موجودہ حالات میں راہ عمل

 

عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مفتاحی دام ظلہ کے آن لائن خطاب نور کے کچھ اہم نکات

خطاب: 2/ اپریل/ 2020 جمعرات  بعد مغرب

ضبط و ترتیب: مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمیؔ 

استاد جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد  

 

حضرت نے ارشاد فرمایا:

 

انسانوں کی کامل و مکمل رہنمائی کرنے والا مذہب صرف اور صرف اسلام ہے، اس کا دستور قرآن کی صورت میں موجود ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لے رکھی ہے۔

 

پورے عالم کی نظر  اگر کسی مذہب کی طرف ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے، اس لیے کہ وہ مادیت اور خواہشات  کی تکمیل کے بجائے روحانیت اور فکر آخرت کی ترغیب دیتاہے ۔

 

 آج باطل طاقتیں اسلام کو مٹانے کے در پے ہیں، وہ مذہب اسلام اور اسلامی تعلیمات کے پیچھے پڑ چکی ہیں۔

 

موجودہ دور میں باطل طاقتیں ان لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جو اسلام سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، ان کاموں کو نشانہ بنا رہی ہیں جن سے اسلام کی تعلیمات عام ہوتی ہیں،  اور ان مراکز کو نشانہ بنا رہی ہیں جہاں سے اسلام کی تبلیغ ہوتی ہے؛ مگر شاید ان کو یہ پتہ نہیں کہ اسلام مٹنے والا مذہب نہیں، لاکھ کوششوں کے باوجود اسلام کو نہیں مٹایا جا سکتا، ہم نے بچپن میں ایک شعر یاد کیا تھا؂

 

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 

کلمہ بہت وزن دار ہے، جب رسول اللہﷺ نے اس کا اعلان کیا تو اس کے وزن سے ناآشنا تھے، اسی لیے انکار کر بیٹھے، جب کہ دونوں جہاں سے وزنی چیز کلمہ طیبہ ہے۔

 

کلمہ ہر بری چیز کو پاک کردیتا ہے، اسی لیے اس کا نام طیبہ ہے۔

 

 جب آدمی کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے تو اچھائ اور برائی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور اچھی عقل کے لیے اصل شرط نور ایمان ہے۔

 

حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ان حالات میں میرا ایمان اور میرا دین کمزور نہ ہو جائے۔

 

فتنوں اور آزمائش کے وقت اپنے  ایمان کی فکر کرنے والوں کو اللہ تعالی خوب پسند فرماتے ہیں، ایسے لوگوں کو تاریخی لوگ قرار دیا گیا، ان کا قصہ قرآن میں بیان کیا گیا، ان کی  طرف منسوب کر کے پوری سورت کا نام سورۂ کہف رکھا گیا۔

 

دو قسم کی حالات دنیا میں ہیں: ایک ایمان داروں کے اور دوسرے ایمان فروشوں کے۔

 

ایمان داروں کے حالات کو نظر میں رکھیں کہ وہ مشکلات و مصائب میں بھی اپنے ایمان پر کیسے ثابت قدم رہے اور دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کی،اور عورتیں حضرت سمیہ شہیدہؓ کی ثابت قدمی کو نظر میں رکھیں ۔

 

یہ جملہ آپ نے بہت سنا ہوگا جان سلامت تو جہان سلامت؛ مگر یہ جملہ بہت کم سنا ہوگا کہ ایمان سلامت تو دو جہان سلامت ۔

 

اس وقت دنیا میں نظر آنے والی بیماری  اور پھیلنے والے وائرس کی تو سب کو فکر ہے؛ مگر رسول اللہﷺ کی بتائی ہوئی بیماری کی کسی کو فکر نہیں، نبئ رحمتﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: ایک وقت آئے گا کہ دنیا کی ساری باطل طاقتیں تم پر ایسا ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے لوگ دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!  کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی؟ نبی رحمتﷺ نے فرمایا: نہیں، اس وقت تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی؛ مگر تم کو وہن کی بیماری لگ جائے گی،  صحابہؓ نے عرض کیا کہ وہن کیا چیز ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے  فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کی کراہت ، حب الدنیا و کراھیۃ الموت۔

 

دنیا کی زندگی دھوکہ کے سوا کچھ نہیں، موت آئے گی توحقیقی زندگی سامنے آجائے گی، اسی لیے فرمایا گیا: لوگ سوئے ہوئے ہیں، جب مریں گے تو اس وقت بیدار ہوں گے۔

 

غفلت سب سے بڑی مصیبت ہے، فرعون، ہامان، شداد اور قارون کے ہلاک ہونے کی بنیادی وجہ دنیا کو سب کچھ سمجھنا اور اللہ کی ذات عالی سے اور آخرت سے غفلت برتنا ہے۔

 

دشمن حکمرانوں کے مسلط ہونے کے پیچھے  بھی ہماری ہی دینی خلاف ورزیاں ہیں، اسی لیے یہ بات بتلائی گئی کی تمہاری خرابیوں کی وجہ سے تمہارے بہترین لوگوں پر بد ترین لوگ مسلط ہوں گے ۔

 

یہ دور فتنوں بھرا دور ہے اور دجالی فتنوں کا ایک سلسلہ ہے، دجال دجل سے ہے، اور یہ سارے فتنے دجل والے ہیں، اس لیے فتنوں کے دور میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔

 

ایسے وقت میں اسلام کی صداقت و سچائی، اس کی جامعیت اور اس کے کمال پر کامل نظر ہونی چاہیے۔

 

اندرون میں حوصلہ بلند رکھیے، پست ہمتی آدمی کو پستی میں ڈھکیلتی ہے اور بلند حوصلہ آدمی کو بلندی کی جانب لے جاتا ہے۔

 

چین میں سو سال کے شوہر و بیوی کے ایک جوڑے نے بلند حوصلہ و ہمت کی بنا پر اس وائرس سے شفا حاصل کر لی ہے۔

 

دینی کام کرنے والوں کے ساتھ اس وقت جو کچھ سلوک کیا جا رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے وہ دینی کام سے دور ہو جائیں؛ بلکہ احتیاط کے دائرے میں رہ کر جتنی دینی جد و جہد ہو سکتی ہے، کرتے رہیں۔  

 

 لوگوں کے بولنے کی وجہ سے اچھی چیز بری نہیں ہو جاتی اور بری چیز اچھی نہیں ہو جاتی۔

 

ایک رپورٹر صاحب میرے پاس آئے تو میں نے ان سے کہا: اس وقت آپ لوگوں کو مت ڈرائیے؛ بلکہ ہمت دلائیے۔ 

 

نفسیات کا بھی اثر ہوتا ہے، اس لیے خوف نہیں کھانا چاہیے، کئی لوگ خوف سے بیمار ہو رہے ہیں۔

 

ایک منصوبے کے تحت لوگوں کو خوف میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے؛ خوف بالکل نہ کھائیں، ہزاروں بیماریاں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔

 

وقتی حالات میں احتیاط سے کام لیں، جمعہ اور جماعت میں بھیڑ اکھٹی نہ کریں؛ بلکہ گھر پر ہی نماز ادا کریں، اللہ نیتوں کو جاننے والے ہیں ، ان شاء اللہ جماعت کا اجر  عطا فرمائیں گے۔

 

اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کی فکر کریں، تلاوت کی کثرت رکھیں، ذکر کی پابندی کریں، سنتوں پر پابندی رکھیں، صحابہؓ کی سیرت پڑھیں۔

 

اعمال صالحہ کی کثرت کریں، اولاد کی حسن تربیت پر توجہ دیں اور جملہ رذائل سے اپنے کو پاک رکھیں۔

 

روزآنہ سورۂ کہف کی تلاوت کریں، کم از کم شروع کی دس آیتوں کی تلاوت کا روزآنہ معمول بنالیں، یہ فتنوں سے حفاظت میں بہت معاون ہیں۔

 

ضرورت مندوں کی خدمت حدود و احتیاط کے دائرے میں رہ کر کریں۔

 

پکی ہوئی چیزیں پہونچانے  کے بجائے پکوان کی چیزیں پہونچانا زیادہ بہتر ہے۔

 

قوانین کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریں۔

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے