حالات سے نا امید نہ ہوں (موجودہ حالات میں سوچنے کی بات )

تحریر۔ سید احمد ایاد ہاشم ندوی

کورونا وباء کے لاک ڈاؤن کے باعث  جہاں بہت سے لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں، وہیں کسی  کی تجارت ٹھپ پڑگئی تو کسی کی تنخواہ متاثر ہوئی ہے۔ 
الغرض ہر انسان کسی نہ کسی درجہ میں  پریشان ضرور ہے، اور اکثر لوگوں  کے ذہن و دماغ پر ایک ہی جملہ  سوار ہے کہ اس بیماری کے پیچھے کوئی بڑا کھیل کھیلا جارہا ہے،کوئی بالکل مجبور ہوکر یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا کی معاشی اعتبار سے ایسی صورتحال پچھلے 25 سالوں میں کبھی نہیں ہوئی تو کوئی مایوسی کے عالم میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس صورتِ حال سے نکلنا آسان نہیں بلکہ کچھ وشوار ہی ہے۔
لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے اعمال کو دیکھا کہ میریکس عمل کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ میرے کس گناہ کی سزا مجھے مل رہی ہے؟ میرا رب میرے کس عمل پر مجھ سے ناراض ہے؟ 
اور کیا کبھی دو رکعت نفل نماز پڑھ کر اللہ سے اس بیماری کو اٹھانے کی دعا کی ہے؟۔ 
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ زمانہ خراب ہے۔ 
کیا واقعی زمانہ خراب ہے؟ 
زمانے کا مطلب ہم بھی شامل ہوگئے اس زمانے میں لیکن کیا اس طرف کبھی ہماری نظر گئی ہے۔ 
ہماری رب حضوری کو آخر کس چیز نے چھین لیا ہے؟
صبح اٹھنے سے پہلے ہی ہمیں جو موبائل ڈیتا اوپن کرنے کی عادت ہوگئی شاہد اس نے؟ یادیکھنے کی یہ سوچ آخر کہاں گئی؟
دنیا میں جب جب بھی وباء آئی لوگوں نے اسکو اللہ کا عذاب سمجھا اور اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیارکرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع ہوکر استغفار کیا۔ لیکن اس صدی میں جو وباء کووڈ 19 کے نام سے عام ہے اور روزانہ سینکڑوں نہیں لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہورہے، اور ہزاروں لوگ اس کے لپیٹ میں آکر زندگی کی بازی ہارے جارہے ہیں،لیکن ان  سب کے باوجود ہم اسے اللہ کا عذاب تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں!
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے۔
کیا یہ حالات بہتر ہوں گے یا ابتر؟
نظام قدرت ہے کہ رات جب پوری تاریک ہوجاتی ہے تب سپیدۂ صبح نمودار ہوتی ہے! اور خدائی قانون بھی ہے کہ (إن مع العسر يسرا)  یقینا تنگی کے بعد خوش حالی ضرور ہے۔ 
اس لئے مایوسی کو ختم کریں اور ایک عزم و حوصلہ کے ساتھ زندہ رہیں، میں صبح لکھ رہا ہوں اچانک چڑیوں کی چوں چوں کی آواز اور کووں کی کائے کائے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں تو عقل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا کوئی بھی کوا اور چڑیا بھوک سے کبھی مرے ہے کیا؟ کیا کبھی آپ نیآزاد اڑنے والے کوے کو کبھی پیاسا دیکھا ہے؟ 
صبح سویرے اپنے گھونسلے سے جب وہ نکلتے ہیں تو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور جب شام کے وقت گھر لوٹتے ہیں تو بھرے پیٹ ہوتے ہیں۔ 
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ: اگر تم خدا پر اس طرح توکل کرو جس طرح کرنے کا حق ہے تو وہ تمھیں اس طرح کھلائے گا جس طرح پرندوں کو کھلاتا ہے،وہ صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ لوٹتے ہیں(ترمذی) 
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر توکل نہیں کرنا بلکہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے توکل کرنا ہے۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

13جولائی 2020(ادارہ فکروخبر)
 

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے