جس بات کا اندیشہ تھا وہی ہوا آہ شاہین باغ: حکومت نے کورونا کو مواقع کے طور پر استعمال کیا ہے

 

عابد انور سینئر صحافی / جاوید اختر بھارتی  

دہلی پولیس نے آج طاقت کے زور پر شاہین باغ احتجاج کو ختم کرادیا اور تمام سامان اٹھاکر لے گئی۔جب کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا اور سپریم کورٹ کا اس پر فیصلہ آنا باقی تھا اس کے باوجود پولیس نے پورے علاقے میں دہشت کا ماحول پیدا کرکے، پورے علاقے کو سیل کرکے اور بریکیڈ لگاکر ہٹادیا۔ پولیس کی بربریت کی تازہ ترین مثال ہے۔ بہانہ کورونا وائرس کو بنایا گیا۔ کورونا وائرس کے درمیان پارلیمنٹ کے اجلاس ہوسکتے ہیں، بی جے پی کی میٹنگ ہوسکتی ہے، مدھیہ پردیش کے سابق اور موجودہ وزیر اعلی جشن مناسکتے ہیں اور اسمبلی اجلاس چلاسکتے ہیں،پورے ملک میں بی جے پی کے ورکر گھنٹہ اور تالی تھالی بجا سکتے ہیں، جلوس نکال سکتے ہیں۔ حکومت کے وزراء ، اراکین پارلیمنٹ اور عہدیداران اجتماعی طور پر تھالی پیٹ سکتے ہیں گھنٹہ اور تالی بجاسکتے ہیں، اس سے کوئی بھی کورونا سے متاثر نہیں ہوگا۔ سیکڑوں لوگوں کے ساتھ پیلی بھیت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس پی گھنٹہ اور سنکھ بجا سکتے ہیں لیکن مسلمان اور سیکولر مزاج انصاف پسند لوگ اپنے حق کے لئے مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ امید یہی ہے کہ شاہین باغ ہٹنے سے دہلی سے کورونا ختم ہوجائے گا۔اب دہلی ہی نہیں پورے ملک میں کسی کو کورونا نہیں ہوگا۔ ہندوستان کے سارے مسئلے اب حل ہوگئے ہوں گے۔
شاہین باغ مظاہرین میں رضاکارانہ طور پر صرف پانچ عورتیں بیٹھنے لگی تھیں تاکہ حکومت کو کورونا کا بہانہ نہ ملے۔ صفائی ستھرائی، سنیٹائزر کا استعمال کر رہی تھیں۔ احتیاط کے سارے کام کررہی تھیں لیکن حکومت کو شاہین باغ کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا اور وہ اسے دشمن کا مظاہرہ سمجھ رہی تھی۔ پوری دنیا میں شاہین باغ کی تعریف ہورہی تھی اور اس مظاہرے کرنے کی اسٹائل اور طریقہ کار کو اپنایا جارہا تھا لیکن ملک کے سارے ہندی چینل (ایک دو کو چھوڑکر) اس کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے تھے۔ بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کا حربہ اپنا رہے تھے اور حکومت، آر ایس ایس اور دیگر فسطائی طاقتیں طرح طرح کی دھمکیاں دے رہی تھیں۔ ان سب کے درمیان شاہین باغ اپنا قدم مضبوطی سے بڑھاتا گیا، شاہین باغ کی موت کبھی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی شاہین باغ کا دھرنا کبھی ختم ہوگا، جسمانی طور پر ختم ہوگیا ہے روحانی طور پر جاری رہے گا۔ہندوستان کی تاریخ میں شاہین باغ دھرنے کو جہاں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا وہیں، دہلی پولیس کی بربریت، حکومت کی غنڈہ گردی، دہلی حکومت کے سنگھی چہرے اور حکومت کی منشا کو بدترین الفاظ میں ذکر کیا جائے گا۔
جس طرح دہلی پولیس نے پورے شاہین باغ کی گلیوں کو بند کیا اور پولیس فورس کو بھر دیا اگر اسی طرح اس نے شمالی مشرقی دہلی میں پولیس اور فورس کو بھر دیا ہوتا پچاس سے زائد جانیں نہ جاتیں اور  کروڑوں کا نقصان نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں ملک کی اس قدر بدنامی نہیں ہوتی، پوری دنیا تھو تھو نہیں کرتی۔ یہ دنیا کی واحد بدترین اور ذلیل ترین حکومت ہے جو کورونا کو مواقع کے طور پر دیکھتی ہے اور مواقع کے طور پر استعمال کرنے سے باز نہیں آئی بعض لوگوں نے کہا تھا کہ جنتا کرفیو، کرونا وائرس بہانہ ہے شاہین باغ نشانہ ہے اور ایسا ہی منظر سامنے بھی آیا احتیاط اور احتجاج دونوں ضروری ہے اور شاہین باغ میں یہ دونوں طریقہ اپنایا گیا ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ کہ بی جے پی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے تبھی تو اس نے کرونا کو آلہء کار بناکر ایک بار پھر جمہوریت کا مذاق اڑایا جبکہ شاہین باغ کے مظاہرین کی نیت اتنی صاف تھی کہ ان لوگوں نے جنتا کرفیو کی حمایت کی، لاک ڈاؤن کی حمایت کی صلہ یہ یہ دیا گیا کہ طاقت کے بل پر مظاہرہ ہی ختم کرا دیا گیا اب کیسے کوئی بی جے پی حکومت پر یقین و اعتماد کرے کہ آپ سب کا ساتھ چاہتے ہیں، سب کا وکاس چاہتے ہیں اور سب کا وشواس چاہتے ہیں جبکہ آپ غمگین و تشویشناک حالات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وشواس گھات کرتے ہیں پورے ملک کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شاہین باغ سے آئین و جمہوریت بچانے کی آواز اٹھی تھی اور یہ آواز پورے ملک سے اٹھنے لگی غرضیکہ شاہین باغ سے بلا تفریق مذہب و ملت اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا نعرہ بلند ہوا ہے اور ہر ہندوستانی کو شاہین باغ نے یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان ہمیں پیارا ہے اور ہندوستان کا آئین ہمیں پیارا ہے ہم نے ہی لہو دیکر اس گلشن کو سنوارا ہے 

«
»

کورونا وائرس‘ قیامت صغریٰ کا منظر

دہلی فساد متاثرین: بس ایک اللہ کا آسرا… ظفر آغا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے