مسلمانوں کی نفسیات اورموجودہ حالت کی وجوہات ذمہ دار کون؟؟

 

از۔محمدقمرانجم قادری فیضی

جب تک انسان ذہنی طور پر آزاد ہوتا ہے تب تک اسے غلام نہیں بنایا جاسکتا، ایک آزاد ذہن والے انسان کو قیدی تو بنایا جاسکتا ہے مگر غلام نہیں،انسان جسمانی طور پر غلام تب بنتا ہے جب وہ ذہنی طور پر غلام بن جائے، اس لیئے اگر کوئی ہم پر حملہ آور ہوکر ہمیں باندھ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس نے ہمیں غلام بنالیا۔ جنگی قیدی اور غلام میں فرق ہوتا ہے۔اس لیئے اپنے ذہن آزاد رکھیں، قید قدرت کے قانون کا،حصہ ہے مگر غلامی کا انتخاب انسان خود کرتا ہے۔

مسلمانوں کی نفسیات اور موجودہ حالت کی وجوہات اور ذمہ دار کون ؟؟؟نظریاتی اور فکری لحاظ سے بے اختیار یا غلام قوم صنعتی ترقی نہیں کرسکتی، 

نظریاتی اور فکری آزادی اور معاشی ترقی کا آپس میں بہت بڑا گہرا تعلق ہے ۔جب ایک قوم نظریاتی اور فکری طور پر آزاد ہوگی تو اس قوم میں سیاسی شعورپیدا ہوگا اور جس قوم میں سیاسی شعور ہوگا وہ قوم منظم اور متحد ہوگی اور وہ قوم اپنے وسائل، اپنے اختیارات، اپنے جعرافیئے اور معاشی اور قومی اقتصاد اصولوں سے واقف ہوگی، جب ایک قوم اپنے وسائل، جعرافیئے کی اہمیت، اختیارات اور قومی معاشی اور اقتصادی اصولوں سے واقف ہوگی اور متحدہوگی تو وہ قوم اپنے جعرافیئے کے اندر موجود اپنے تمام وسائل کو اپنے اختیار میں لےگی، اور ان تمام وسائل کو پہلے خود پر خرچ کرےگی ان سے اپنی ضرورت پوری کرےگی. اس کے بعد جو اضافی وسائل بچیں گے انہیں دیگر اقوام کے ہاتھوں بیچ کر اپنی معیشت مزید بہتر کرےگی یہ قومی معاشی اور اقتصادی اصول ہیں، یہی ایک گھر کے بھی اصول ہوتے ہیں اسی اصول و طریقے کے تحت گھر اور اقوام ذندہ رہتی ہیں، ترقی کرتی ہیں، 

بھتہ خورسے سب نفرت کرتے ہیں کیوں ؟؟؟

کیونکہ بھتہ خور آپ کی کمائی میں سے آپ سے زبردستی آدھا حصہ لیکر چلا جاتا ہے اور آپ کو اپنی پوری کمائی کا آدھا حصہ ملتا ہے، سامراجیت بھی ایک قسم کا بھتہ خور ہی ہوتا ہے جو آپ کے جعرافیئے پر قبضہ کرکے آپ کے وسائل لوٹ کے لےجاتا ہے اور آپ اپنے وسائل کے ہوتے ہوئےبھی ان وسائل کو ترستے ہیں۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ عام بھتہ خور چونکہ ذبردستی کرتا ہے اس لیئے وہ سب کو نظر آجاتا ہے اور سب لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں جبکہ سامراج قوم کی نظریات اور افکار کو ختم کرکے قوم کو اندھا، گونگا اور بہرا بنادیتاہے اور یوں سامراج کی بھتہ خوری قوم کو نظر نہیں آتی، 

جس قوم کی اپنی نظریات اور اپنے افکار اور اپنی پہچان باقی نہیں رہتی اس قوم میں سیاسی شعور ختم ہوجاتا ہے، جس قوم میں سیاسی شعور نہیں ہوگا اس قوم میں اجتماعی شعور نہیں ہوگا، جس قوم میں اجتماعی شعور نہیں ہوگا وہ تقسیم اور منتشر ہوگی، جو قوم تقسیم اور منتشر ہوگی اور نظریاتی اور فکری طور پر خالی ہوگی وہ قوم سامراجی نظریات اور افکار کی محتاج ہوگی اور انہیں اپنائےگی، جو قوم سامراجی نظریات اور افکار کو اپنائےگی وہ قوم سامراجی کی غلامی میں چلی جاتی ہے اور غلام کچھ نہیں کرپاتے،اور اسی لیئے اس سامراج نے انکی نظریات اور افکار اور پہچان اور تاریخ کو گمنام اور بدنام کردیا، مسلمانوں کی سیاست اور تنظیم ختم کرکے مسلمانوں  کو منتشر اور تقسیم کردیا اور پھر نصاب تعلیم میڈیا اور ہر فورم کے ذریعے مسلمانوں  کے ذہنوں وفکر میں اپنی نظریات گھسا کر مسلمانوں کو اپنا غلام اور محتاج بنانے کی کوششیں جاری وساری ہیں اور یوں ہی سامراج مسلمانوں کے وسائل پر قابض ہونے کی لگاتار سعئی لاحاصل کرتا رہےہندوستان مسلمانوں کا سب سے ذیادہ تعلیم یافتہ ملک ہے مگر یہاں کے وسائل پر سامراج باآسانی قابض ہورہی ہے ۔۔کیسے ؟

کیونکہ ہندوستان  کے لوگوں نے ا، ب، پ اور A

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے