کرونا اور لاک ڈاؤن کی زد میں ملک کا مزدور

تحریر:جاوید اختر بھارتی

عجیب حال ہے آج ہمارے وطن عزیز کا ایک طرف بجلی، پانی، سڑک اور روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اور دوسری جانب غور کیا جائے تو ملک میں بے شمار لوگ ان سہولیات سے محروم نظر آتے ہیں جبکہ مذکورہ چیزوں کی تکمیل کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی یافتہ نہیں کہا جا سکتا اور حکومت وقت کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے صرف نعرہ بازی، جملہ بازی اور شعبدہ بازی سے بہت دنوں تک حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا، کسی باہری مہمان کی آمد پر غربت کو چھپانے کیلئے دیوار تعمیر کرکے غریبوں کا مزاق اُڑانے کے برابر ہے، جھوٹ اور مکاری کو فروغ دینے کے برابر ہے وقتی بھلے ہی جھوٹ سچائی پر فوقیت حاصل کرلے مگر ایک دن جھوٹ کا پردہ فاش ہونا ہے اور سچائی و حقیقت کو کھل کر سامنے آنا ہی آنا ہے اور آج وہی حال ہے چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کردیا گیا کہ میرا خواب یہ ہے کہ جس کے پیروں میں ہوائی چپل ہے وہ ہوائی جہاز کا سفر کرنے کے قابل بن جائے، ملک کا ایک ایک فرد خود کفیل ہوجائے، ملک کا ایک ایک شہری اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے کاش اس نظرئیے پر کام کیا گیا ہوتا تو ملک کی کچھ اور ہی تصویر آج ہمارے سامنے ہوتی لیکن نہیں اس نظرئیے کو صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کے سامنے پیش کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیروں میں ہوائی چپل پہننے والا شخص آج ہزار ہزار کلومیٹر تک پیدل سفر کررہا ہے کہیں جنگلی جانوروں کا سامنا کررہا ہے، کہیں پولیس کے ڈنڈے کھارہاہے، کہیں لو کے تھپیڑے کھارہاہے، کہیں بھوک اور پیاس سے نبرد آزما ہے، کہیں زندگی اور موت سے جنگ لڑ رہا ہے اور اس جنگ میں ہار کا سامنا کررہا ہے، گودیاں اجڑرہی ہیں، مانگوں کا سیندور مٹ رہا ہے، یتیموں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے،، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کسی کی بھوک سے موت نہیں ہونی چاہیے اور دوسری جانب روانہ بھوک سے لوگ مررہے ہیں کہیں روڈ پر کوئی بھوکا مرتا ہے، کہیں ٹرک تصادم میں کوئی مرتا ہے، کہیں ٹرین پٹری پر گردن کٹ رہی ہے اور یہ ساری مصیبتوں کا سامنا ایسا طبقہ کررہا ہے جسے مزدور کہا جاتا ہے جس کے نام پر ہر سال یومِ مزدور منایا جاتا ہے، لمبا چوڑا اسٹیج بنایا جاتا ہے، بے شمار سبزباغ دکھایا جاتا ہے اور یومِ مزدور کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کیا جاتا ہے لیکن اس غریب مزدور کی فلاح اور بہبود کیلئے کچھ بھی نہیں کیاجاتا، اس کے روشن مستقبل کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا غرضیکہ انہیں مزدور سے مجبور بنادیا دیاگیا پوری دنیا اس سے باخبر ہے کہ جب بھی کوئی ناگہانی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو کمزور طبقہ سب سے پہلے اس کی زد میں آتا ہے تو پھر اس کمزور طبقے کی خوشحالی کیلئے آخر کیوں کچھ بھی نہیں کیا جاتا اور جب کچھ نہیں کیا جاتا ہے تو کیوں غریبی کے خاتمے کی آواز بلند کی جاتی ہے اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت غریبی کو نہیں بلکہ غریبوں کو ختم کرنا چاہتی ہے،، آج ملک کے جو حالات ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں روزانہ لوگ منزل کے قریب پہنچ کر لٹ جارہے ہیں چار دن کی بھوکی پیاسی ماں دم توڑ دیتی ہے اور ڈیڑھ سال کا بچہ ماں کی چادر و اوڑھنی پکڑ کر کھینچتا اور کھیلتا ہے اس بچے کو یہ نہیں معلوم ہے کہ میری ماں کا آنچل اس وقت میری ماں کا کفن بن چکا ہے،، اب تو لگتا ہے کہ غریب ہونا جرم ہے، مزدور ہونا جرم، بے سہارا اور کمزور ہونا بہت بڑا قصور ہے اور ایسے بے سہارا و کمزور، غریب مزدور کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانا بہت بڑی چالاکی اور ہوشیاری ہے چاہے حکومت کی ناقص پالیسی ہو یا کوئی بھی موقع ہو گھوم پھر کر مار کمزور اور مزدور طبقے پر ہی پڑتی ہے،، بہت سا ایسا موقع بھی آتا ہے کہ زبردست فائدہ ہوتا ہے لیکن اس. موقع پر محروم رہنے والا طبقہ بھی مزدوروں کا ہی رہتا ہے آخر ایسا کیوں؟ آج جب کرونا وائرس کی وبا پھیلی تو اس کی مار بھی مزدوروں پر ہی پڑی حفاظتی و احتیاطی اقدامات کے طور پر ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیاگیا،، لاک ڈاؤن کی مخالفت نہیں ہے لیکن تیاری کے بغیر لاک ڈاؤن کیاگیا اس کی مخالفت ہورہی ہے لاک ڈاؤن سے پہلے چار پانچ دن کا وقت دیا گیا ہوتا اور اس دوران ٹرینیں چلا کر مزدوروں کو انکے گھر بھیجا گیاہوتا تو آج قدم قدم پر بھوک اور پیاس سے نڈھال غریب مزدوروں کی موت نہیں ہوتی اور مزدور طبقہ مایوس ہوکر پیدل ہی اپنی منزل کی طرف نہیں چلتا علاوہ ازیں جب لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا گیا اور جو جہاں ہے اسے وہیں رہنے کا حکم جاری کردیا گیا تو انکے لئے اور باالخصوص مزدوروں کیلئے ضروریات زندگی کی سہولیات کو فراہم کیوں نہیں کیاگیا ہر مقام پر مزدوروں کے تئیں حکومت کی لاپرواہی ظاہر ہورہی ہے غرضیکہ مزدوروں کا مستقبل آج بھی تاریک نظر آتا ہے اور جب کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو شراب خانے کو بھی کھول دیا گیا آخر اس کا کیا مقصد ہے اور نہیں تو کچھ فرقہ پرست آج کے پردرد و پرالم ماحول میں بھی اپنی عادت سے مجبور نظر آتے ہوئے مسلمانوں سے سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور گودی میڈیا کا حال تو یہ ہے کہ قلم اور زبان و ضمیر بیچ کر چوتھے ستون کو مسمار کرنے پر عمل پیرا ہے، ملک کی فضا کو زہر آلود بنانے پر آمادہ ہے، کرونا وائرس کو مذہبی رنگ گودی میڈیا نے دیا، کرونا وائرس کو جماعتی نام گودی میڈیا نے دیا آخر کار گودی میڈیا نے زبان و قلم کے معیار کو خود اپنے ہی پیروں تلے روند دیا جس کی قیمت آج ملک کا غریب محنت کش مزدور چکا رہا ہے اور گودی میڈیا  مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے جبکہ اب تک کے لاک ڈاؤن میں مسلمانوں نے مساجد میں نماز جمعہ ترک کرکے بے مثال قربانی اور تعاون پیش کیا ہے اور راہ چلتے مسافروں کے لیے کھانے پینے کے سامان کا انتظام کرکے انسانیت کا عظیم الشان فریضہ انجام دیا ہے اور اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ مذہب اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بھوکوں کو کھلاتے وقت مذہبی تفریق نہ برتاجائے اور فرمان رسول ہے کہ مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردیا جائے اور ساتھ ہی داماد رسول کا قول ہے کہ کوئی چوری کرے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیاجائے لیکن کوئی روٹی چوری کرے تو بادشاہ کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور یاد رہے کہ ہم اسی رسول اور داماد رسول کو ماننے والوں میں سے ہیں –

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

31 مئی 2020 (ادارہ فکروخبر بھٹکل)

* سابق سکریٹری یوپی بنکریونین

«
»

چند خوش گوار یادیں : مولانا شاہد صاحب فیض آبادی رحمۃ اللہ علیہ

ارباب مدارس اور ان کے ناقدین سے کچھ گزارشات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے