مفاد قوم کی خاطر سیاست بھی عبادت ہے

 

تجارت،تعلیم،صحت و صفائی کے بعد پیش ہے پالٹیکل ایمپاور منٹ کے لیے لائحہ عمل

کلیم الحفیظ

سیاست کا موضوع ہمارے درمیان سب سے زیادہ مختلف فیہ ہے۔کوئی اسے شجر ممنوعہ سمجھتاہے کہ اس کی طرف دیکھنے سے بھی جنت حرام ہوجائے گی۔کوئی خود توخوب سیاست کرتا ہے لیکن کسی اور کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں دیتا،کوئی اسے دین کا لازمی حصہ سمجھتا ہے وغیرہ۔مگر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔جمہوری نظام میں سیاست سے کنارہ کشی خود کشی کے مترادف ہے۔سیاست دین کا حصہ ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ تو اہل دین ہی کریں گے مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی اللہ کے اقتدار کو قائم کرنے کی جدو جہد میں لگے رہے۔کفار مکہ نماز،روزے،ذکر و تسبیح کے مخالف نہ تھے وہ تو یہاں تک آمادہ تھے کہ کعبہ میں نعوذ باللہ محمد ﷺ کے خدا کا بت بھی رکھا جاسکتا ہے۔لیکن نظام حکومت چلانے والے اس بات پر تیار نہ تھے کہ ان کے اپنے نظام کی جگہ خدا کا نظام آئے۔مکہ سے طائف تک اور بدرو احد سے فتح مکہ تک کی جدوجہد محض نماز، روزے کے قیام کے لیے نہ تھی۔بلکہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے لیے تھی۔

سیاسی لائحہ عمل کے ضمن میں سب سے پہلی ضرورت یہی ہے کہ ہم جمہوری نظام کی اہمیت اور اس سے فائدہ اٹھانے کے طور طریقوں سے واقف ہوں۔جمہوریت میں سب کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے،ہمارے ملک کی جمہوریت دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے۔یہاں کے آئین میں جمہوری روح کی حفاظت کے لیے سخت قوانین درج ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ باشندگان ملک اپنے جمہوری حقوق سے واقف ہوں اور ان کا تحفظ کریں۔ہندوستانی جمہوریت میں لوکل باڈیز تک کے نمائندوں کو بہت سے اختیارات حاصل ہیں۔راقم اس سے قبل تجارت،تعلیم اور صحت و صفائی پر قابل عمل نکات پر مشتمل لائحہ عمل پیش کرچکا ہے۔زیر نظر مضمون میں سیاسی طور پر طاقت ور ہونے یعنی پالیٹکل ایمپاورمنٹ کے لیے چند معروضات پیش خدمت ہیں۔ 
سیاسی شعور کو بیدار کرنے،ووٹ بنوانے،ووٹ ڈلوانے،علاقے کی ضرورت اور ایشوز طے کرنے کے لیے مناسب ہوگا کہ شہر اور بستی کی سطح پر با شعور افراد پر مشتمل ایک کمیٹی ”کمیٹی فار پالٹیکل ایمپاور منٹ“بنالی جائے جس میں ہر وارڈ کی نمائندگی ہو۔یہ افراد یشوز طے کریں،ان کو منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کریں۔ان کو بار بار متوجہ کریں۔الیکشن سے پہلے ان ایشوز کو مینو فیسٹو میں شامل کرائیں،الیکشن کے بعد مینو فیسٹو پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے رہیں۔یہ کمیٹی ووٹر لسٹوں پر گہری نظر رکھے،آج کل فرقہ پرست طاقتیں ووٹر لسٹوں سے نام غائب کرانے میں ماہر ہیں۔اس لیے یہ کام بہت ضروری ہے کہ آپ کا نام ووٹر لسٹ میں ہو اور صحیح ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے آئین کے مطابق اپنے فرائض کو ادا کریں اور کرپشن سے خود کو پاک رکھیں۔لیکن مطالعہ بتاتا ہے کہ گرام پنچایت سے لے کرپارلیمنٹ تک جہاں بیس بیس سال سے متواتر مسلم نمائندے منتخب ہوکر براجمان ہیں ان کے حلقہ انتخاب میں ذمہ داریاں ادا نہ کرنے کی وجہ سے کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوئی،جو تبدیلیاں ہیں وہ معمول کا حصہ ہیں۔(پورے ملک میں ایک دو حلقوں میں تبدیلی سے انکار نہیں کیا جاسکتا)اس کے برعکس ہماری سیاسی قیادت جس اخلاق اور کردار کا مظاہرہ کرتی ہے وہ کسی مہذب سماج میں گوارہ تک نہیں کیا جا سکتا۔الیکشن جیتنے کے بعد غنڈوں اور موالیوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔پولس چوکی سے گناہ گاروں کو چھڑوانے کاکام کیا جاتا ہے۔عوام بھی انہیں کاموں سے خوش رہتی ہے۔لیڈر بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کام زیادہ سے زیادہ نالیوں کی مرمت،سڑکوں کی تعمیر،راشن کی تقسیم کی حد تک ہے۔سماج کی تعلیم، صحت کے مراکز کی تعمیر،نوجوانوں کے لیے روزگار،جرائم پر کنٹرول،وغیرہ کام اس کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ سرکاری اسکیموں کے نفاذکی بات تو دور بیش تراسکیموں سے ہمارے منتخب نمائندے ناواقف ہیں۔اس کے آگے کی بات تو سوچی بھی نہیں جاسکتی کہ سماج کی ضروریات کو سامنے رکھ کر کوئی منصوبہ بندی کی جائے اور اس منصوبے کے مطابق سرکارکے سامنے پروجیکٹ پیش کیے جائیں۔حالانکہ یہ نمائندے کسی تعلیم یافتہ نوجوان کو صرف اسی کام پر رکھ لیں جو ان کو ان کے حلقے کی ضروریات اور سرکاری اسکیموں سے واقف کراتا رہے تو بڑی آسانی سے بہت سے کام انجام دیے جا سکتے ہیں۔

تیسرا کام سیاسی قیادت کو ڈیولپ کرنے کا ہے۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں میں قائد نہیں ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں قائدین کی کثرت ہے۔آپ مسلم پرسنل لا ء بورڈکے ممبران کی فہرست پر نظر ڈالیے تو آپ دیکھیں گے کہ ہر ممبر کسی انجمن، کسی ٹرسٹ،کسی جماعت،کسی مسلک اور کسی بڑے مدرسہ کا قائد ہے۔مسلم مجلس مشاورت جس کا قیام ہی مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی ایشوز کے لیے کیاگیا تھا درجنوں جماعتوں کا سنگٹھن ہے۔ہمارا مسئلہ قائد کا نہیں بلکہ کسی ایک فرد کی قیادت پر اتفاق نہ کرنے کاہے۔کہیں فقہی اور مسلکی اختلافات،کہیں سیاسی اختلافات،اور کہیں ذاتی انا ہمیں کسی کو قائد ماننے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔اس ضمن میں ہمیں مذہبی قیادت اور سیاسی قیادت کو الگ الگ کرنا چاہئے۔اس لیے کہ مذہبی اعتبار سے جس مسلکی اختلافات کا
ہم شکار ہیں وہ کسی مذہبی قیادت کو ہی سیاسی قیادت تسلیم کرنے میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔ ہمیں ہر حلقہ انتخاب کے لیے اپنی قیادت کو ڈیولپ کرنا ہوگا۔میں سمجھتا ہوں کہ نئی نسل جو جدید تعلیم یافتہ بھی ہے وہ مسلکی اختلافات سے گھبرا چکی ہے اور چاہتی ہے کہ کوئی مخلص فرد آگے آئے جو ان کی قیادت کرسکے۔

چوتھا کام یہ ہے کہ جمہوری نظام میں کوئی بھی اقلیت اپنے دم پر کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔اس لیے برادران وطن کی وہ قیادت جو خود فاشزم کے خلاف ہے اور جس نے کمزوررہ کر ہزاروں سال ظلم برداشت کیا ہے اس کو اپنے ساتھ ملایا جائے،مظلوم،دلت اور پسماندہ طبقات کو یہ باور کرایا جائے کہ فاشزم ان کے لیے خطرہ ہے۔ان کو فاشزم کی تاریخ اور نتائج سے واقف کرایا جائے۔برادارن وطن میں انصاف پسندوں کی خاطر خواہ تعداد موجودہے۔ہمیں حکمت اور محبت کے ساتھ ان کا تعاون حاصل کرنا چاہئے۔

پانچواں کام یہ ہے کہ مسلمان جس پارٹی میں رہیں مسلمان کی حیثیت میں رہیں۔وہ جب اسلام کو چھوڑ دیتے ہیں تب ملت کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں،اس صورت حال میں مختار عباس،شاہ نواز اور راجناتھ اور امت شاہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں کہیں نہ کہیں مسلمانوں نے ہی لیڈر بنایا ہے۔ہمیں کرسی مل جانے کے بعد مسلمانوں کے مسائل سے منھ نہیں پھیرنا چاہئے۔ہمیں اپنی سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم پر ملی ایشوز کو پوری قوت کے ساتھ اٹھانا چاہئے۔اس سلسلے میں ملک میں دوسری اقلیتوں سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔مسلم نمائندے ضرورت سے زیادہ سیکولرزم اور پارٹی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اگر ہمارے نمائندے ہی ہماری آواز بلند نہیں کریں گے توقوم کے ایشوز جمہوری اداروں میں کون اٹھا ئے گا؟
میں اس موقع پر کسی مسلم سیاسی پارٹی کی تشکیل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔کیوں کہ یہ لائحہ عمل میں نے مقامی سطح پر کام کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ملکی یا ریاستی سطح پرکسی پارٹی کی تشکیل یا موجودہ پارٹیوں میں سے کسی کی حمایت کا فیصلہ ملت کے اجتماعی ادارے کریں گے۔البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ جہاں ممکن ہو وہاں اپنی لیڈر شپ کو مضبوط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔کچھ احباب مسلم لیڈر شپ کی بات کرنے کو فرقہ پرستی کا نام دیتے ہیں۔میرے نزدیک یہ فرقہ پرستی نہیں ہے۔اس لیے کہ جب دلت،یادو،جاٹ،اور سکھ اپنی پارٹی،اپنے ایشوز اور اپنی قوم کے مفاد کی بات کرسکتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں کرسکتے۔

آخری بات اپنے ان حباب سے کہنا چاہتا ہوں جو الیکشن میں حصہ لیتے ہیں یا لینا چاہتے ہیں۔وہ اسی وقت الیکشن اور سیاست میں قدم رکھیں جب ان کے پاس قوم اور ملک کے لیے کوئی وڑن اور منصوبہ ہو،ورنہ دوسروں کی ٹانگ کھینچنے،یا اپنی ناک اونچی کرنے کی خاطر پیسہ برباد نہ کریں۔عام طورپرخدمت  کے نام پر ایک ایک سیٹ پر کئی کئی مسلمان کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض جانتے ہیں کہ وہ ہار جائیں گے مگر اپنی انا کی تسکین کے لیے انتخابی میدان میں کود پڑتے ہیں۔بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں،مسلم ووٹرس کنفیوز ہوجاتے ہیں اور بعض مقامات پر جہاں سے یقینی طور پر اپنے نمائندے کو جیتنا چاہئے تھا وہ ہارجاتا ہے

۔میرے بھائیو: ملک اور قوم کی خدمت اورشہرت حاصل کرنے کے اور بھی راستے ہیں،آپ اگر شہر کے چیرمیں نہیں بن سکتے تو کالج قائم کیجیے اور اس کے چیرمین بنئے،آپ اسپتال بنائیے اور اس کے ڈائرکٹر کہلائیے۔یاد رکھیے معیاری اسکول اوراچھے اسپتال کے مالکوں کو شہر کا چیرمین اور حلقہ کا ایم ایل اے، ایم پی بھی سلام کرتا ہے۔

اگر مطلوب ہو دنیا تو سجدہ بھی سیاست ہے
مفاد قوم کی خاطر سیاست بھی عبادت ہے
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے) 
29جون2020(ادارہ فکروخبر)

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے