حلال وحرام اور ہمارا معاشرہ!

 

 

محمد ندیم الدین قاسمی

 

 

اسلام نے جہاں ہمیں "حلال "کی اہمیت بتائی تو وہیں "حرام" سے بچنے کی سختی سے تاکید بھی فرمائی؛ اسی لئے آپﷺ نے فرمایااِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ‘ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّ طَیِّبًا‘ (اللہ پاک ہے اور پاک وحلال چیزوں کو ہی پسند کرتاہے،)کیوں کہ "حرام" خدا کی ناراضگی، معاشرہ کے بگاڑ، لذتِ ایمانی کے سلب ہوجانےاورحمت خداوندی سے دور ہوجانے کا ذریعہ ہے تو وہیں "حلال "رب کی رضا، معاشرہ میں امن کی بحالی ،اور نورِ ایمانی کے بقا کا ضامن بھی ہے،لیکن ہمارا المیہ یہ ہےکہ ہم نے "حرام "کی اصطلاح کا صرف ایک رخ متعین کرلیا اسے روزی اور مال کی حد تک محدود کردیا حالانکہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی" حرمت" سود ورشوت سے زیادہ نہیں تو کم از کم ان کے برابر ضرور ہے، دنیا دار سے لے کر دین دار تک ہر ایک طبقہ اپنے اپنے میدان میں ان میں مبتلا ہیں، ان کی مجالس اور نجی محفلیں ان افعالِ حرام سے پر ہیں بلکہ بہتیرے تو حلال کا لیبل چسپاں کرکے بے دھڑک ان کے مرتکب بھی ہیں ،چنانچہ آج ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لے لیں تو پتہ چلے گا کہ خنزیر وسود سے تو حد درجہ نفرت ہے مگردھوکہ دہی ،ملاوٹ، لوٹ کھسوٹ، کسی کا ناحق مال دبانا، جھوٹ سے ناقص مال بیچنا، رشوت، وغیبت ،یتیم کا مال کھانا،اپنے طاقت کے دم پہ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ، قرضے کی واپسی میں ٹال مٹول، صارفین کو دِل فریب تجارتی اسکیموں کے ذریعے دامِ فریب میں پھنسانا، محکمانہ دفاتر میں تاخیری حربے،نظماء و متولیین کا مدرسین ، ائمہ ومؤذنین کے ساتھ حاکمانہ و ظالمانہ رویہ اورجواو سٹّے کی گرم بازاری، غبن اور قرضوں کی خُرد بُرد، عوام کی ضرورت کے وقت ذخیرہ اندوزی، صنعتی وتجارتی اجارہ داریاں اور قیمتوں پر ظالمانہ کنٹرول، اِسی طرح جاگیرداروں کا مزارعین کی مکمل معاشی زندگی پر سفاکانہ کنٹرول، مردوں کا بیویوں پر ظلم ان کی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ، بےجا طلاق، عورتوں و مردوں کا بے محابا اختلاط، شوشل میڈیا پر نامحرم عورتوں سے ناجائز تعلقات، مزدوروں کا استحصال، ملازموں کے ساتھ ناروا رویہ ،اساتذہ کا طلبہ کے ساتھ،اکابر کا اصاغر کے ساتھ وحشیانہ ومطلب پرستانہ سلوک ، اصاغر کی اکابر پر بے جا تنقید ، صاحب عہدہ کا حسد کی بناء پر انتقامی جذبہ، کسی کی ترقی میں رکاوٹ کی کوششیں ،طلبہ کی اساتذہ کے ساتھ بڑھتی بدسلوکی ، وراثت کی تقسیم میں بلاوجہ تاخیر، بھائیوں کا بہنوں کو وراثت سے محروم کرنا،والدین کی نافرمانی ،اور بچوں کی تربیت سے غفلت۔۔ ۔۔ کیا یہ تمام برائیاں اکلِ حرام کے برابر نہیں ؟ کیا ان پر جہنم کی وعیدیں نہیں ؟ کیا یہ معاشرہ کے بگاڑ اور اللہ کی ناراضگی کا سبب نہیں؟کیا ان کا مرتکب "سود ورشوت "میں مبتلا شخص کے برابر نہیں ؟ ہاں ہے! ضرور ہے!کیوں کہ اللہ تعالی نے ناپ تول میں کمی کرنے کے بارے میں فرمایا "ویل للمطففین"(ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے بربادی ہے)اور آپ ﷺ نے فرمایا "إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا الخ، (صحيح مسلم (4/ 1997) ترجمہ:میری امت کا مفلس وہ ہے جو دنیا میں تو نماز وزکوۃ کا پابند تھا مگر اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال بھی دبایا ہوگا،کسی کا ناحق خون کیاہوگا،توحقدار اپنا حق وصول کرلیں گے پھر جہنم میں اسے پھینک دیا جائےگا۔۔۔

ایک حدیث میں آپ ﷺنے ارشاد دھوکہ دہی کے متعلق فرمایا ،’’جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (ترمذی ج۱ ص ۲۴۵) 

اور ایک حدیث میں زمین پر ناجائز قبضہ کرنے کو سخت وعید سنائی ،"من ظلم من الأرض شيئاً طوقه من سبع أرضين "(بخاری شریف کتاب المظالم ۲۴۵۲)ترجمہ:جس نے زمین میں سے کچھ بھی ظلم کیا اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنا دے گا"

ایک حدیث میں آپﷺ نے مزدورں کی مزدوری میں تاخیرکے متعلق فرمایا:تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں میں‌خود مدعی بنوں گا۔ ان میں ایک وہ شخص ہے جس نے کسی کو مزدور کیاپھر کام تو اس سے پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔

(حدیث نمبر 2270 کتاب الاجارہ۔صحیح بخاری۔)

اور ایک حدیث میں آپ ﷺ نے وراثت سے محروم کرنے والے کے بارے میں فرمایا «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".  (مشکوۃ المصابیح1/266، باب الوصایا)ترجمہ:جو اپنے وارث کو وراثت سے محروم کردے تو قیامت اللہ تعالی اسے جنت سے محروم کردیں گے۔۔۔

الغرض ان کے علاوہ بے شمار احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حرام کا صرف ایک ہی رخ نہیں ،بلکہ اس کا دوسرا رخ بھی ہے جس سے دن بہ دن عوام کی بلکہ خواص کی بھی غفلت بڑھتی جارہی ہے ، جب کہ ہمیں جتنی نفرت خنزیر اور سود سے ہے اس سے کہیں زیادہ ان افعال حرام سے ہونا بھی ضروری ہے تب ہی ہم مومن کامل بنیں گے ورنہ نہیں۔۔۔ اللہ ہمیں ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین ۔۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

27جون2020(ادارہ فکروخبر)

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے