گالی اورگولی سے بھی نہیں بچ سکتی : دلی میں بھاجپا کو لگنے والا ہے کرنٹ

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    راجدھانی دلی میں ان دنوں اسمبلی انتخابات کاہنگامہ ہے۔ تمام پارٹیاں، انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ووٹروں کو راغب کرنے میں مصروف ہیں۔امت شاہ اور نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی بھی سو اسٹارکیمپینروں اور دو سو ممبران پارلیمنٹ کے لشکرجرار کے ساتھ میدان میں ہے۔ گالی سے لے کر گولی تک،وہ ہرداؤآزمانے میں لگی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُسے سی ایم لائق ایک چہرہ نہیں ملا اور اس کے بغیر ہی وہ الیکشن لڑ رہی ہے۔ حالانکہ دہلی والوں کا موڈ پوری طرح اروند کجریوال کے ساتھ نظر آرہا ہے اور ایسا لگتا ہے کی بی جے پی کی تمام کوششیں رائیگاں جانے والی ہیں۔جیسے 2014کے لوک سبھا الیکشن میں اہل دلی نے بی جے پی کو ووٹ کیا مگر اس کے چند مہینے بعد ہونے والے اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کوجتادیا، اسی طرح اس بار کا ماحول بھی لگ رہاہے۔جنھوں نے ابھی حال میں ہوئے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی حمایت کی تھی، آج وہ ووٹر کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی الیکشن میں وہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ ہیں۔ویسے بھی لوک سبھا، ودھان سبھا اور کارپوریشن انتخابات میں دلی والے الگ الگ پارٹیوں کو چنتے رہے ہیں۔ زمینی صورت حال سے بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہے اور الیکشن کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ وزیرداخلہ امت شاہ تک سی اے اے مخالف تحریک کے مرکز شاہین باغ کو کرنٹ لگانے کی بات کر رہے ہیں۔مودی کے منتری گولی مارنے کے نعرے لگوارہے ہیں اور ایک نوجوان تو واقعی گولی مارنے جامعہ پہنچ بھی گیا تھا تو دوسرا شاہین باغ اور پھر دوافراد نے جامعہ میں فائرنگ کی۔دلی کے عوام کی اکثریت سمجھدار ہے اور وہ ایسی کوششوں کو خوب سمجھ رہی ہے۔ ایسے میں نتیجوں کے دن بی جے پی کو کرنٹ کے تیز جھٹکے کے لئے ابھی سے تیار ہوجانا چاہئے۔جھارکھنڈکے بعداسے اب دلی میں بھی درد سہناپڑے گا۔حالانکہ جھارکھنڈ میں ا سکے سامنے اقتدار بچانے کا چیلنج درپیش تھا مگر دلی میں محض تین اسمبلی سیٹیں اور عزت بچانے کا چیلنج سامنے ہے۔جھارکھنڈ سے قبل مہاراشٹر اور ہریانہ میں بھی بی جے پی کو جھٹکا لگ چکا ہے، جہاں اس کی سیٹوں میں کمی آئی ہے۔ ویسے دلی میں شکست کا پیغام دور تک جائے گااور آئندہ بیس مہینوں میں جوچھ ریاستوں کے انتخابات ہیں،ان پر اثر پڑ سکتا ہے۔اکتوبر میں بہار کا الیکشن ہے جب کہ 2021میں مغربی بنگال، آسام،تمل ناڈو، کیرل اور پانڈیچیری کے اسمبلی انتخابات ہیں۔
’لگے رہو کجریوال‘
    دلی میں جہاں بی جے پی اور کانگریس کے اسٹار پرچارکوں کی لسٹ میں بڑے بڑے نام ہیں، وہیں عام آدمی پارٹی کی لسٹ میں کوئی اہم نام نہیں۔ اس کے ممبران اسمبلی ہی اسٹارپرچارک ہیں اور پارٹی کجریوال کے کام کے سہارے انتخابی میدان میں ہے۔تاہم ان دنوں گلی گلی گونج رہا ہے ’لگے رہو کجریوال‘ گانا۔ یہ گیت عام لوگوں کی زبان پر ہے اور فیس بک سے ٹک ٹاک تک اس کی دھوم ہے۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی انتخابات کے لئے اپنی انتخابی مہم کا آغاز جس تھیم سانگ کے ساتھ کیا ہے وہ ہے ’اچھے بیتے پانچ سال، لگے رہو کجریوال‘۔ آپ نے اپنی انتخابی مہم کا
آغاز 20 دسمبر کو اس گیت کے ساتھ کیا جونعرہ بھی ہے۔حالانکہ اسی کے ساتھ ایک تنازعہ بھی شروع ہوگیا جب بی جے پی ایم پی اور دلی بھاجپا کے صدر منوج تیواری نے پانچ سو کروڑ کاہتک عزت کا دعویٰ اروند کجریوال پر کردیا۔ مذکورہ گانے کو منوج تیواری کی ایک فلم کے کچھ شاٹس پر فلماکرٹویٹر پر پیش کیا گیا تھا۔ ’لگے رہوکجریوال‘ گیت کو بالی ووڈ کے مشہور گلوکارومیوزک ڈائرکٹر وشال ددلانی نے آوازدی ہے اور کمپوز کیا ہے۔اگر گانے کا انداز دیکھیں تو سنجے دت کی فلم ’لگے رہو منا بھائی‘ جیسا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ’لگے رہو منا بھائی‘کے بجائے، ’لگے رہو کیجریوال‘ کردیاگیا ہے۔اس سے قبل، 2015 میں عام آدمی پارٹی کے لئے اشتہاری گیت ’۵سال کیجریوال‘ بھی وشال ددلانی نے ہی تیار کیا تھا، جو بہت مشہور ہوا تھا۔اس گیت کے ذریعہ، عام آدمی پارٹی نے اپنے کاموں کو گنوانے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ اس بار آپ اپنی انتخابی حکمت عملی بنانے میں پرشانت کشور کی سیاسی مشاورتی فرم I-PAC کی مدد لے رہی ہے۔حالانکہ اروند کجریوال حکومت کے کام کاج عوام کے سامنے ہیں اور اگر کام سے کسی کو ووٹ مل سکتا ہے تو دلی میں عام آدمی پارٹی کی جیت پکی ہے۔واضح ہوکہ دہلی اسمبلی کی تمام سیٹوں پر 8 فروری کو انتخابات ہیں اور 11 فروری کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
 کیا کرے گا دلی کا مسلمان؟
     دلی الیکشن میں سی اے اے مخالف مظاہروں کا مسلم ووٹ پر کتنا اثر ہوگا؟یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ سی اے اے اور ممکنہ این آر سی کے خلاف دہلی کے مختلف علاقوں میں مظاہرے جاری ہیں۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے جیسے جامعہ نگر، سیلم پور،جعفرآباد اور جامع مسجد۔یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ سی اے اے اور این آرسی مسلمانوں کے لئے جذباتی ایشو بن چکے ہیں اور کانگریس بھی اس تعلق سے کھل کر میدان میں ہے جب کہ عام آدمی پارٹی دلی میں اس لڑائی میں مسلمانوں سے خود کو الگ کئے ہوئے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجاب میں وہ اس موضوع پر جنگ میں پیش پیش ہے۔ پنجاب اسمبلی میں سی اے اے کے خلاف قرار داد پر اس نے ووٹ بھی کیا۔ ظاہر ہے کہ سی اے اے پر دلی میں سرگرمی نہ دکھانا کجریوال کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس بات کو مسلمان بھی سمجھ رہے ہیں اور ان کا رجحان بھی عام آدمی پارٹی کی طرف ہی ہے۔ آپ کے خلاف مسلمانوں میں عدم اطمینان نہیں ہے۔ کجریوال کے دور حکومت میں جو کام ہوئے ہیں،ان سے مسلمان بھی مستفید ہوئے ہیں۔
مسلم ووٹ کی اہمیت
    دلی میں مسلم ووٹ بھی اہمیت کا حامل ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، دہلی میں مسلمان، کل آبادی کا 12.8 فیصد ہیں، لیکن ہر سیٹ پر ان کی آبادی یکساں نہیں ہے۔ اضلاع کے مطابق مسلمانوں کی آبادی وسطی دہلی میں 33.4 فیصد اور شمال مشرقی دہلی میں 29.3 فیصد ہے۔ جنوبی دہلی میں، یہ 5فیصد سے بھی کم ہے۔دہلی میں چاراسمبلی حلقے مسلم اکثریتی ہیں اور 1993 سے ان حلقوں نے صرف مسلم امیدواروں کا انتخاب کیا ہے۔ مٹیا محل، بلیماران، سیلم پور اور اوکھلا۔دو اور سیٹیں ہیں جہاں کی آبادی کا 40 فیصد مسلمان ہیں، وہ ہیں مصطفےٰ آباد اور بابرپور۔ دونوں شمال مشرقی دہلی میں ہیں۔ مصطفےٰ آباد نیا اسمبلی حلقہ ہے جہاں کانگریس کے حسن احمد نے 2008 اور 2013 میں جیت پائی تھی لیکن 2015 میں وہ بی جے پی کے جگدیش پردھان سے الیکشن ہار گئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ آپ اور کانگریس کے درمیان مسلم ووٹوں کی تقسیم تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار مسلم ووٹر ماضی سے سبق لیتے ہوئے اپنے ووٹ تقسیم نہیں ہونے دینگے۔ بابر پور کی آبادی بھی اسی طرح کی ہے لیکن اس نے کبھی بھی مسلم ایم ایل اے کا انتخاب نہیں کیا۔ اس وقت آپ کے سینئر رہنما گوپال رائے اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہاں مسلم آبادی والی بہت سی دوسری نشستیں 

بھی ہیں جیسے شاہدرہ، سیماپوری، رٹھالا، چاندنی چوک، صدر بازار، جنگ پورہ، کالکاجی اور ترلوکپوری۔ظاہر ہے جب اس قدر سیٹوں پرمسلم ووٹ اہمیت کا حامل ہے تو اس ووٹ کو کوئی پارٹی نظر انداز بھی نہیں کرسکتی مگر اس ووٹ کی تقسیم کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ملے گا۔کانگریس،کہیں بھی مقابلے میں نہیں دکھائی دے رہی ہے مگر مسلم ووٹ سے اس لئے پرامید ہے کہ چند مہینے قبل ہوئے لوک سبھا الیکشن میں مسلم ووٹروں سے اسے سپورٹ ملا تھا۔
کانگریس کی اجڑگئی دلی 
    دہلی اسمبلی انتخابات 2020 سے ٹھیک پہلے کانگریس اجڑگئی ہے اور عام آدمی پارٹی نے سابق کانگریسیوں کو خوب ٹکٹ دیاہے۔ دہلی یوتھ کانگریس کے سابق صدر، جگدیش یادو نے پارٹی چھوڑ دی اور عام آدمی پارٹی میں شامل ہوگئے اور رٹھالا سے ٹکٹ بھی پالیاہے جہاں سے انہوں نے 2015 میں اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔ یادو پہلے دلی او بی سی کمیشن کے چیئرمین بھی تھے۔ اس سے قبل کانگریس کے لیڈر اور مٹیامحل نشست سے پانچ بار کے ایم ایل اے شعیب اقبال نے بھی عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور انھیں بھی ٹکٹ بھی ملاہے۔ ان کے بیٹے اور کانگریس کونسلر آلِ اقبال نے بھی آ پ کی رکنیت لی ہے۔بدر پور کے سابق ایم ایل اے رام سنگھ نیتاجی بھی کانگریس چھوڑ عام آدمی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی انتخابات کے لئے اپنے تمام 70 امیدواروں میں ایسے 9 افراد کو ٹکٹ دیئے ہیں جوابھی ابھی دوسری پارٹیوں سے آئے ہیں۔دھنوتی چنڈیل، جو کانگریس میں تھیں، ان کو عام آدمی پارٹی نے راجوری گارڈن اسمبلی سیٹ سے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ ہری نگر سے راجکماری ڈھلن کو الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا جو کانگریس چھوڑ کر عام آدمی پارٹی میں شامل ہوئی ہیں۔ بدر پور سے دو بار ایم ایل اے رہ چکے کانگریس لیڈر رام سنگھ نیتا جی کو میدان میں اتارا گیا ہے۔مغربی دہلی سے سابق کانگریس رکن پارلیمنٹ مہابل مشرا کے بیٹے ونئے مشراکودوارکا سیٹ سے میدان میں اتارا گیاہے۔ نوین دیپو چودھری بھی عام آدمی پارٹی میں شامل ہوگئے جن کی تین نسلیں کانگریس سے وابستہ رہیں۔ انہیں گاندھی نگر سے میدان میں اتارا گیا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی سے عام آدمی پارٹی میں شامل ہونے والے جئے بھگوان کو بوانا سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔چار بار کانگریس کے ممبر اسمبلی پرہلاد سنگھ ساہنی کو چاندنی چوک سے امیدوار قرار دیا گیا ہے، جبکہ بی جے پی کے سابق ایم ایل اے چودھری سریندر کمار کو گوکل پوری سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
04/ فروری2020

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے