اروند کیجریوال میدانِ سیاست کے بونے نکلے

 ظفر آغا

صاحب یہ تو بونا نکلا! جی ہاں، اروند کیجریوال بالک ہی بونے نکلے۔ لیکن ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب یہی شخص دہلی کیا سارے ہندوستان کے دلوں پر چھایا ہوا تھا۔ یاد ہے وہ اروند کیجریوال جو انّا کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر دہلی کے رام لیلا میدان میں جھنڈا لہراتے تھے اور دلوں کو چھو لیتے تھے! پستہ قد، گلے میں مفلر اور ایک سویٹر پہنے ہوئے یہ نوجوان جب بدعنوانی کے خلاف بولتا تھا تو لگتا تھا کہ ایک اینگری ینگ مین ہے جو ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور بس سارے ہندوستان کا مڈل کلاس اس اروند کیجریوال پر فدا ہو گیا۔ تب ہی تو سن 2015 میں جیسے ہی اروند کیجریوال عام آدمی پارٹی بنا کر دہلی اسمبلی چناؤ میدان میں کھڑے ہوئے تو سب نے کیجریوال کا دامن ووٹوں سے بھر دیا۔ حد تو یہ ہے کہ دہلی والے 2014 کے ہیرو نریندر مودی تک کو بھول گئے۔ اور تو اور ابھی اسی سال یعنی 2020 کے دہلی اسمبلی چناؤ ہوئے تو کیا ہندو اور کیا مسلمان، کیا امیر اور کیا غریب، پھر دہلی والوں نے اروند کیجریوال کو زبردست جیت بخشی۔

لیکن ابھی دہلی چناؤ کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ کیجریوال کی پول پٹی کھل گئی۔ پتہ چلا کہ انّا تحریک کا کیجریوال تو محض ایک چھلاوا تھا۔ بلکہ کیجریوال تو ایک فریب تھا۔ کیجریوال ملک سے بدعنوانی ختم کرنے نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ وہ تو عوام کا دل جیتنے کا بہانہ تھا۔ دراصل اروند کیجریوال اقتدار کا بھوکا تھا جو بدعنوانی مٹانے کے نام پر ایک نوٹنکی کر رہا تھا۔ بدعنوانی ختم کرنا تو ایک نوٹنکی تھی۔ اصل مقصد خود ایمانداری کا بہانہ بنا کر فریب سے ووٹ بٹورنا تھا۔ جناب، سچ عرض کروں تو راقم الحروف تو سنہ 2012 میں ہی اروند کیجریوال کو سمجھ گیا تھا۔ بطور صحافی دنیا میں طرح طرح کی سیاست دیکھنے کے بعد ہم کو سمجھ میں آ گیا کہ بدعنوانی کا تو شور ہے، اصل مقصد اقتدار حاصل کرنا ہے۔

ہم نے وی پی سنگھ کی بھی بدعنوانی مٹانے کی سیاست بہت قریب سے دیکھی تھی۔ وی پی سنگھ بھی کیجریوال کی طرح سے ملک سے بدعنوانی مٹانے کے نام پر کھڑے ہوئے اور پھر منڈل سیاست پر ختم ہو گئے۔ بدعنوانی منٹنا تو درکنار، بلکہ بدعنوانی اور بڑھ گئی۔ دراصل بدعنوانی کے خلاف جب جب تحریکیں چلیں، ان کا اصل نشانہ کانگریس کو کمزور اور بدنام کر خود اقتدار حاصل کرنا رہا ہے۔ اور ہر ایسی تحریک کے بعد بی جے پی اور مضبوط بن کر سامنے آئی ہے۔ سنہ 1980 کی دہائی میں بوفورس مخالف سیاست نے راجیو گاندھی اور کانگریس کی کمر توڑ دی اور بی جے پی جو محض لوک سبھا میں چار سیٹوں کی پارٹی تھی، وہ سنہ 1989 میں 89 سیٹوں پر پہنچ گئی اور پھر بی جے پی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ویسے ہی انّا اور اروند کیجریوال کی تحریک نے منموہن سنگھ حکومت کا خاتمہ کر نریندر مودی کو اقتدار تک پہنچا دیا۔ اب اسی تحریک کے نتیجے میں مودی ملک کو ہندو راشٹر بنا رہے ہیں۔

اروند کیجریوال بھی ایسے ہی ایک تحریک کی کوکھ سے جنمے لیڈر ہیں جس کے سرے سنہ 2012 سے آر ایس ایس سے جڑے ہوئے ہیں۔ انّا تحریک میں جو ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوتا تھا وہ آر ایس ایس کا اکٹھا کردہ مجمع تھا۔ خود ایک بار موہن بھاگوت نے اس بات کا اقبال کیا تھا۔ اور تو اور وشو ہندو پریشد کے مرحوم صدر اشوک سنگھل نے اس وقت یہ بیان دیا تھا کہ رام لیلا میدان میں ایک وقت میں ہزاروں لوگوں کو جو مفت کھانا کھلایا جاتا تھا اس کا انتظام وشو ہندو پریشد کرتا تھا۔ تو کیا انّا تحریک کے روح رواں اروند کیجریوال کو اس وقت یہ بالکل پتہ نہیں تھا کہ آر ایس ایس کا انّا تحریک میں کیا رول تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اروند کیجریوال بھی نظریاتی طور پر سنگھ قبیلے سے ہی تعلق رکھنے والی ایک شخصیت ہمیشہ سے تھے اور ان کے تار اگر بالکل سیدھی طرح سے نہیں تو کسی اور طریقے سے آر ایس ایس سے جڑے ہوئے تھے۔ اس کا مقصد شروع ہی سے انا تحریک کے ذریعہ دہلی میں کانگریس کو کمزور کرنا اور پھر اقتدار تک پہنچنا تھا۔ لیکن آخر دہلی کے حالیہ دنگوں نے اروند کیجریوال کی قلعی اتار دی اور ان دنگوں کے چند دنوں کے بعد ہی سنگھ کی ہندوتوا سیاست کا ہمدرد کیجریوال ابھر کر سامنے آ گیا۔ اس کیجریوال کے لیے اصول بے معنی ہیں، بدعنوانی ختم کرنا ایک کھوکھلا نعرہ ہے اور کسی طرح ووٹ بینک کی سیاست کر اقتدار سے چپکے رہنا اصل مقصد ہے۔ کیجریوال کی اصول پرستی کا یہ عالم ہے کہ ان کی پارٹی سے پرشانت بھوشن جیسے ایماندار اور بدعنوان سیاست مخالف جو بھی ایماندار لوگ تھے، ان سب کو کیجریوال نے اقتدار میں آتے ہی اپنی پارٹی سے باہر کر دیا۔ ایسے ہی دہلی حکومت نے بدعنوانی ختم کرنے کے نام پر ایک بھی بڑا قدم نہیں اٹھایا۔ اس کے بجائے بجلی، پانی اور محلہ کلینک اور اسکول کے نام پر ایک ووٹ بینک بنایا۔ اور ساتھ ہی مودی سے مخالفت کی نوٹنکی کی آڑ میں دہلی کے مسلم ووٹر کی ہمدردی اکٹھا کی اور اس طرح 2020 میں پھر پانچ سال کے لیے اقتدار پر قبضہ جما لیا

لیکن ہر جھوٹ اور نوٹنکی کا پردہ آخر کھل ہی جاتا ہے۔ اروند کیجریوال کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ابھی دہلی چناؤ ختم ہوئے مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دہلی میں فساد نہیں بلکہ دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں مسلمانوں کا منظم قتل عام ہوا، اور کیجریوال بیٹھے منھ تکتے رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، دہلی کا مسلم ووٹ بٹورنے والے کیجریوال عین فساد کے دوران امت شاہ اور نریندر مودی کے دربار میں صرف سجدہ ہی نہیں کر آئے بلکہ انھوں نے ان دونوں سے ملاقات کے بعد دونوں کی تعریفیں بھی کیں۔ اور حد یہ ہے کہ دہلی پولس کی بھی تعریف کی۔

آخر وہ مودی اور امت شاہ کی تعریف نہ کرتے تو اور کون کرتا۔ کیونکہ آخر ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘ ، انّا ہزارے اور آر ایس ایس کے کاندھے پر سوار ہو کر دہلی میں 'کانگریس مکت' سیاست کرنے والے خاموش سنگھی کیجریوال کو تو دہلی دنگوں پر خاموش رہنا ہی تھا۔ تب ہی تو اس مضمون کے لکھے جاتے وقت تک دہلی کے فساد زدہ علاقوں تک کا کیجریوال نے دورہ نہیں کیا تھا۔ سردی اور بارش میں مہینوں سے بیٹھی شاہین باغ کی عورتوں تک سے ملنے کا وقت حضرت کو نصیب نہیں ہوا۔ اور ہوتا بھی کیوں! عدالتوں سے لے کر میدان سیاست تک چھپے سینکڑوں سنگھیوں میں سے ایک ہیں اروند کیجریوال

لیکن چلیے، اروند کیجریوال کے چہرے سے نقاب اتر گئی۔ صاف ستھری اور ایماندار سیاست کا چھلاوا ختم ہوا، اور اب سارے ہندوستان کے سامنے ایک اقتدار کا بھوکا و اقلیتوں کا دشمن اور بونا کیجریوال آ چکا ہے۔ اس لیے اروند کیجریوال کے ملک گیر سیاست کے خواب بھی اب ختم۔ پانچ سال سیاست میں کوئی بڑی مدت نہیں ہوتی۔ اگلے دہلی اسمبلی چناؤ میں کیجریوال کا اتنا برا حشر ہوگا، یہ بھی ان کو پتہ چل ہی جائے گا۔ بونے کتنے ہی بڑے دِکھنے لگیں، آخر بونے ہوتے تو بونے ہی ہیں۔کل تک قدآور دکھائی دینے والے کیجریوال اب بونے نظر بھی آنے لگے ہیں۔

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے