ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے

    (قسط اول)

   ابوسعید ندوی

(قرنطینہ میں گزرے خوبصورت لمحات )

گلے میں ہلکی سی خراش تھی۔وہی خراش کھانسی  میں تبدیل  ہوئی ،موسم میں اکثر ہوا کرتا ہے۔ بخار ، زکام اور بلا کی سردی۔
ڈاکٹر سے مشورہ ہوا، دوائیں تجویز کی گئیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی۔ 
میرے لیے یہ کوئی نئی بیماری نہیں تھی بلکہ تقریباً ہر  سال  اِن ہی دنوں میں سردی زکام کی شکایت رہتی ہے،ڈاکٹر بھی وہی تھا البتہ ایک نئے جرثومے کی دریافت ضرور ہوئی تھی جو اپنے اندر تیزی سے پھیلاؤ کی صلاحیت رکھتاتھا۔ تفتیش کی گئی، وہی ہوا جس کا خدشہ مجھے بھی تھا اور دوسروں کو بھی۔

عجیب خوف کا ماحول تھا، ہر طرف اس جرثومے کا ذکر، کسی کام میں پہل کی ہمت نہیں اور نہ ہی  کسی کی طرف مدد کا ہاتھ بڑرہا تھا۔ 
گھر میں قدم رکھوں تو پورا کنبہ۔
 مدرسہ جانے کا ارداہ کیا کہ کچھ سکون پاؤں لیکن مدرسہ کے طلبہ نگاہوں میں پھر گئے۔کہاں جاؤں! کہاں بھاگوں! زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ نظر آنے لگی۔

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

آخر کہاں جاتا؟ منزل تو وہی تھی، ساتھیوں نے ہمت بندھائی، اسپتال انتظامیہ اور معالجین نے میری اس پریشانی میں ساتھ  نبھانے کا وعدہ کیا۔تفتیش کے بعد نتیجہ سامنے تھا، پیروں تلے زمین نکل گئی چوں کہ دل میں اس کی ہلاکت خیزی کا اس قدر خوف بٹھایا گیا تھا کہ اللہ کی پناہ۔
دوسری شام ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی ، خیریت دریافت کرنے کے بعد تسلی کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: ’’سَر ! یہ کوئی بڑی چیز نہیں ، آپ نہ گھبرائیں ، کچھ دوائیں دی جائیں گی ان کو استعمال کیجیے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا،عمر رسیدہ لوگوں کے لیے ذرا تشویش کی بات ہے کیوں کہ ان میں قوت مدافعت کی کمی ہوتی ہے، آپ تو ماشاء اللہ جوان ہیں ، سب ٹھیک ہوجائے گا، آپ کو صرف ایک ہفتہ یہاں رہنا پڑے گا اور دو ہفتے مزید گھر میں اپنے اہل و عیا ل سے علاحدگی اختیار کرنی پڑے گی”۔ڈاکٹر کے ان تسلی بھرے جملوں نے گویا لمحوں میں سب درد دور اور سب رنج کافور کیے۔
اب تک جس جرثومے کا اتنا خطرناک تعارف تھا وہ ایک معمولی بیماری معلوم ہوئی۔جی ہاں میں اسی بیماری کی بات کررہا ہوں جس کو دنیا ”کورونا“ کے نام سے جانتی ہے۔
 ہم نے اسی وقت وہاں موجود عملے سے کہا کہ آپ لوگوں کے دلوں سے اس کا خوف نکال دیجیے ورنہ ڈر اور خوف سے ہی اموات واقع ہوں گی۔
بفضلہ تعالی اب کورونا تو دل سے نکل گیا ۔ لیکن ایک ہفتے پھر تن تنہا! ساتھ میں نہ آدم نہ آدم زاد۔ دوستوں، یاروں اور گھر والوں سے دور! تن تنہا کھانا کبھی تصور میں نہ آیا،اس وقت تو پورا ہفتہ اس جرم کا ارتکاب تھا، آنکھوں کے سامنے وہ تمام مناظر تھے جن کو دیکھ کر زندگی کے شب و روز گزرجاتے تھے اور جن کے بغیر زندگی محال بن جاتی ہے۔

تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے

 سوچا اب وقت گزارنا تو پڑے گا۔دل پر دستک ہوئی کہ 
نہیں نہیں اب تو  وقت کا صحیح استعمال کرنا ہے۔ ضمیر نے آواز دی  کتاب بہترین ساتھی ہے۔ اس کو ساتھ رکھا کر۔ دوستوں کے مشورے بھی تھے کسی نے تلاوت،کسی نے ذکر، تو کسی نے موبائل سے دل بہلانے کی بات کہی۔ اللہ تعالی نے دل میں بات ڈالی اپنے محبوب کی سیرت سے ان ایام کی ابتدا کروں۔ فضل خداوندی سے ابھی ابتدا ہوئی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔۔ مخاطب بھی کسی قرنطین سینٹر میں تھے، بس اپنے بیتے ایام کی روداد سنانے لگے۔۔۔جی ان کی شکایات بالکل بجا ،ان کا رونا بالکل صحیح۔۔۔لیکن اندازہ ہوا کہ مصیبت کے وقت تعلیمات اسلامی کی بنیاد پر ایک مسلم کو کیا کرنا چاہیے ،قوم کے افراد اس سے کوسوں دور ہیں۔
ہمارا ایمان ہے کہ آفتیں اور وبائیں اللہ کی طرف سے ہیں اور وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ بھی۔ ان حالات میں صحابہؓ کا معمول تھا کہ وہ مسجدوں کا رخ کرتے ، استغفار کی کثرت کرتے اور اللہ سے رجوع کرکے ایک نئی زندگی تلاش کرتے۔
قارئین ذرا غور کریں !اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آفتوں اور بلاؤں سے ہمیں امان عطا فرمائے ۔
اگر خدا نخواستہ ہمارا کوئی بھائی بہن  قرنطین میں ہو تو یہ فکر کی جائے کہ وہ ان ایام کو  کیسے مفید بنائیں! اپنے وقت کا کیسے استعمال کریں! اللہ کو دوبارہ کیسے راضی کریں! جو آزمائش اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس میں ہم کیسے کامیاب ہوں؟ یہ نہ ہو کہ ہم صرف وہاں پر انتظامیہ اور ذمہ داران کے خلاف باتیں اور ایک دوسرےکی غیبت میں اپنے ایام صرف کریں ۔ہاں ایمان رکھیے کہ اجتماعی گناہوں کی وجہ سے اجتماعی آفتیں نازل ہوتی ہیں اور ان کی لپیٹ میں سب آجاتے ہیں ۔
 میرے دوستو !
احتیاطی تدابیر اختیار کیجیے ، ڈر اور خوف سے اپنے آپ کودور رکھیے اور اللہ پر ایمان رکھیے ۔
تلاوت کو اپنا مشغلہ بنائیے، ذکر و استغفار سے اپنی زبان تر رکھیے، صدقہ کی کثرت کیجیے کیوں کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے، کتابوں کو اپنا دوست بنائیے ، ایک دوسرے سے معافی مانگیے اور خود بھی ایک دوسرے کو معاف کیجیے۔ واللہ اس میں اللہ نے سکون رکھا ہے، راحت رکھی ہے اور ہماری کامیابی بھی اسی میں مضمر ہے ۔
اگر تمام ڈاکٹرز اور علاج ومعالجے کے عالمی ادارے اس وبا سے مایوس ہوجائیں یا اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تب بھی ہمارا ایمان اسی اللہ پر ہے جس نے بیماری اتای اور وہی اس کو ختم کرنےکی قدرت رکھتا ہے۔

کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے 

اور جب تک ہم انفرادی طور پر اپنے حالات درست نہیں کریں گے اور اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کریں گے تو مصائب اور مشکلات سے خلاصی ناممکن ہے۔ یہ نظام الہی مسلّم ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

(اگلی قسط میں ان لمحات کا ذکر ہوگا جو لمحات میری زندگی کے پرسکون لمحات تھے)

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے