آزاد عدلیہ کی مرگِ ناگہانی افسوسناک ہے

رافیل- اجودھیا جج رنجن گگوئی کو رام مندر ایوارڈ 

 عبدالعزیز 

 (اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ آزاد عدلیہ کی آفیشیل موت ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے وکیل گوتم بھاٹیہ کا ٹوئٹ)

    اللہ تعالیٰ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کرتا ہے ”لیکن جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ کی اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے۔ حرص، طمع، خود غرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، غیظ و غضب ایسی دوسروں خصلتوں میں جو لوگ غرق ہوجاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی ایک بات کو لے لیجئے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہوجاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات کر دیتی ہے۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کیلئے کسی جانور کا شکار کرتا ہے، جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا مگر انسان خود اپنے ہی ہم جنس کا انسان کا قتل عام کرتا ہے“۔ 
    جنوری 2018ء میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے عدلیہ میں سرکاری مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ پر دباؤ ہے اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔ ان چار ججوں میں جسٹس رنجن گگوئی بھی شامل تھے۔ جسٹس گگوئی کچھ مہینوں میں اپنی سینئریٹی کی وجہ سے چیف جسٹس آف انڈیا بننے والے تھے۔ اس لئے اس گروپ میں ان کی شمولیت پر لوگوں کو حیرت بھی تھی اور خوشی بھی تھی۔ حیرت اس لئے تھی کہ ان کی ترقی میں یعنی چیف جسٹس کی تقرری میں رکاوٹ پیدا کی جاسکتی ہے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے کیریئر کو داؤں پہ لگاتے ہوئے حق و صداقت کا ساتھ دیا۔ اس گروپ میں جسٹس چلمیشور، جسٹس مدن لوکر، جسٹس کورین جوزف بھی شامل تھے مگر ملک میں جسٹس گگوئی کی تعریف و توصیف بہت زیادہ کی گئی کیونکہ انھوں نے اپنے کیریئر کا کوئی خیال یا پرواہ نہیں کی۔ لیکن گزشتہ روز صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے انھیں راجیہ سبھا کی ایک سیٹ کیلئے نامزد کیا ہے۔ اس سے جسٹس گگوئی کی عظمت پر پانی پھر گیا اور ان کی گراوٹ پر جو شک و شبہ تھا وہ یقین میں بدل گیا۔ 
    جسٹس رنجن گگوئی جب ’چیف جسٹس آف انڈیا‘ تھے تو ان کے دفتر کی ایک خاتون نے ان پر جنسی بدسلوکی کا الزام عائد کیا تھا۔ اس نے ان پر مقدمہ بھی دائر کر دیا تھا۔ اس وقت وہ بہت ہی مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہوگئے تھے۔ سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے جسٹس گگوئی کی مدافعت میں آواز بلند کی تھی۔ اس سے لوگوں کو شبہ ہوا تھا کہ بھاجپا کی طرف سے ہی ان پر شب خوں مارنے کی کوشش کی گئی ہے اور اب بچانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ بہر حال جو بھی ہو وہ کسی طرح مصائب و مشکلات سے بچ نکلے اور جو مقدمہ ان پر عائد کیا گیا تھا اصول و ضابطے سے پرے ہٹ کر انھیں کلین چٹ بھی دے دی گئی۔ اس واقعہ کے بعد جسٹس گگوئی میں بڑی تبدیلی نظر آئی۔ کئی ایسے مقدمات کے فیصلے ہوئے کہ عدلیہ شک و شبہ کے گھیرے میں آگئی۔ جس میں رام مندر، رافیل سودا اور تین طلاق جیسے مقدمات کے فیصلے شامل ہیں۔ اب جبکہ انھیں راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا گیا ہے تو ان کی شخصیت پر جو شک و شبہ تھا کہ سارے فیصلے حکومت کے حسب خواہ کئے گئے ہیں وہ یقین میں بدل گیا ہے۔ 
    سپریم کورٹ کے مشہور سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا ہے کہ ”جسٹس رنجن گگوئی نے نہ صرف اپنے عدالتی ریکارڈ کو شک کے دائرے میں ڈال دیا ہے بلکہ جو ججز ان کے ساتھ فیصلے کی بنچ پر بیٹھتے تھے ان کی آزادی اور غیر جانبداری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے“۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دوشیانت دیو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”جنسی زیادتی کے معاملے میں جسٹس گگوئی کو غلط طریقے سے کلین چٹ دیا گیا تھا۔ مقدمے میں مظلوم خاتون کی طرف سے وکالت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی“۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ”جسٹس رنجن گگوئی کی راجیہ سبھا کے ممبر کیلئے نامزدگی سراسر سیاسی ہے۔ اس سے یہ چیز ظاہر ہوتی ہے کہ عدلیہ کو کتنا نیچے گرا دیا گیا ہے۔ یہ اعلانیہ گواہی ہے کہ عدالت کو آزادی سے محروم کر دیا گیا ہے“۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان اور ممتاز وکیل ابھیشک منو سنگھوی نے کہا ہے کہ ”یہ تو ایسا ہی ہوا جیسے کبھی نیتاجی سبھاش چندر بوس نے اپیل کی تھی کہ ”تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ تم میرے حق میں فیصلہ دو میں تمہیں راجیہ سبھا کی ایک سیٹ دوں گا“۔ عدلیہ کے نظام پر بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں اور کہی گئی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عدلیہ آزاد نہیں ہے اور نہ ہی غیر جانبدارانہ فیصلہ کرپاتی ہے۔
     2012ء میں مسٹر ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ ”ججز دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو قانون کو جانتے اور سمجھتے ہیں اور ایک قسم ان ججوں کی ہوتی ہے جو وزیر قانون کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے جہاں ججوں کو جج تقرری دیتے ہی۔ ججوں کی ایک ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی ہے۔ کوئی جج ریٹائر ہونا نہیں چاہتا۔ جج اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد کا مستقبل بھی ذہن میں رکھتے ہیں اور فیصلے بھی اس کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں“۔ 
    حقیقت میں راجیہ سبھا کی ممبری کی نامزدگی حکومت کی طرف سے ہوتی ہے جو صدر جمہوریہ کے پاس سفارش کیلئے بھیج دی جاتی ہے۔ یہ جسٹس رنجن گگوئی کی نامزدگی مودی حکومت کی طرف سے ہی کی گئی ہے۔ رسماً اعلان کیا گیا ہے کہ صدر جمہوریہ نے جسٹس رنجن گگوئی کی نامزدگی کی ہے۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ”مجھے امید ہے کہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر رنجن گگوئی کا ضمیر گوارا نہیں کرے گا کہ سرکار کی طرف سے جو انھیں راجیہ سبھا کی سیٹ بطور انعام دی جارہی ہے وہ قبول کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ وہ انکار کردیں گے اور عدلیہ کے وقار کو مجروح ہونے نہیں دیں گے“۔ یشونت سنہا کے بیان کے بالکل برعکس جسٹس گگوئی نے بیان دیا ہے کہ ”مجھے راجیہ سبھا کی ممبری کی پیشکش سے خوشی ہوئی ہے اور اس سے مجھے  ایوان میں عدلیہ کے نقطہ نظر کو پیش کرنے کا موقع ملے گا“۔ جسٹس گگوئی صاحب کا بیان ان کے کردار کی گراوٹ کا پورا پورا پتہ دیتا ہے۔ اگر وہ صاحب کردار ہوتے تو اتنی معمولی سی چیز کو ہرگز کو قبول نہیں کرتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اعلیٰ کردار کے انسان نہیں ہیں بلکہ ادنیٰ کردار کے آدمی ہیں۔ اسی لئے ان کے ہر فیصلے میں جانبداری جھلکتی ہے۔ ان کی عدالتی زندگی کے آخری دور کے فیصلے انتہائی جانبدارانہ اور نا انصافی پر مبنی ہیں۔ اسی لئے سوشل میڈیا میں ان کے خلاف بہت سے تبصرے آرہے ہیں۔ ایک تبصرہ یہ بھی ہے کہ ”جسٹس لویا نے مودی-شاہ کی خواہش کے خلاف فیصلہ دیا تو جس کی وجہ سے ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جسٹس گگوئی نے مودی-شاہ کے حسب خواہش فیصلے دیئے تو انھیں انعام سے نوازا گیا“۔ اس طرح دیکھا جائے تو جسٹس گگوئی کا جو وقار تھا وہ مجروح ہوگیا۔ اس سے راجیہ سبھا میں جانے سے ان کی عزت مٹی میں مل جائے گی۔ جب وہ راجیہ سبھا کے اندر داخل ہوں گے اور کسی سیشن میں حصہ لیں گے تو لوگ انھیں اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ جسٹس آف انڈیا کی حیثیت سے تھوڑی بہت جو عزت تھی وہ بھی خاک میں مل گئی۔ واقعی جب انسان نیچے کی طرف گرتا ہے تو گرتے گرتے ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں سے کوئی وہم و گمان بھی نہیں کرسکتا۔
     ’جسٹس آف انڈیا‘ کا عہدہ بہت بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ اس کا مقام و مرتبہ بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ راجیہ سبھا کی ممبری ایسے لوگوں کو ملتی ہے جو اکثر و بیشتر کردار کے اونچے نہیں ہوتے۔ جسٹس صاحب نے بھی اپنا نام ان لوگوں میں لکھا لیا جو مودی اور شاہ کی حاشیہ برداری کرتے ہیں۔ اب وہ راجیہ سبھا کے ایک کمتر ممبر کی حیثیت سے جانے جائیں گے اور جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر پہنچنے کی وجہ سے جو ان کا مقام و مرتبہ تھا وہ خاک میں مل گیا۔ جسٹس گگوئی باہر سے جو کچھ بھی رہے ہوں اندر سے وہ کچھ اور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فرقہ پرست پارٹی کی حکومت کی طرف سے ایک بہت ہی معمولی درجے کی پیشکش قبول کرلی جو انھیں ہرگز کرنا نہیں چاہئے تھا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
18/ مارچ 2020

 

«
»

کورونا وائرس‘ قیامت صغریٰ کا منظر

دہلی فساد متاثرین: بس ایک اللہ کا آسرا… ظفر آغا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے