کیا کریں غم کا مداوا ہم نشیں کچھ تو بتا

    ابونصر فاروق صارمؔ عظیم آبادی 
 

بے بسی بیچارگی معذوریاں اور غم
اشک اور آہیں کراہیں سکسیاں ماتم
ظلم کی سرکار میں، فرعون کے دربار میں 
سختیاں سر سے جو گزریں اُن کو سمجھیں کم
—-
بے گناہی جرم ہے مجرم کو ہے آزادیاں 
جو ستم ڈھائے اُسی کی ہر طرف دلداریاں 
جل نہ جائے گلستاں اندیشہ یہ بیجا نہیں 
اڑ رہی ہیں نفرتوں کی ہر طرف چنگاریاں 
—-
جھوٹ ہے پھر جھوٹ ہے اور جھوٹ کی تکرار ہے
جھوٹے وعدوں کو جو دیکھیں اک بڑا انبار ہے
بس فریب آرزو اور خوابوں کی سوداگری
سینکڑوں آفت بلاؤں میں گھرا نادار ہے
—-
رسم فریاد و فغاں کو ایک مدت ہو گئی
بے حسوں کو بھی فغاں سننے کی عادت ہو گئی
شکوہئ جور و ستم کب تک کریں گے بیکساں 
صنف نازک پر یہ کیسی آج آفت ہو گئی
—-
بڑھتا جاتا ہے ادھر بیمار کا درد جگر
بے مروت بے وفا پر کچھ نہیں اس کا اثر
کیا کریں غم کا مداوا ہمنشیں کچھ تو بتا
کوئی صورت اب کسی کو بھی نہیں آتی نظر
—-
اب خداوند جہاں سے ہی بس اک امید ہے
اُس کی رحمت ہی مداوا، خیر کی تمہید ہے
توبہ کیجئے اور گناہوں کی معافی مانگئے
دیکھئے گا شام غم کے بعد روز عید ہے
—-

 

«
»

’قوم پرستی‘ اور ’بھارت ماتا‘کا نشہ پلایا جارہا ہے

ہندوستان میں جمہوریت کا استحکام کیونکر ممکن ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے