بچے، موبائل اور والدین

 

 

از قلم:  محمد شاہد علی مصباحی

رکن: روشن مستقبل دہلی

 

      آج گھر گھر کی کہانی یہی ہے کہ ہم بچوں کی  موبائل کی لت سے پریشان ہیں، جس سے بچوں کے متعلق بات کریں وہ یہی رونا روتا ہوا نظر آئے گا کہ ہمارے بچے موبائل بہت چلاتے ہیں، لاکھ کوششوں کے باوجود ہم ان کی موبائل فون کی لت کو چھڑا نہیں پارہے ہیں۔

اس موبائل کی وجہ سے نہ پڑھتے ہیں نہ لکھتے ہیں نہ کھیلتے ہیں بس رات دن موبائل ہی میں مصروف رہتے ہیں جس کے سبب وہ ذہنی بیماریوں کے ساتھ جسمانی بیماریوں کے بھی شکار ہوتے جارہے ہیں۔ نظر کی کمی، سردرد، موٹاپا جیسے سیکڑوں امراض ہیں جو ہمارے بچوں سے چمٹ سے گئے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو سمجھایا بھی، ڈانٹا بھی، مارا بھی، ڈرایا بھی، دھمکایا بھی اور دوسروں سے بھی یہ سب کراکے دیکھ لیا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جیسے ہی موبائل چھینا بس رونا شروع اور اس وقت تک چپ نہیں ہوتے جب تک انہیں موبائل مل نہ جائے۔

گھنٹوں موبائل چھپا کر رکھا مگر رونا بند نہیں ہوا تو خواہی نخواہی دینا ہی پڑا۔ چاکلیٹ وغیرہ کا لالچ دیا مگر جیسے ہی چاکلیٹ ختم موبائل کی ضد شروع اب کریں تو کیا کریں؟؟؟

آپ کے بچے کو عادت کیسے پڑی ؟

آپ بخوبی جانتے ہیں جب آپ کا بچہ پیدا ہوا وہ موبائل کو نہیں جانتا تھا، جب وہ لاشعوری سے شعور کی منزلیں دھیرے دھیرے طے کررہا تھا تب وہ  اپنے ماں باپ کو موبائل پر ہی لگا دیکھ رہا تھا۔ جب بھی والدین کو دیکھا تو موبائل ہی چلاتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اسی کی طرف مائل ہوگیا۔

کیوں کہ آپ جانتے ہیں بچہ اپنے ارد گرد کے ماحول ہی کو جذب کرکے سیکھتا ہے وہ جو دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔ اگر والدین نماز پڑھتے ہیں تو بچہ اپنے آپ آکر رکوع سجدہ کرنے لگتا ہے، اگر والدین تلاوت کرتے ہیں تو بچے بھی اسی طرف مائل ہوتے ہیں اور اگر والدین مطالعہ کرتے ہیں تو بچہ بھی کتابوں کا شوقین ہوجاتا ہے۔ الغرض: والدین جو کام کرتے ہیں بچہ اسی کام کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔

اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے بچے کو کیا سکھانا چاہتے ہیں ؟ اگر آپ دین سکھانا چاہتے ہیں تو اپنے گھر پر دینی ماحول پیدا کرنا ہوگا، اگر آپ بچے کو پڑھانا چاہتے ہیں تو تعلیمی ماحول بنانا ہوگا۔ الحاصل: جو چیز آپ بچے میں دیکھنا چاہتے ہیں اسے آپ کو اپنانا ہوگا اور جس چیز سے بچے کو بچانا چاہتے ہیں اس سے خود کو بچانا ہوگا تبھی آپ اپنے بچے کو جیسا چاہتے ہیں ویسا بناسکتے ہیں ورنہ نہیں۔

بچوں کی موجودگی میں موبائل کا استعمال

اگر آپ کے گھر میں بچے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ موبائل کی لت سے محفوظ رہیں تو سب سے پہلے آپ کو ان کے سامنے موبائل کے کثرت استعمال سے پرہیز کرنا ہوگا، صرف ضرورت ہی کے لیے موبائل کا استعمال کرنا ہوگا۔ 

اگر کوئی موبائل آپ کے گھر میں رہتا ہے تو سب سے پہلے اپنے اس موبائل سے ہر طرح کے  گیم (Games) ہٹانے چاہیے۔ پھر سوشل میڈیائی ایپلیکیشنز (Applications) کو لاک کرنا ہوگا ساتھ ہی یو ٹیوب (You Tube) کو بھی لاک کرنا ہوگا۔ تاکہ اگر بچوں کو موبائل ملے تو انہیں اس میں ایسی کوئی چیز نہ ملے جو ان کو پسند آئے۔ اگر آپ نے یہ کام کرلیے تو آپ کے بچے موبائل کے عادی نہیں ہونگے۔

عورتوں کی پریشانی

آج کل اکثر ہوتا یہ ہے کہ خواتین کو کام کرنا ہوتا ہے اور بچہ پریشان کرتا ہے تو وہ موبائل میں گیم یا کارٹون وغیرہ لگا کر بچے کو دیدیتی ہیں تاکہ وہ جب تک کام کریں بچے پریشان نہ کریں اس طرح بچے موبائل کے عادی ہوجاتے ہیں اب وہ چھوڑنا ہی نہیں چاہتے۔ کارٹون ایسی بلا ہے کہ بچہ اگر اس میں گرفتار ہوا وہ نکل نہیں سکتا۔ 

پڑھائی کی طرف بچوں کو کیسے مائل کریں؟

عام طور پر بچے کارٹون کے دیوانے ہوتے ہیں اسی لیے وہ موبائل ملتے ہی یو ٹیوب (you tube) سے کارٹون (cartoon) نکالتے ہیں اور بس اسی میں کھوجاتے ہیں نہ کھانے کی پرواہ، نہ پینے کی اور نہ پڑھنے کی۔

آپ تھوڑی کوشش کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بچوں کے لیے ملک بھر میں ان گنت رسائل (Magazines) نکلتے ہیں۔ جن میں بہت سے رسائل ایسے بھی ہیں جو بچوں کے کارٹون کے شوق کو بھی پورا کرسکتے ہیں کیوں کہ ان رسائل میں جو اخلاقی کہانیاں ہوتی ہیں ان کو سمجھانے کے لیے کارٹون جیسی تصویریں (Images) بھی بنائی جاتی ہیں جس سے بچہ اس رسالہ کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہے اور اسے پتا بھی نہیں ہوتا کہ وہ کب کارٹون اور کہانیوں کے چکر میں مطالعہ اور ادب کا عادی ہوچکا۔

اب اسے موبائل نہیں رسائل کی عادت ہوگی جو کہ اس کے مستقبل کے لیے نہایت کارگر ثابت ہوگی۔ مگر افسوس!!! صد افسوس!!!  ہم اپنے گھروں میں موبائل تو چار چار رکھ سکتے ہیں مگر رسالہ ایک بھی نہیں رکھتے، جب کہ ایک عام  موبائل کی قیمت میں آپ دسیوں سال تک کے لیے متعدد رسائل بک کرا سکتے ہیں۔

لیکن افسوس! کا مقام یہ ہے کہ ہماری اس جانب توجہ ہی نہیں۔ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ سدھر جائے مگر ہم خود سدھرنا نہیں چاہتے اور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جب تک والدین خود موبائل سے پرہیز نہ کریں گے تب تک بچے نہیں کرسکتے اور جب تک والدین خود کتابوں اور رسائل کا مطالعہ نہ کریں گے تو بچے کیسے کریں گے؟

پہلے والدین کو خود پڑھنے اور مطالعہ کی عادت ڈالنی ہوگی نیز بچوں کے لیے اخلاقی رسائل منگانے ہوں گے تبھی وہ تعلیم اور مطالعہ کی طرف مائل ہونگے۔

چند اچھے رسائل جن سے بچوں میں مطالعہ اور ادب سے شغف پیدا ہوگا۔

فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ مگر ہم یہاں اردو زبان میں بات کر رہے ہیں تو اردو رسائل کی فہرست پیش کی جائے گی اسی طرح ہندی اور انگریزی کے رسائل بھی ملتے ہیں۔

فہرست رسائل برائے اطفال

ماہنامہ امنگ، دہلی

ماہنامہ اردو دنیا، دہلی

ماہنامہ پیام تعلیم، دہلی

ماہنامہ بچوں کی دنیا، دہلی

ماہنامہ تعلیمی انقلاب

ماہنامہ نیا کھلونا، کولکاتا

ماہنامہ بچوں کی نرالی دنیا، نئی دہلی

ماہنامہ سائنس، دہلی

ماہنامہ فنکار نو، حیدرآباد

ماہنامہ گل بوٹے، ممبئی

ماہنامہ نور، رام پور

ماہنامہ ہلال، رام پور

ان میں سے دو یا تین رسائل بھی منگانا شروع کردیں تو آپ کا بچہ مطالعہ کا عادی ہوسکتا ہے اور اگر بچپن ہی سے مطالعہ کا عادی ہوگیا تو یقین جانیے کے کامیابی اس کے قدم چومے گی۔

مدنی چینل بھی ایک بہتر آپشن ہے:

اگر بچے ویڈیو کارٹون ہی کے عادی ہیں اور وہ اس کے کو چوڑ ہی نہیں رہے ہیں تو آپ کو اپنے گھر میں مدنی چینل انسٹال کرا لینا چاہیے۔ اور اپنے بچوں کو موبائل کے بجائے مدنی چینل پر کارٹون دیکھنے کی ترغیب دیں۔ تاکہ آپ کے بچے فضول کے وقت برباد کرنے والے کارٹونز کے بجائے دینی قدروں کی تعلیم دینے والے کارٹون دیکھیں۔

کیوں کہ اس چینل کا مقصد ہی موجودہ دور میں کارٹون ہی کی شکل میں بچوں میں دینی بیداری لانا، بچوں کو اسلام کی قدروں سے آشنا کرانا، والدین کی خدمت، بھائی بہن کے حقوق،  پڑوسیوں کے حقوق اور تعلیم و تعلم وغیرہ کی طرف مائل کرنا ہے۔

پیارے مسلمانو! بچوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دو تاکہ آپ کے بچے دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہوں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضرورینہیں ہے 

19جولائی 2020

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے