گوپال، گُرجر اور گُنجا کس سے متاثر ہیں؟ کیا یہ سب ’گولی مارو کلچر‘ کی دین نہیں ہیں؟

 عبدالعزیز 
    زمین پر فساد برپا کرنے والے ہمیشہ اپنے آپ کو مصلح یا ریفارمر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دیر یا سویر ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور آخر میں بڑے بے آبرو ہوکر زندہ رہتے ہیں یا تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے دفن کر دیئے جاتے ہیں یا دفن ہوجاتے ہیں۔ 
    ہمارے ملک میں جو پارٹی سب سے زیادہ ظلم و ستم ڈھا رہی ہے اور جو اپنے آپ کو Party with difference  (پارٹی جو دوسروں سے مختلف ہے) کہتی ہے اقتدار سے پہلے یا اقتدار پانے کے بعد اس کے چہرہ سے پردہ اٹھتا رہا ہے اور اب تو بالکل اس کی ایک ایک حرکت دنیا کے سامنے عیاں ہوتی جارہی ہے۔ اس کو اب اقتدار، طاقت اور دولت بچائے ہوئے ہے ورنہ یہ کب کی راندہئ درگاہ ہوجاتی۔ 
    دہلی کے اسمبلی الیکشن میں اس پارٹی نے ہر طرح کا حربہ آزمایا مگر ہر حربہ میں اسے بالآخر شرمندگی اٹھانی پڑی۔ شرارت کھلے بھی، شرارت چھپ کر بھی، شرارت پردہ میں بھی مگر ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔ 
    پہلے ان کے ایک ایم پی کپل شرما نے شاہین باغ کو چھوٹا پاکستان کے نام سے پکارا۔ وہاں سے پاکستانی داخل ہوتے ہوئے انھیں نظر آئے۔ جب ان کی باتوں کا دہلی والوں نے مذاق اڑایا تو پرویش ورما ایم پی نے جن کے والد صاحب ورما دہلی کے وزیر اعلیٰ تھے شاہین باغ کی خواتین اور مرد کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ ان کے بارے میں بتایا کہ وہ اتنے بلوان (طاقتور) ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہونے لگیں گے تو ان کے اور دوسروں کے گھروں میں داخل ہوکر ریپ اور بلتکار (عصمت دری) ماؤں اور بہنوں کی کریں گے“۔ 
    تیسرا کردار انوراگ ٹھاکر وزیر ہند کا نمودارہوا جوکرکٹ کے بھی شوقین ہیں۔ کرکٹ کے ادارے سے کبھی جڑے رہے ہیں وہ چھکا مارنے کے چکرمیں ”گولی مارو سالوں کو“کا نعرہ دیا شاہین باغ کی خواتین اور راہل سب کو ایک سانس میں غدارِ وطن کہنے میں ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں کی۔ 
    ورما اور ٹھاکر کو الیکشن کمیشن نے قانون کی ہلکی چھڑی سے ان کی پیٹھوں پر ضرب لگانے کے بجائے اسے چھوکر اپوزیشن کے منہ کو بند کرنے کی کوشش کی۔ قابل مبارکباد ہے سی پی ایم اوران کی برندا کرات جنھوں نے پولس تھانہ میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی مگر امیت شاہ کی لاڈلی پولس بھلا کیسے امیت شاہ کے لاڈلے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہمت کرتی، لہٰذا اس نے انکار کردیا۔ محترمہ برندا کرات نے جرأت دکھائی اور دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہائی کورٹ نے پولس کو نوٹس دے کر پوچھا کہ آخر ایف آئی آر درج کرنے میں کیا قباحت یا دقت پیش آئی؟ 
    اب چوتھا کردار نقاب پوشی کی حالت میں شاہین باغ میں نظر آیا۔ پہلے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں نقاب پوشوں نے طلبہ اور طالبات پر رات کے اندھیرے میں ظلم و ستم ڈھایا۔ اب یہ دیس بھکتنی گنجا کپور نقاب میں شاہین باغ کی خواتین کی جاسوسی کرتی ہوئی پکڑی گئی۔ اپنے آپ کو مودی بھکتنی بتائی اورمودی کے ٹوئٹر میں حصہ لینے والی کو ظالم کہا۔ اچھا ہوا کہ شاہین باغ کی عقلمند خواتین نے گنجا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور چھیڑ چھاڑ سے کام نہیں لیا۔ جب وہ پکڑی گئی تو پولس درمیان میں بیچ بچاؤ کیلئے آگئی اور اسے بحفاظت شاہین باغ سے بچاکر لے گئی۔ 
    قصہ مزیدار کپل گرجر کا ہے جسے پولس محکمہ کے افسر نے پریس کانفرنس میں عام آدمی پارٹی کا آدمی بتایا۔ بعد میں بی جے پی نے اس کی خوب تشہیر کی۔ یہاں تک کہ مودی کابینہ کے ایک منجھے ہوئے وزیر پرکاش جاوڈیکر نے پریس کانفرنس کرکے اسے اروند کجریوال کی پارٹی کا خاص ممبر اور ورکر بتایا اور اس کے باپ کو بھی اس کے ساتھ جوڑ دیا مگر دوسرے روز ہی بی جے پی کے غبارے سے ہوا نکل گئی جب کپل گوجر کے باپ اور بھائی نے پریس کے سامنے صاف صاف کہا کہ کپل گرجر یا ان لوگوں کا عام آدمی پارٹی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تھوڑی بہت جو ہوا غبارے میں رہ گئی تھی اسے اروند کجریوال نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر نکال دی کہ غیر قانونی یا بدامنی کرنے والے شخص کی خواہ وہ کسی پارٹی کا ہو اسے سخت سے سخت دی جائے اور اگر وہ عام آدمی پارٹی کا ہو تو اسے اسے ڈبل سزا دی جائے۔ اسی پریس کانفرنس میں اروند کجریوال نے مجرموں کے ماں باپ کو بھی للکارا اور چیلنج کیا کہ ”اگر بی جے پی کے پاس وزیر اعلیٰ کیلئے دہلی میں کوئی چہرہ نہیں ہے اور امیت شاہ جی کہتے ہیں کہ جیتنے کے بعد وہ وزیر اعلیٰ بنائیں گے؟ تو میں ان کو دہلی کی صورت حال پر اس کے ہر مسئلہ اور ہر پہلو پر ڈیبیٹ یا ڈسکشن (بحث و مباحثہ) کی دعوت دیتا ہوں“۔ 

    مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا  ضروری نہیں۔ 
08/ فروری 2020

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے