چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو!

 

از:محمد ندیم الدین قاسمی

(مدرس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد)

 

اسلام محض چند مخصوص عبادتوں: روزہ ،نماز ،حج اور نفل نمازوں کی ادائیگی کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کاایک حسین امتزاج ہے ،اسی لئے اسلام نے دنیائےانسانیت کو باہمی اخوت ومحبت ،ہمدردی اور خدمت گذاری کا درس دیا، طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم ،امیروں کو غریبوں کی مدد کرنے، مظلوموں وحاجت مندوں کی فریاد رسی کرنے، یتیموں مسکینوں کے دکھ درد کو بانٹنے کی تلقین فرمائی، چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا لیس البرُ اَن تُوَلّوا وُجوھکم قِبَلَ المشرقِ والمَغْرِبِ الخ(بقرہ:۲۲)

ترجمہ: ’’نیکی یہی نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق ومغرب کی جانب کرلو؛ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ….. مال سے بے پناہ محبت کے باوجود اس کو اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے خرچ کرو، 

۲۔ کامل مومن کی علامت کا تذکرہ کرتے ہوے فرمایاوَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ( سورہ الدھر8)

اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔

ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا"خیر الناس من ینفع الناس(کنز العمال: ج ۸ ص ۲۰۱)"بہترین آدمی وہی ہے جو لوگوں کو فائدہ پہونچائے"

حضرت عبد اللہ بن عمرو سےمرفوعا روایت ہے :

“الراحمون یرحمھم الرحمن، إرحموا من فی الأرض یرحمکم من فی السماء”

“ رحم کرنے والوں پر رحمن (اللہ) تبارک وتعالیٰ مہربان ہوگا۔ اس لیے جو زمین پر ہیں ان پر رحم کرو تم پر وہ ذات رحم کرےگی جو آسمان میں ہے۔” (رواہ الترمذی)

امام رازی ؒ "تفسیر کبیر"میں فرماتے ہے کہ ساری عبادتوں کا خلاصہ صرف دو چیزیں ہیں (۱)امرِ الہی کی تعظیم (۲)مخلوقِ خدا پر شفقت،شیخ سعدی ؒنے فرمایاتھا"ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد"(خو مخلوق کی خدمت کرتا ہے تو مخلوق اس کی خادم بن جاتی ہے) کیونکہ کسی دکھی انسان کے درد کو بانٹنا حصول جنت کا ذریعہ ہے،کسی زخمی دل پر محبت وشفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے،کسی مقروض کا تعاون اور کسی محتاج کی کفالت کرنا اللہ کے رحمتوں اور برکتوں کے حصول کا ایک اہم سبب ہے،کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا یہ ایمان کامل کی علامت ہے خلاصہ یہ کہ دوسروں کے کام آجانا ہی اصل زندگی اور اصل عبادت ہے کیونکہ:

خدمت خلق کے لئے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

لیکن افسوس کہ ہم اس صفت سے عاری ہیں ،بے حسی تو اتنی کہ اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں،خود کے پیٹ کی تو فکر ہے لیکن اس دکھی پڑوسی باپ کی فکر نہیں جس کے بچے بھوک کی وجہ سے پوری رات بلک بلک کر گذار دیتے ہیں،اپنے بچوں پر تو ضرورت سے زیادہ خرچ لیکن محلے کے ان محتاج بچوں کی نم ناک آنکھیں دیکھ کر بھی سخت دلی، اللہ کی پناہ! جب کہ آپ ﷺنے فرمایا :لیس المومن بالذی یشبع وجارہ جائع الی جنبہ (البیہقی)

مومن وہ نہیں جو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکارہے۔

اس لئے اب ضروری ہے کہ ہم مخلوق کے درد کو اپنا درد سمجھیں ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت سمجھ کر پورا کرنے کی کوشش کریں ،بالخصوص اس مشکل وقت میں جب کہ پوری دنیا اس وبا سے خوف زدہ اور پریشان ہیں،ترقی یافتہ ممالک بھی بے بس اور خوف ان کے چہروں سے چھن رہاہے ،ہر ملک میں لاک ڈاون کا اعلان ہوچکا ہے ہمارے ملک ہندوستان میں موجودہ حالات کے پیش نظر آئندہ ۲۱ دنوں تک لاک ڈاون کا اعلان کردیاگیا ہے (جو صحیح بھی ہے)جس کے بعد ہرایک کی یہی کوشش ہے کہ ان دنوں اتنی ضروریاتِ زندگی (راشن اورکرانہ)جمع کرلے جو اس مشکل وقت میں کافی ہو مگر غریب ،مزدور اور وہ لوگ جن کا گزارہ ہی روزانہ کی کمائی پر ہوتا ہے ان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں کہ اتنا سامان خرید کر رکھ لیں وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں ہیں،اب انہیں اس وبا سے زیادہ اپنے معصوم معصوم بچوں اور اپنے گھر کی فکر ہے ،اب ان کی پریشانی کون دور کرے؟اس مشکل وقت میں کون ان کا سہارا بنے؟کون ان کے درد کو سمجھے ؟یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے، اس لئے اب ضروری ہے کہ

۱۔ اہل ثروت حضرات اس طرف توجہ دیں اور اپنے اموال کی زکوۃ رمضان کے بجائے ابھی نکال دیں یا پھر ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ و خیرات کرتے رہے اس لئے کہ زکوۃ کا مقصد ہی ضرورت پوری کرنا ہے اسی لئےاللہ تعالی نے فتح مکہ سے پہلے(جب کہ ضرورت زیادہ تھی)خرچ کرنے والوں کی تعریف کی لایَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓئكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ(سورۃ الحدید)(تم میں فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں ،وہ بعد میں خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے مرتبے میں بڑے ہیں)

۲۔ہرشخص اپنے خاندان اور محلے کے غریب لوگوں کی بلاتفریقِ مذہب ومسلک فکر کریں کہ کہیں وہ بھوکے تو نہیں سو رہے ہیں ؟

۳۔رفاہی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے shelters قائم کریں جہاں ہر کسی کو بلا کسی امتیاز کےدونوں وقت کی خوراک میسر ہو،لیکن خدا کے واسطے بات بات پر سیلفی لے کر ان غریبوں کی عزتوں کا خون نہ کریں، 

۴۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غریبوں کا ممکنہ تعاون کرے اور بیماروں کے لئے مناسب قیمت یا مفت علاج کا انتظام کرے۔

 

خدمت خلق کے لئے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں 

اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے آمین!

 

26 مارچ2020

«
»

کورونا وائرس‘ قیامت صغریٰ کا منظر

دہلی فساد متاثرین: بس ایک اللہ کا آسرا… ظفر آغا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے