بچھڑ گئے ہم سے ایک سرپرست

    تحریر: ۔ سید ابو الحسن ہاشم ایس ایم 
مسجد عمیر میں چہارگانۂ عصر ادا کی، تعلیم کے فورا بعد گھر واپسی ہوئی، تو اچانک ایک غمگین خبر کانوں سے ٹکرانے لگی، کہ ابھی کچھ دیر قبل قاضی شہر حضرت مولانا اقبال صاحب ملا ندوی کی جان جان آفریں کے سپرد ہوئی ہے۔ اس خبر کے سنے ابھی چند لمحے بھی نہیں ہوئے تھے کہ کچھ ہی دیر میں سوشیل میڈیا پریہ  خبر عام ہونے لگی، اور ہر شخص مختلف انداز میں مولانا سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے لگا، کسی نے "اسٹیٹس" کا سہارا لیا تو کوئی زندگی کی بے ثباتی کے ترانے نشر کرنے لگا، اور کچھ متعلقین تو اتنے صدمہ میں چلے گئے کہ زبان سے ایک آدھ حرف کی ادائگی بھی دشوار ہونے لگی۔
بہر کیف، ہمارے قاضی صاحب اب مرحوم ہوچکے اور اپنی موت سے بھی دنیا  والوں کو مالک حقیقی کا فیصلہ سناچکے کہ وقتِ موعود آنے پر پھر اس کے نزدیک  مہلت و تاخیر نہیں،وہ اعلان کرتے ہوئے چل بسے کہ موت کے شکنجے میں کسنے کے لئے خدا تمہاری "پوزیٹیو" رپورٹوں کا قطعاً محتاج نہیں، بلکہ اس کے نزدیک توقدر  "پوزیٹیو" زندگی  کی ہے، اور اگر ایسی زندگی نہ ہو تو پھراپنی ہولناکیوں کے ساتھ "نیگیٹیو" آخرت  اس کا مقدر بننے کے لئے تیار ہے۔
خیر! مولانا کی زندگی کے اہم واقعات، ان کی خوبیاں، ان کے اوصاف، اور ان کے کارنامے آئے دن سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے، لیکن چونکہ مولانا سے میرے  تعلقات کا آغاز گزشتہ سال ہی  ہوا تھا لہذا میں خود کو اس کا اہل بھی نہیں پاتا  کہ میں ان کی سوانح عمری کے متعلق کچھ رقم کروں، البتہ  اپنی مختصر ترین زندگی میں ان کی خدمت میں گزارے ہوئے کچھ خوشگوار  لمحوں کے ذکر کی جرات کر رہا ہوں۔
       ابھی کچھ ہی مہینے قبل کی بات ہے،میں جامعہ کی چہار دیواری میں ٹہل رہاہوں، کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی،حکم ہوا کہ جلد ہی کاشانۂ اقبال میں حاضر ہو جاؤ،اور حدیث کی مجلس میں شریک ہوجاؤ،ساتھی عبدالرافع بھی مدعو کئے گئے، لیکن وہ کہیں نظر نہ آئے، خیر! کچھ انتظار کے بعد اکیلا ہی چل دیا، اور مجلس میں شریک ہوگیا،افتاء کے ساتھیوں سمیت استاذ محترم مولانا انصار صاحب ندوی بھی شریک ِمجلس تھے،حمد وثنا سے مجلس کا آغاز ہوا، ابتداء میں مولانا نے کچھ تمہیدی باتیں پیش کیں، کچھ ہی دیر میں "روایت اسودین" بسلسلہ سند کے سنانے لگے،پھر مسلسلات کے اصول پرچبائی ہوئی کھجور ہمارے سامنے پیش کی،اور عرض کرنے لگے کہ ان کے شیخ نے بھی انھیں اسی طریقہ  سےروایت سنائی تھی اور اس طرح یہ سلسلہ قرنِ اول تک جا پہنچتا ہے، اس کے فورا بعد آبِ زمزم  پیش کیا گیا،پہلے مولانا نے نوش فرمایا پھر ہمیں پینے کے لئے کہا گیا،اورمولانا کی  دعا پر مجلس برخاست ہوئی۔ مجھ جیسے طالبِ علم کے لئے  اس طرح کی  علمِ حدیث کی مجلس میں شرکت کا یہ پہلا موقع تھا، اس لئے  میں فرحت ومسرت سے سرشار درجہ میں ساتھیوں سے بتانے لگا،اور خوشی خوشی گھر لوٹا، البتہ میں نے والدماجدِ کو اس سے مطلع نہیں کیا تھا، مگر میرے مشفق استاذ مولانا انصار صاحب نے انھی اس کی خوشخبری سنائی تھی، اس لئے والد صاحب کی بھی خوشی کی انتہا نہ رہی، انھوں نے اپنے فرزند کے لئے اسے سرمایۂ حیات گردانا، مجھے فورا فون ملایا، خوشخبری سناتے ہوئے ، ڈھیروں دعائوں سے نوازا، اسے میرے مستقبل کے لئے نیک فال ثابت کیا، مولانا سے روابط مستقل رکھنے کی تلقین کی، ان کی مجالس کی اہمیت  بتلائی۔ جس کا شدت سے احساس مجھے اس وقت نہیں ہو سکا تھا مگر آج انتقال کی خبر کے ساتھ وہ لمحات میری زندگی کے انمٹ نقوش میں تبدیل ہو گئے  ہیں،  اللہ ہمیں اس کی قدر دانی اور شکر بجا آوری کی توفیق عطا فرمائے ۔
 بہر حال  ! دن کٹنے لگے، ہفتے گزر گئے، بلکہ  مہینے بیت گئے کہ پھر ایک بار ملاقات کی نوبت آئی اور ان کے وصال  نے اسے "آخری ملاقات " کہنے پر مجبور کردیا۔ اب آخری ملاقات کی  یہ مختصر روداد  بھی ملاحظہ فرمائیں ، اس وعدہ کے ساتھ کہ پھر کسی واقعہ میں آپ قارئین کو نہیں الجھاؤں گا۔
      ایک دن گھر  بیٹھا تھا کہ والد محترم مولانا سید ہاشم صاحب ندوی کا پیغام موصول ہوا کہ ان کے   کچھ علمی اور شہرِ بھٹکل کی تقافتی زندگی کے متلق کچھ  سوالات ہیں ، جنہیں قاضی شہر سے دریافت کرنے کا حکم ہوا،حکم کی تعمیل کا کئی مرتبہ ارادہ ہوا، لیکن ادھر شہر میں جاری لاک ڈاؤن کے اوقات میں تبدیلی تو کچھ مولانا سے وقت لینے میں میں مجبوری میں   ہر بار ارداہ ملتوی ہوتا رہا، بالآخر ملاقات کی گھڑی آہی گئی،  جومورخہ ۲۱ جون کی تھی،چلتے ہوئے ساتھی عبد الرافع بھی ساتھ ہو لئے، گھر میں قدم رکھتے ہی سلام ِمسنون کے بعد آنے کا سبب دریافت کیا، پھر فرمانے لگے کہ ابھی طبیعت کچھ ناساز سی ہے، لیکن  اس کے باوجود شاید والد محترم کی خاطر کچھ وقت دینے کے لئے تیار بھی ہوگئے، والد صاحب کے تمام سوالات کے جوابات بھی مل گے،مولانا موصوف نے  گفتگو کے دوران موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے خیالات ظاہر کرنے لگے، جن کا کچھ تعلق والد صاحب کے سوالات سے بھی تھا، باتوں باتوں میں نوجوانوں کی بے راہ روی کی داستان سنانے لگے، موبائل فون  اور اس کے مضرا اثرات گنانے لگے، اسی کے کچھ ہی دیر میں مجلس برخاست ہونے لگی، دعاؤں کی درخواست کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے باہر نکل آئے،گھر پہنچتے پہنچتے شام ڈھل چکی تھی، لیکن وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی زندگی کی بھی شام ہوچکی ہے اور اب بس کچھ ہی دنوں میں حکم الہی سے ڈھلنے کی کگار پر ہے۔
اب آپ میری آخری ملاقات کی  پوری کہانی سن چکے ہیں، جو ہماری عین خوش قسمتی تھی،جانے والا بے شک میں اور میرے ساتھی تھے، لیکن بھیجنے والے  والد محترم تھے جنھیں مولانا سے گہری عقیدت تھی، اور اس محبت و عقیدت کا احساس مجھے بھی اس وقت ہوا جب ان کی وفات کے بعد فون پر گفتگو کا موقع ملا،آواز سے ہی میں سمجھ چکا تھا کہ وہ بے حد غمگین ہیں، ان کی زبان ان کے الفاظ کو ادا نہیں کر پا رہی ہے، پھر جب بات کرنے کی تاب نہ لاتے ہوئے فون کاٹ دیا تو میرا دل بھی پسیج گیا،اور اپنی کوتاہی کا احساس  بھی ہوا کہ مجھے والد صاحب کے کہنے اور بار بار متوجہ کرنے کے باوجود جس طرح مولانا سے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا، نہیں اٹھا سکا ۔
جیتے جی ہم نے نہ جانی قدر ان کی اے علی     اپنی  اس تقصیر پر ہم کس قدر رویا کئے         
  الغرض والد محترم کی ان سے تعلقات کی  نسبت سے میرارابطہ مولانا سے ہوپایا اور دادا جان  سید نظام الدین صاحب  دامت برکاتہم  کی وجہ سے والد محترم ان سے جڑے تھے۔ کیونکہ جب میں نے دادائے محترم کو ان کے وصال کی خبر دی تو اکثر موقعوں پر خاموش رہنے والے اور کم بولنے والے  دادائے بزرگوار بھی کہہ اٹھے کہ "کہ وہ ہمارے بے حد  خاص اور محسن و مربی  تھے".
     اب بجز دعائے رحمت ومغفرت کے کوئی چارہ کار بھی نہیں، لہذا آئیے ہم اور آپ روزانہ تمام مرحومین کے لئے اور بالخصوص مولانا کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کریں. اللہم اغفر لہ وارحمہ واسکنہ فسیح جناتک ۔ آمین یا رب العالمین.

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے