اسپین نہیں یہ بھارت ہے۔۔۔۔۔۔ حکومت ہند اور ہندوستانی عوام سے چند سوال

 

عزیز برنی

 

ہمارا ملک اس وقت داخلی دہشتگردی کا شکار ہے اور حکومتِ وقت کی سرد محری بےسبب نہیں  وہ سنگھ پریوار کے دیرینہ خواب کو عملی جامہ پہنانے کی طرف گامزن ہے چاہے ملک اور قوم کو اسکی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے ۔ قومی میڈیا اور انتظامیہ اس حد تک جانبدارانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے کہ ملک میں امن و امان کا ماحول قائم کرنے کے بجائے بد امنی پھیلانے والوں کا ساتھ دینے اور اُنہیں بچانے میں مصروف ہے حکومت نفرت پھیلانے والوں کی سرپرستی کر رہی ہے اور عدالت اپنا وقار بچانے کی جنگ لڑ رہی ہے اسکی خودمختاری حکومت کی محتاج نظر آ رہی ہے۔مسلم قیادت حکومت کے تابع ہے یہ مصلحت ہے مجبوری  یا خودغرضی وجہ جو بھی ہو لیکن نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلم قوم کے جذبات کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں ۔۔۔ حکومت سے سوال کرنے والا کوئی نہیں۔۔۔

کون کرے یہ سوال آجکی کی اس حکومت سے کہ آخر وہ چاہتی کیا ہے مسلمانوں پر زمین تنگ کر دینے سے اسکا مقصد کیا ہے۔

1۔کیا وہ چاہتی ہے۔تمام مسلمانانِ ہند کا قتل کر دیا جائے

2۔کیا وہ چاہتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اجتماعی طور پر اپنا مذہب تبدیل کر لیں اور اسے گھر واپسی کا نام  دے دیا جائے۔

3۔ہندوستان کے مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری بنا دیا جائے اُنکی شہریت مشکوک اُنکے ووٹ کا حق ختم اور پورے ملک میں کشمیریوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں دہشتزدہ رہیں سنگینوں کے سائے میں بھی اور انتہا پسندوں کی یلغار کے خوف میں بھی۔

4۔کیا حکومتِ ہند چاہتی ہے کہ ہندوستان کا مسلمان ترک وطن کیلئے مجبور کر دیا جائے۔

کیوں مینے یہی 4 سوال حکومتِ ہند کے سامنے رکھے شاید rss اور حکومت سمجھ گئی ہوگی کے جس اسپین کی تاریخ کا مطالعہ اُنہونے کیا ہے اُسے کچھ حد مینے ہی نہیں ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی پڑھا ہے،عیسٰی بیلا اور اُسکے شوہر نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد تقریباً 800 برس تک حکومت کرنے والی مسلم قوم کیلئے اسپین میں جس طرح زمین تنگ کی وہ وہی 4 باتیں تھیں جو اس وقت سوالات کی شکل میں مینے آپکے سامنے رکھیں اور جنہیں آپ اسپین کی طرح بھارت میں عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔یہی کیا تھا اسپین نے اور یہی کر رہے ہیں آپ لہٰذا اُسی طرح کے مسائل مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو اسپین میں عیسٰی بیلا اور اُسکے شوہر نے اپنے اقتدار کے دوران کیے اور یہی 4 باتیں مینے اپنے سوالات کی شکل میں آپکے سامنے رکھی ہیں جانتا ہوں آپکا اِرادہ یہی ہے منصوبہ یہی ہے روڈ میپ یہی ہے حکمتِ عملی یہی ہے اور آپ گامزن اسی پر ہیں پر نہ اقرار کرینگے نہ جواب دینگے تاہم مینے یہ سوالات آپکے سامنے اسلئے رکھے کہ ذہن نشین رہے کے ہم سب جانتے ہیں وہ بھی جو آپکے دل دماغ میں ہے اور وہ بھی جو آپکے عمل میں ہے۔

ممکن نہیں ہے انمیں سے کوئی ایک بات بھی اب کوشش آپ کر کے دیکھ لیں 18 سال پہلے گجرات میں اسی روڈ میپ پر چلتے ہوئے آپنے ہندوستان کی تاریخ کا ایک بڑا زخم دیا لیکن پھر 10 برس کے لیے آپ اقتدار سے دور ہو گئے آپ دور ہی رہتے لیکن کچھ خطا  ہماری تھی کچھ ہماری قوم کے غدّار آپسے جا ملے جو ہمارے ساتھ رہکر ہماری قبر کھودتے رہے اور آپکو اقتدار کی چوکھٹ تک لے آئے لیکن اب آپکے پاس نہ تو اتنا وقت ہے کہ اپنے دور اقتدار میں تمام خوابوں کو پورا کر لیں نہ ہم اتنے انجان کے آپ بھارت کو اسپین بنا دیں اور نہ اکثریتی طبقہ کی اکثریت آپکے ساتھ پھر شاہین باغ کا حوصلا تو صرف اپنے ہی نہیں ساری دنیا نے دیکھ لیا اب مرضی آپکی کہ نظرِ ثانی کریں اپنے منصوبوں پر یا گامزن رہیں اپنے ارادوں پر بہرحال میں واپس لوٹتا ہوں اپنے سوالات پر اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ ان سوالات کا جواب نہیں دینگے میں اپنا مطالبہ دہراتا ہوں کہ ۔۔۔

 آپکو یعنی حکومتِ ہند کو ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ کیونکہ آج ساری دنیا ہندوستان کے ان حالات کی طرف دیکھ رہی ہے۔دلّی کے دنگوں کا سچ آج قومی میڈیا نہیں بینولقوانی میڈیا دکھا رہی ہے کوی نہیں حکومت سے یہ سوال کرنے والا کہ کھلے عام پولس اور شہریوں پر پستول تان دینے والا جو مسلمان تھا ہی نہیں اُسے مسلم نام دےکر تشہیر کیے جانے کا مقصد مسلمانوں کے خلاف گہری سازش کا حصہ تھا صرف مجرم کو بچانا ہی مقصد نہ تھا۔

 دنگایوں کے ہاتھوں میں ہتھیار اور پولس تماشائی یا اُنکی مددگار ۔ بے گناہ انسانوں کا قتل گھر دکان املاک نظر آتش لیکن دنگائی محفوظ اور وہ گرفت میں جنکی چھتوں پر دنگائیوں سے بچنے کے لئے اینٹ پتھر تھے۔

 کیوں جاری کرتی ہے حکومت اپنی حفاظت کیلئے ریوالور اور بندوق کے لائیسنس اگر اپنی جان بچانے کے لیے اسکے استعمال کا حق نہ ہو ۔ عدالت کا اس نتیجے پر پہنچنا کہ اگر آپکے پریوار کی جان خطرے میں ہے تو آپکو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق ہے۔ تو معمولی سے اینٹ پتھر اور دفاعی سازو سامان خطرناک اسلحہ کیسے یہ تیاری حملے کی ہے یا اپنے بچاؤ کی اس پر ایماندارانہ غورو فکر ضروری  کیوں نہیں۔ 

 گھروں کے نیچے سینکڑوں دنگائی جان لینے اور گھر جلانے پر آمادہ ہوں اور اُنہیں بھگانے کیلئے خود کو پریوار کو بچانے کیلئے اُن پر پتھر پھینکنا سنگین جرم ہے تو کیا پھول برسہ کر انکا استقبال کرنا تھا خود کو قتل کر دینے کیلئے اُنکے حوالے کر دینا تھا۔

کچھ تو کہو میری سرکار جنکے پاس زبان تھی وہ غلام ہیں اب تمھارے جنکے پاس قلم تھا انکا سر قلم یا سر نگوں تو پھر سوال کرے کون۔۔۔

کسی کو تو اٹھانے ہونگے یہ سوال دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں جمہوریت زندہ ہے بھی کہ نہیں یہ سوالات ہندوستان میں جمہوریت کی بقاء کی علامت ہیں۔ 

ایک سچ یہ بھی ہے اس وقت ہندوستانی عوام بہ شمول ہندو اور مسلمان سب سے زیادہ سرکار خوزدہ ہے شہریت ترمیمی قانون ملک اور عوام کے حق میں ہے یا خلاف ساری دنیا نے دیکھ لیا اب بتائے یہ حکومت اگر قانون حق میں ہے تو دلّی جلی کیوں۔

کچھ وقت کیلئے سچ پر جھوٹ کا ملمعہ چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے دنیا کو گمراہ کیا جا سکتا ہے لیکن حق تو پھر حق ہے سامنے آتا ہی ہے امریکہ نے ساری دنیا کو یقین دلایا کہ طالبان دہشتگرد ہیں اور پھر اُنہیں کے سامنے سر جھکا دیا۔ سمجھوتہ اُنہیں کی شرطوں پر۔

کچھ کہتی ہے یہ مثال ہم سے بھی ہمیں حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہیں ہم سچ پر جھوٹ کا ملمعہ چڑھا کر تو پیش نہیں کر رہے۔سچ تو ایک دن سامنے آئیگا ہی پھر کہاں مونہہ چھپایا جائیگا۔باتیں ذرا سخت ہیں پر کوئی تو کہے سب چپ رہے تو عظمت ہند کا کیا ہوگا۔

ابھی تک لکھ رہا تھا میں صرف شہریت ترمیمی قانون پر اب شامل ہے اسمیں تقسیمِ ہند کا وہ سچ بھی جو ثابت کرتا ہے کہ بٹوارے کا زمیدار مسلمان نہیں اور دہشت کی سیاست کا کڑوا سچ بھی۔۔۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے