صحافیوں پرظلم وتشددکےبڑھتے واقعات

از۔محمدقمرانجم فیضی

یونیسکو(یونائیٹڈ نیشن ایجوکیشنل سائنٹفک کلچرل آرگنائزیشن) ادارے کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون تک دنیا بھر میں ایسے 21 مظاہرے ہوئے، اس  مظاہرہ کے دوران کئیں صحافیوں پر حملے کیے گئے، ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں یا پھر انہیں ہلاک کر دیا گیا،دنیا بھر میں مظاہرے کرنے والے صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

 اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری پولیس اور سکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے پیر 14چودہ ستمبر کو ایک بیان بھی جاری کیاتھا،یونیسکو کے مطابق جنوری سے جون تک دنیا بھر میں ایسے اکیس مظاہرے ہوئے، جن کے دوران مظاہرہ کرنے والے صحافیوں پر حملے کیے گئے، ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں یا پھر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ یونیسکو کی دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ یہ ایجنسی 'میڈیا ڈویلپمنٹ' یا میڈیا کی ترقی سے متعلق پیش رفت کو بھی مانیٹر کرتی ہے۔ اس ادارے کی ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں 'پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں طاقت کا غیر قانونی استعمال ان ادارں کے دیگر رجحانات میں تیزی سے اضافے کا ایک حصہ ہے۔

یونیسکو کی اس رپورٹ کے مطابق 2015ء سے لے کر 2020ء کے وسط تک کم از کم 10 صحافی مظاہروں کے دوران مارے گئے۔ مزید برآں رپورٹروں پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے حملوں، یا ان کی گرفتاریوں کے 125 واقعات بھی رونما ہوئے۔ یونیسکو نے اپنی اس رپورٹ میں اس عرصے کے دوران دنیا کے 65 ممالک میں ہونے والے مظاہروں کی تفتیش کے بعد سامنے آنے والے اعداد و شمار شامل کیئے۔ بتایا گیا ہے کہ دوران ملازمت ہلاک ہونے والے رپورٹروں کی ہلاکتیں شام، میکسیکو، اسرائیل، نکاراگوا، شمالی آئرلینڈ، نائجیریا اور عراق میں ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق، 'دنیا بھر میں مظاہروں کی کوریج کی کوشش کے دوران سینکڑوں صحافیوں کو ہراساں کیا گیا، مارا پیٹا، ڈرایا دھمکایا اور گرفتار کیا گیا، نگرانی میں رکھا گیا، اغوا کیا گیا اور ان کے پیشہ وارانہ ساز و سامان کو نقصان پہنچایا گیا اور یہ سب کچھ پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے کیا۔'

یونیسکو کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ مظاہروں کے دوران پولیس نے ربڑ کی گولیوں سے لے کر کالی مرچوں کی گیندوں تک غیر مہلک اشیاء سے لے کر گولہ بارود تک کا استعمال کیا، جس کے سبب کئی انسانوں کی بینائی بھی ضائع ہو گئی۔یونیسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کو اکثر رپورٹروں کے ساتھ اپنے اس رویے کے بارے میں کسی قسم کا کوئی خوف یا سزا ملنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں مظاہروں کی کوریج کرنے والوں پرحملوں کو سزاؤں سے مستثنیٰ سمجھنے کا رجحان معمول بن گیا ہے۔'' یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ایزولے نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ صحافی اپنی حفاظت کو داؤ پر لگائے بغیر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ ایزولے کا کہنا تھا،احتجاجی تحریکوں کے بارے میں رپورٹنگ اور ناظرین کو معلومات اور آ گاہی فراہم کرنے میں صحافیوں کا غیر معمولی اور انتہائی مشکل کردار ہوتا ہے اس بارے میں عالمی برادری سے مخاطب ہوتے ہوئے آڈرے ایزولے نے کہا،ہم عالمی برادری اور تمام متعلقہ حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافیوں کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے۔یونیسکو نے کہا کہ مظاہرے اکثر معاشی ناانصافی، حکومتی بدعنوانی، سیاسی آزادیوں کے خاتمے اور بڑھتی ہوئی آمریت کے بارے میں ہوتے ہیں ،جس سے کچھ حکومتوں کو متوازن رپورٹنگ کی روک تھام سے ذاتی مفاد حاصل ہوتا ہے۔ یونیسکو نے کہاہے، 'اقوام متحدہ نے متعدد قراردادوں میں پریس کے خلاف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے مخالفانہ بیان بازی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، روزنامہ انقلاب ارریہ بہارکےنامہ نگارعبدالغنی اس بابت اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ قلم اور کیمرہ پر پہرہ داری تشویشناک امر ہےہندوستانی جمہوریت کے چوتھے ستون میں ہمارے صحافی برادری دور حاضر میں "چنوتیوں"سے جوجھ رہے ہیں دن رات ایک کرکے سماج کے لئے خبریں ڈھونے والےصحافیوں کو آج بہیمانہ قتل' تشدد اور ٹارچر عام بات ہوکر رہ گئی ہے ایسا نہیں ہے کہ صحافیوں پر حملہ اور تشدد صرف میڈیا پر حملہ ہے بالکلہ یہ حملہ سماج پر بھی ہے بڑے چھوٹے اور درمیانہ میڈیا ہاوسز کے لئے بھی یہ ایک چیلنج ہے  صحافیوں پر ہورہے حملہ کو روکنا سرکاروں کی بھی ذمہ داری ہے ہم اس امر سے انکار نہیں کرسکتے کہ فی زمانہ سماج کے تمام شعبوں میں گراوٹ آئی ہے بحران پیدا ہوا ہے اسی طرح اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کے ساتھ انسانی حقوق کو  بھی پامال کیا جارہا ہے انسانی حقوق کے تحفظ و استحکام کے لئے آواز بلند کرنے والوں کی آوازوں کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں سماج کا یہ رجحان تشویسناک ہے  آج صورتحال یہ ہے کہ عوام کی جانب سے میڈیا پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ میڈیا حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کے بجائے اس کی تعریف و توصیف اور مدح سرائی میں مصروف عمل ہےیقیناعوام کے ان الزامات کی یکسر تدید نہیں کی جاسکتی چونکہ عصر حاضر کے صحافت پر عوام کا ایمان نہیں رہا میڈیا کے تئیں ان کے دل و دماغ میں منفی اثرات گھر چکے ہیں  عوام کا یقین میڈیا سے اٹھ چکا ہے اخبار اور نیوز چینل پر ان اعتبار نہیں رہا دور حاضر میں دنیا کی سب سے غیر معتبر شئی ان کے نزدیک اخبارات نیوز چینل ہے یہ سچ بھی ہے کہ میڈیا بالخصوص کارپوریٹ گودی میڈیا نے صحافی اور صحافت کانام خراب کردیا ہے جبکہ صحافی برادری اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ہم حکومت سے سوال کررہے ہیں ان کی غلط پالیسیوں پر آواز بلند کرتے ہیں لہذا عوام کا ایک بڑا طبقہ آنکھ موند کر ہم پر اعتبار کرتی ہے گویادن بدن میڈیا اور عوام کے درمیان رشتہ مضبوط ہونے کے بجائے کمزور پڑ رہا ہےاختلاف رائے ڈیموکریسی کاحسن ہے لیکن قلم اور کیمروں کو جس طرح جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے آئے دن صحافیوں حملہ ہورہے ہیں ان کے لئے زمینیں تنگ ہورہی ہے یہ ایک عظیم جمہوری ملک کے لئے کسی المیہ سے کم نہیں ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ملک کی ترقی اور استحکام و مضبوطی اور سماج کا رخ موڑنے میں صحافت نے جو رول ادا کیا ہے اور کررہے ہیں اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود دنیا کے دیگر ممالک اور خطہ کے ساتھ وطن عزیز ہندوستان میں بھی صحافت پر پہرہ بٹھائے جانے ' صحافیوں پر تشدد،حملےاور قتل کئے جانےکے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں

اعداد و شمار اس بات کی غماز ہے کہ پریس کی آزادی کم ہورہی ہے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کی سروے رپورٹ بتلاتی ہے کہ: دنیا بھر میں صحافیوں کی حالت قابل رحم ہے اس سروے میں 2016  اور 2017 کے درمیان صحافیوں کے عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے اور ہندوستان 133 ویں نمبر سے  136 ویں مقام پر آگیا ہے جنوری 2016 سے اپریل 2017 کے درمیان52 صحافیوں جان لیواحملہ ہوئے ہیں  اور15- 2014  میں 142 حملہ' جس میں درجنوں صحافیوں کو سچ لکھنےکا جزیہ اپنی جان کر دینی پڑی ہے  صحافیوں پرہورے پہ در پہ حملہ کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی جمہوریہ میں صحافت کو چوتھا ستون کا درجہ ضرور دیا گیا ہے مگر صحافیوں کے لئے کوئی امینٹمینٹ نہیں ہے صحافیوں کے تحفظ کے لئے کوئی ٹھوس قانون کا نظم نہیں، 

یہی وجہ ہےکہ صحافیوں پر جبرو تشدد عام سی بات ہوکر رہ گئی ہےلہذا سماج کے زور آور عناصرصحافیوں کو تر لقمہ سمجھتے ہیں حالیہ دنوں میں بہیمانہ انداز میں جس طرح صحافیوں کو قتل کیا گیاہے اس سے لکھنے والوں میں خوف پیداہوا ہے حق اور سچ لکھنے کی پاداش میں سال دیڑھ سال کے دوران کلبرگی راجدیو رنجن سے لیکر گوری لنکیش تک کو قتل کردیا گیا مگر ہنوز سناٹا کم نہیں ہورہا ہے صحافیوں کی قتل پر صحافی بھی خاموش ہیں حالیہ  سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ع

لے سانس بھی آہستہ بہت نازک ہے یہ کام

[آر ایس ایف] رپورٹس وداؤٹ باڈرس یا رپورٹرس ساں فرانتی دنیا کی جانا مانا ادارہ ہے یہ عالمی پیمانے پر دنیا بھر میں صحافت کی آزادی پر رپورٹ شائع کرتی ہے، اس کے مطابق وزیراعظم مودی کے چاہنے والے اندھ بھکت انتخابات سے پہلے صحافیوں کے خلاف بہت غم وغصہ دکھایا، ہندتوا کے خیرخواہ عالمی بحثوں سے ان سبھی باتوں کو مٹا دینا چاہتے ہیں جنہیں وہ ملک کے لئے خلاف مانتے ہیں، صحافیوں کی آواز دبائےجانے کے حوالے سے یہ رپورٹ کہتی ہے کہ حکومت کی برائی کرنے والے یا اسکے خلاف لکھنے والے صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمے درج کروائے جاتے ہیں حتی کہ کچھ معاملوں میں ملک سے غداری کا کیس بھی درج کیاجاتاہے جس میں تازندگی قید کی سزا ہوجاتی ہے، 

اس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ان صحافیوں کے خلاف باقاعدہ سوشل میڈیا پر اجتماعی طریقے سے پلان بناکر پوسٹس لکھے اور پوسٹ کئے جاتے ہیں اور خاص کر وہ صحافی جو کہ ہندتوا کے خلاف لکھتے ہیں یا ایسے موضوعات پر لکھتے ہیں جو کہ ہندتواکے چاہنے والوں کو چڑھ ہوتی ہےکئی بار تو جان سے مارنے تک کی دھمکی دی جاتی ہے اگر صحافی خاتون ہو تو حملہ مزید اور بھی بُرا ہوتاہے 

———-جاری—- 

مضمون نگار۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگرکے صحافی ہیں

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

 

 

 

«
»

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس

دنیا ایک متبحر اور رجال ساز عالم سے محروم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے