرف اسلام دشمن قومیں مادی اور ظاہری طور پر مضبوط ہو رہی ہیں اور مسلمانوں کی دینی و ملی اور تہذیبی خصوصیات کو مٹانے کی پیہم کوششوں میں لگی ہوئی ہیں، روس کی کمیونزم ہو یا امریکہ و برطانیہ کی سرمایہ دارانہ جمہوریت یا دوسرے یوروپی ممالک کی آمریت و جارحیت، یہ سب نظریات اور نظامہائے حیات کے زبردست سیلاب ہیں، جو اسلامی تہذیب و ثقافت کو بہا لے جانا چاہتے ہیں، آپ نے دیکھا کہ امریکہ اور اس کی حلیف جماعتوں اور ملکوں نے کس بے دردی کے ساتھ فلسطین ،افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، وہاں کے جنگی طیاروں نے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، عورتوں کو بیوہ بنادیا، بچوں کو یتیم کر دیا، یہی نہیں بلکہ اس وقت جو لوگ بچے کھچے ہیں وہ خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں، آئے دن ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے ہیں اور اب کرونا وائرس کا خطرناک طوفان بھی بلاخیز ہوچکا ہے، جس کی زد میں انسانیت خس و خاشاک کی طرح بہتی جارہی ہے، تحقیق کہ یہ سب اسی سازش کا حصہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کے نام لینے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے یا کم از کم ان کے رشتے کو اسلام سے کاٹ دیا جائے.

                اس وقت خفیہ طور پر دشمن کی تلوار ایران اور شام کے سروں پر لٹک رہی ہے کب اور کس وقت ان ممالک پر حملہ آور ہو کر ان کو تباہ و برباد کر دے، کچھ نہیں کہا جا سکتا، حقیقت یہ ہے کہ یہ مغربی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی سے باز نہیں آسکتی، قرآن نے کہا کہ "ولا یزا لون یقا تلو نکم حتی یر دو کم عن دینکم ان استطاعوا" (البقرہ) یہ لوگ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلے، ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی بڑی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ شاطرانہ انداز میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور غیر محسوس طریقے پر مسلم قوم کو ٹارگٹ بناکر انہیں ذہنی آزمائش کا شکار بنایا جارہا ہے، یہاں کی فرقہ پرست تنظیمیں اور فاشزم طاقتیں اپنی پوری توانائی صرف کر رہی ہیں کہ مسلمانوں کو کس طرح زک پہونچایا جائے، کبھی ان کے شعائر دین کو نشانہ بناتی ہیں تو کبھی فرقہ وارانہ فسادات کروا کر مسلمانوں کی عزت و آبرو، جان و مال کو تباہ کر رہی ہے، تاریخی بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ملک میں کرائے گئے فرقہ وارانہ فسادات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی انتہا پسند جماعتوں کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اسلامی تشخص و عقائد اور ملی خصوصیات سے دست بردار ہو جائیں اور اکثریتی فرقہ کے قومی دھارے میں ضم ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھیں، اگر اس عہد انقلاب میں بھی مسلمانوں نے ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگ، بڑی طاقتوں کی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور بیمار ذہنیت کی سازشوں سے کوئی سبق حاصل نہ کیا تو انہیں مستقبل میں بڑے نامساعد حالات و مشکلات سے گزرنا پڑے گا، یہ خطرات اس بات کا سگنل ہیں کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں، دین اسلام کے غلبے اور اس کو نظام حیات کے طور پر نافذ کرانے کے لئے ایک بیدار ملت کی حیثیت سے سوچیں، اپنی صفوں سے فرقوں اور علاقائی حد بندی کو توڑ کر ایک متحد اور انجام بیں قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئیں، باہمی خلوص و محبت اور ہمدردی و خیر سگالی کے جذبات کو ابھاریں.

           وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان کلمہ کی بنیاد پر متحد اور منظم ہو جائیں، اپنے اندر فکر و عمل کے اتحاد کو بیدار کریں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی کے شرائط رکھے ہیں، ان میں وحدت اسلامی کو لازمی قرار دیا "و اعتصمو ا بحبل اﷲجمیعا" پھر ثابت قدمی اور خدا کی یاد سے دل کو تازہ کرنے کی ترغیب دیں "اذا لقیتم فئۃً فاذ کر واﷲلعلکم تفلحون" پھر اس کے بعد کفر و ضلالت میں ڈوبی قوم کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے واقف کرائیں، میرے استاد محترم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب دامت برکاتہم نے لکھا ہے کہ  قوموں کی اصلاح کی فکر اور دین حق کی طرف ان کو مائل کرنے کی کوشش اس امت کا فریضہ قرار دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اس عمل کے سلسلے میں دنیا کے مختلف حصوں سے ان کا رابطہ قائم ہو جانے کے بعد وہ دین و اخلاق کے تعلق سے ساری دنیا کے عمل اور رد عمل سے واقف ہو رہے ہیں اور اسی بنا پر وہ ان کے بارے میں قیامت کے روز صحیح گواہی دینے والے ثابت ہوں گے، ان کی یہ امتیازی شان جو اللہ کی طرف سے ان کو دی گئی ہے، اس کو وسطیت سے تعبیر کیا گیا ہے، ان کے لئے محض تمغہ امتیاز نہیں بلکہ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے ( امت مسلمہ رہبر اورمثالی امت ۶۶).

                اس دعوت کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دل سے جہالت کے پردے کو چاک کیا جائے اور نور الٰہی سے اس کو منور کیا جائے، جس طرح رسول اکرم ﷺ نے قیصر وکسریٰ کو توحید کی دعوت دی، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں آپ کو اسلام کی دعوت دے رہا ہوں اگر آپ نے اسے قبول کر لیا تو تمام آفات سے محفوظ ہوں گے اور اللہ کی طرف سے آپ کو دہرا اجر ملے گا، لیکن اگر آپ نے انکار کیا تو تمام رعایا کا وبال آپ ہی کی گردن پر ہو گا، آج کے قیصر وکسریٰ کے کانوں تک نبی کریم ﷺ کا یہ پیغام پہونچایا جائے، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی تخلیق کرنے والے کان کھول کر سن لیں کہ دنیا میں جب تک توحید کی دھندلی سی بھی روشنی باقی رہے گی، اس وقت تک کوئی طاقت مسلمانوں کو فنا نہیں کرسکتی، لیکن اس دعویٰ کو حقیقت میں بدلنے کے لئے مسلمانوں کو مل جل کر محنت کرنی ہوگی، اس کے لئے تشریعی طور پر ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ان کو ہم پورا کر یں اور نتائج کو اللہ کے حوالے کریں، ویسے اللہ نے اسلام کی نصرت و حمایت کرنے والوں کو بڑی بڑی بشارتیں سنائی ہیں اور ان کے لئے خصوصی رحمت کے وعدے کئے ہیں ورنہ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ سبحانہ کو ہماری نصرت اور مدد کی ضرورت نہیں، اگر وہ چاہے تو پورے عالم کو حق کی سعادت نصیب فرما دے.

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

22ستمبر2020(فکروخبر)

«
»

اسلامی اَیپس۔ دشمن کے ہاتھ مسلم ڈاٹا

صحافیوں پرظلم وتشددکےبڑھتے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے