اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم

ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے روک دو 

عبدالعزیز 

    19اکتوبر 2017ء کو عالمی شہرت یافتہ جید عالم دین جماعت اسلامی ہند کے امیر اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا سید جلال الدین عمری نے مرشد آباد کے ایک جلسہ عام کوخطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر اس ملک کے 15 ہزار افراد ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہوجائیں، کسی کو بھی ظلم کرنے نہیں دیں تو اس ملک سے ظلم ختم ہوسکتا ہے۔ مولانا بہت پائے کے عالم دین ہیں۔ بہت سے موضوعات پر مولانا موصوف کی تقریباً ساٹھ ستر کتابیں ہیں۔ ان میں سے کئی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ کئی کتابیں اپنی افادیت و اہمیت کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں۔ مولانا عمری بہت اچھے خطیب ہیں۔ باتیں تول کر کرتے ہیں اور باتیں وزن دار ہوتی ہیں۔ مولانا ظلم کے خلاف اپنی بات بیان کرتے ہوئے کہاکہ بزدلی اور پست ہمتی کے سبب جبر و ظلم کو بڑھاوا ملتا ہے۔ ظالم کو روکنے کیلئے اسلام میں بڑی تاکید اور ہدایت ہے۔ مولانا نے مشہور حدیث کے حوالے سے فرمایا کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لینا چاہئے۔ مولانا نے ایک اور حدیث بیان کی۔ فرمایا: ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم“۔صحابہ کرامؓ نے جب دریافت کیا کہ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے مگر ظالم کی مدد کیسے کی جاسکتی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ ”اسے ظلم کرنے سے روک دو، اس کا ہاتھ پکڑ لو یہی ظالم کی مدد ہے“۔ 
    مسلمانوں کی آبادی اس ملک میں 25 کروڑ سے کم نہیں ہے۔ اس وقت ان پر وہ ظلم ہورہا ہے جو فرعون کے زمانے میں بنی اسرائیل پر ظلم ہوتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو بچانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اللہ نے اپنے بندہئ خاص کی مدد کی اور فرعون کو دریائے نیل میں غرق کر دیا۔ آج مسلم ملت اگر صرف اپنے بارے میں نہ سوچے بلکہ سب کے بارے میں سوچے اور جس پر بھی ظلم ہو وہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوجائے اورظالم کوئی بھی ہو اس کا ہاتھ پکڑ لے تو لوگوں کی مظلومیت دور ہوسکتی ہے اور ظالم کے ظلم کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ 
    مولانائے محترم نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ اس ملک میں صرف مسلمان ہی مظلوم نہیں ہیں بلکہ ہر کمزور طبقہ کسان، مزدور، عورتوں اور بچوں پر مظالم ہورہے ہیں۔ اسلام کی سچی تعلیم جو انسان کو ظلم نہ کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ ہر فساد اور فتنہ کے سد باب کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی تاکید کرتا ہے۔ عدل و انصاف قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 
    ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاطف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگر چہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہار والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے“۔ (سورۃ النساء، آیت:135)
    ”اللہ تعالیٰ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے علمبردار بنو۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمربستہ ہونا چاہئے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل و راستی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کیلئے جس سہارے کی ضرورت ہے، مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم بنو“۔ 
    ”تمہاری گواہی محض خدا کیلئے ہونی چاہئے، کسی کی رو رعایت اس میں نہ ہو، کوئی ذاتی مفاد یا خدا کے سوا کسی کی خوشنودی تمہارے مد نظر نہ ہو“۔ (تفہیم القرآن)
    مسلمان اگر دنیا میں اللہ کی ہدایات اور روشن تعلیمات پر عمل کرتے ہوتے تو آج دنیا میں وہ نہ مظلوم ہوتے نہ محکوم اور نہ ہی ذلیل و خوار ہوتے بلکہ دنیا ان کے پیچھے چلتی۔ امامت اور قیادت کا دامن ان کے ہاتھ میں ہوتا۔ علامہ اقبالؒ نے سو سال پہلے مسلمانوں کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا تھا کہ  ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا …… لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 
    یہی سبق دنیا بھر کے حق پرست علماء نے ہر زمانے میں مسلمانوں کو یاد دلایا مگر مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج دنیا ان کیلئے قتل گاہ بن گئی۔ بہت سے ممالک میں تو غیروں کی سازش کے شکار ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کو قتل و خون کر رہے ہیں اوربہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں ظالم حکمرانوں نے ان کی ناک میں دم کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کو اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے۔ اور یہ سزا اس وقت تک ملتی رہے گی جب تک مسلمان اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔ توبہ و استغفار سے کام نہیں لیں گے اور جو سبق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پڑھایا ہے، بتایا ہے اس کو دل سے نہیں پڑھیں گے اور اس پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کو جان لینا چاہئے کہ ان کیلئے یہی واحد راستہ ہے، باقی وہ جتنے بھی راستے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا کریں گے وہ منزل مقصود تک نہیں لے جائے گا بلکہ گمراہی اور بربادی کی طرف لے جائے گا۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

29/ جنوری 2020

 

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے