ایک عالم بے مثال کا فراق

از:  فیصل احمد ندوی 
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو 

آج(بروز بدھ 23ذو القعدہ 1441ھ مطابق 15جولائی 2020 ء سہ پہر کو میں آن لائن حدیث کی ایک مجلس کی سماعت کر رہا تھا کہ گھر کے گروپ پر انا للہ کا میسیج آیا،دل دہک سا ہو گیا،اس لئے کہ دو گھنٹے پہلے بھٹکل سے ایک معتبر عالم  دین نے فون کر کے اطلاع دی تھی کہ مولانا اقبال صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے،ڈاکٹروں نے کوئی امید نہیں دلائی ہے،کسی بھی وقت خبر آسکتی ہے،حضرت مولانا محمد رابع صاحب سے دعاکی درخواست کریں۔سینے پر ہاتھ رکھ کر میسیج کھولا تو ایک اطمینان کی سانس لی،لیکن وہ بھی ایک غم انگیز خبر تھی کہ مولانا عبد العزیز خلیفہ ندوی(نائب مہتم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو)کے بڑے بھائی جناب عبد الوہاب خلیفہ صاحب کا بحرین میں انتقال ہوگیا ہے،لیکن دوسرے لمحہ ہی خبر آئی کہ مولانا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔کئی دن سے کھٹکا لگا ہوا تھا،مگر دو دن پہلے کچھ سکون ملا جب معلوم ہوا کہ مولانارو بہ صحت ہو رہے ہیں۔آج دوپہر کو جب پتا چلا کہ مولاناکی طبیعت بہت نا ساز ہے،اس میں بھی اطمینان کی بات یہ تھی کہ مولانا کی کورونا رپورٹ نگیٹیو آئی ہے،اس لیے دل کو بہلاتے رہے کہ ان شاء اللہ مولانا اور سالہا سال اپنی روشنیاں بکھیرتے رہیں گے،لیکن تقدیر کی کس کو خبر ہوتی ہے۔اور یہی مؤمن کی شان ہے کہ ایسے صبر آزما اور جاں گسل موقعوں پر بھی وہ صبر و رضا کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

مولانا سے میری واقفیت سن شعور سے پہلے کی ہے۔میں نے مدرسہ تحفیظ القرآن بھٹکل میں حفظ قرآن کی تکمیل کی سعادت حاصل کی،جس کے وہ مؤسسین میں تھے۔یہ مدرسہ اس وقت فاروقی مسجد سے متصل مسجد کی مملوکہ عمارت میں واقع تھا، اور مولانا اس مسجد کے امام تھے،
 اورمولانا کا مکان بھی چند قدم کے فاصلے ہی پر تھا،اور ان کی کئی بچیاں مدرسے میں زیر تعلیم تھیں۔ان اسباب و وجوہ کی بناپر کثرت سے مدرسے میں مولانا کی آمد رفت ہوتی تھی۔مولانا تشریف لاتے،جائزہ لیتے، حالا ت معلوم کرتے تھے،اور نصیحتیں کرتے۔ہم ان کی باوقار اور پر بہار شخصیت  کے دیدارسے شاد کام اور ان کی عالمانہ شان سے متاثر ہوتے۔مختلف اسبا ب سے بار بار ان کے گھر آنا جانا تھا، پھر یہ کہ وہ ہمارے والد مرحوم کے اسکول کے ساتھی تھے،ایک ساتھ دونوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔غرض،مولانا ہم کو بہت عزیز رکھتے تھے،اور نہایت شفقت و محبت اور اپنائیت کا معاملہ کرتے تھے۔
تکمیل حفظ کے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں میراداخلہ ہوا۔پہلے سال عربی اول کے سالانہ امتحان کے نتائج کا  جب اعلان ہوا تو بفضلہ تعالی میرے نمبر پورے جامعہ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ تھے۔مولانا جلسے میں موجود تھے۔ جب یہ بات مولانا نے سنی تو خوشی سے پھولے
 نہیں سمائے۔اور اپنی تقریر میں فخریہ اس کا اظہار کیا کہ یہ ہمارا بچہ ہے، ہمارے مدرسہ تحفیظ القرآن سے پڑھ کر آیا ہے،اس کے علاوہ اور بھی موقعوں پر میری کسی ترقی پر خوشی کا اظہار اسی اپنائیت سے کرتے تھے۔
پانچ ماہ قبل جب میں پاؤں کے آپریشن کی وجہ چلنے پھرنے سے معذور اور بھٹکل میں اپنے گھر مقیم تھا تو مولانا کئی دفعہ عیادت کے لیے تشریف لائے،مجھے مکتبہ شاملہ(نیو ورژن)کی ضرورت تھی (اس میں ہر کتاب موافق للمطبوع ہے)میرے کمپیوٹر سے کسی غلطی کی وجہ سے یہ مکتبہ شاملہ ڈلیٹ ہوگیا تھا۔ہمارے کرما فرما مولانا عبد ا لمتین منیری صاحب کے ذریعے معلوم ہو اکہ مولانامحمد اقبال ملا ندوی کے پاس یہ ورژن موجود ہے۔مولانا سے ہم نے رابطہ کیا اور اپنے ایک عزیز کو مولانا سے لے کر کاپی کرنے کے لیے کہا،وہ بروقت یہ کام نہیں کر سکے تو دوسرے ہی دن مولانا خود ایک ہارڈ ڈسک لے کر غریب خانے تشریف لائے، اس میں مکتبہ شاملہ کے نیو ورژن کے علاوہ انسائیکلو پیڈیا آف
 برٹا نیکا اور بہت سی مفید چیزیں تھیں۔ہم نے کہا :ہمارا کمپیوٹرلکھنؤ میں ہے،ہارڈسک کیسے واپس کریں؟فرمایا،یہ تمھارے لیے ہے،واپس کرنے  کی ضرورت نہیں ہے۔یہ مولانا کا ایک قیمتی علمی ہدیہ تھا۔کون جانتا تھا  کہ یہ خو ش گوار ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوگی!
اس سے مولانا کی خوش اخلاقی،تواضع،شفقت اور اپنائیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 
 مولانا ایک بارعب،باوقار،خود دار اور بالغ نظر عالم،ایک دور رس اور دور اندیش مربی،ایک وسیع النظر اور ماہر فقیہ،اور ایک بے باک اور مخلص داعی تھے۔ان کا مطالعہ بہت وسیع اور ان کی نظر بہت گہری تھی۔علم ہئیت اور فلکیات کا ایسا ماہر نہ ہم نے ان کی طرح کسی کو دیکھا،نہ موجودہ دور کے ہندو پاک کے ماہرین فلکیات کی باتیں پڑھ کر وہ تاثرپیدا ہوسکا جو مولانا کے بارے میں تجربے سے قائم ہوا۔ساتھ ساتھ مولانا صلاح و تقوی کے بھی اعلی مقام پر فائز تھے۔وہ کم سے کم بھٹکل و اطراف کے معاشرے کے لیے نہر درخشاں اور نیر تاباں کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کی سانحہ وفات سے ہر سو ہولناک ظلمتوں کی  چادر تنی ہوءی نظر آرہی ہے ۔اللہ ہی رحم فرماءے۔
یہ ایک مختصر تاثراتی تحریر ہے، اس میں مزید تفصیل کی گنجایش نہیں۔ان شاء اللہ عنقریب ان کی خصوصیات اور کمالات پر ایک مضمون سپرد قلم کریں گے۔

مولانا ایک ندوی عالم کی سچی مثال تھے، علومِ شرعیہ میں پورے ماہر اور جدید علوم سے پورے طور پر واقف تھے، عالم اسلام کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے اور واقعات سے نتائج کے استخراج کی بھر پور صلاحیت رکھنے والے تھے۔ الجمع بین القدیم الصالح والجدید النافع جو ندوۃ العلماء کا شعار ہے، خلاصہ یہ ہے کہ وہ اس کی پوری اور مکمل تصویر تھے۔ 

مولانا کچھ اس طرح داغِ مفارقت دے گئے کہ گویا شاعر نے اسی موقع کے لئے کہا تھا 

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی     اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا 
 

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے