53/سال کی عمر میں مولانا خواجہ صاحب اکرمی ندوی کاتکمیل حفظ…قابل ستائش اور قابل تقلیدبھی

مفتی فیاض احمدمحمود برمارے حسینی 

    ایک سچے مسلمان کی علامت یہ ہے کہ وہ جب کسی حافظ قرآن کودیکھتا ہے،یا ملتا ہے تو اسے دلی سکون اور مسرت حاصل ہوتی ہے،اس لئے کہ حافظ قرآن کا سینہ اللہ کوبہت پسند ہے،اللہ تعالی اپنے کلام کی حفاظت کے لئے جن سینوں کومنتخب کرتے ہیں وہ سب سے افضل اور اعلی ہوتے ہیں،حافظ قرآن کااکرام وحفاظت اللہ کے ذمہ ہے،اسی طرح حافظ قرآن کے والدین بھی اللہ کے نزدیک عزت وشرف کے مستحق ہیں۔
    دنیا کے ہرکونہ میں قرآن کریم کے حافظ نظرآتے ہیں،کہیں کم توکہیں زیادہ،یہاں تک کہ یوروپی ممالک میں حفظ قرآن کا شوق حیرت انگیزہے،ہمارے ملک میں بھی حافظ بننے کا شوق یاوالدین کے دلوں میں اپنے بچوں کوحافظ بنانے کے شوق میں بدرجہ اتم موجود ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے بعض علاقوں میں دنیوی تعلیم کے غلبہ کی بناء پر اس شوق میں کمی نظرآتی ہے،البتہ اس کمی کومکمل کرنے کے لئے ارباب علم وفکر عصری درسگاہوں کے طلبہ کے لئے حفظ قرآن کے نظام کی فکر اور کوشش کررہے ہیں اور اس میں انھیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہورہی ہے،لیکن بعض علاقے وہ ہیں جہاں پر حفظ قرآن کے شوق میں دن بدن اضافہ ہی ہوتے جارہا ہے،جہاں نہ صرف چھوٹے بچے بلکہ نوجوان،بوڑھے بھی حفظ قرآن کی سعادت سے سرفراز ہورہے ہیں،انھیں علاقوں میں شہر بھٹکل کانام سب سے آگے ہے،یہ علاقہ دینی مزاج ودینی ماحول کااعلی نمونہ ہے،اس علاقہ میں علماء کی ایک بڑی تعداد موجودہے توحفاظ کی تعداد بھی کم نہیں،نیز مردوں میں حفاظ نظرآتے ہیں توعورتوں اور بچیوں میں بھی بے پناہ حفظ قرآن کا شوق پایا جاتا ہے،عام طورپرحفظ قرآن کرنے والے دیگر مصروفیات سے صرف نظرکرتے ہوئے صرف اور صرف قرآن کے لئے یکسو ہوجاتے ہیں،اس کے باوجود ان میں سے جب کوئی بہت قلیل مدت میں حفظ مکمل کرتا ہے تولوگ اسے مبارکبادی پیش کرتے ہیں،اس کی تعریف اور مدح سرائی میں زمین وآسمان ایک کردیتے ہیں،لیکن ایک مصروف ترین شخص جودن کااکثر حصہ درس وتدریس میں مشغول رہے،جس کے کاندھے پر قضاء کی ذمہ داری کا بوجھ ہو،امامت وخطابت کی عظیم خدمت بھی اس سے متعلق ہواور عمر بھی نصف صدی سے تجاوز کرچکی ہو،تصنیف وتالیف بھی مشغلہ ہوجو جنوبی ہند کے مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کامؤقراستاذحدیث وفقہ ہو،خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل کا چیف قاضی ہو، ایساشخص جب حفظ قرآن کی دولت سے مالامال ہوتا ہے وہ بھی صرف آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں توعقل حیران رہ جاتی ہے،یہ سوال دل ودماغ کے دروازہ پر مسلسل دستک دیتا ہے کہ ایسے مصروف شخص کے لئے یہ کیسے ممکن اورآسان ہوگیا؟لیکن اس کا جواب یہ صاحب کیا دیں بلکہ ایسے موقع پر نظروں کے سامنے قرآن کریم کی آیت”ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر“گردش کرتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہے کہ قرآن کریم کے حفظ میں آسانی اور سہولت صرف چھوٹے بچوں کے ساتھ نہیں بلکہ ہرکوشش کرنے والے بڑے بوڑھے کے لئے ہے۔
    جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کے ابتدائی تدریسی سالوں میں میرے ذمہ جو درسی کتابیں تھیں ان میں ”تحفۃ الاخوان“ بھی تھی،اس کتاب کے مصنف جامع مسجد ممبئی کے سابق امام وخطیب مولانا ابراہیم باعکضہ ہیں اور اس کوجدید انداز میں ترتیب دینے والے مولاناخواجہ صاحب اکرمی ندوی ہیں،سب سے پہلی اورغائبانہ ملاقات اسی وقت ہوئی،دوران تدریس اس کتاب میں کچھ کمپوزنگ ودیگر اغلاط پر نظرپڑی تومیں نے ایک خط مولانا کے نام لکھا جس میں ان اغلاط کی طرف نشاندہی کی،اور دوسرے ایڈیشن میں یہ کتاب اصلاح کے ساتھ منظرعام پرآئی،یہ محبت کی ابتداء تھی،جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں تدریب افتاء کے قیام کے بعد مولانا انصار مدنی کے ساتھ مولاناخواجہ صاحب مدنی کو بھی محاضرات کے لئے دعوت دی گئی،یہ دونوں حضرات تشریف لائے یہ باقاعدہ پہلی ملاقات تھی،پھر ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا،اور مولانا کے علم وعمل اور خاص طورپر فقہی ذوق کی بناء پر مولانا کی عقیدت واحترام میں مزید اضافہ ہوتا گیا،اس تعلق ومحبت کی رودادکواس وقت سمیٹناآسان نہیں ہے،لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی مجھے اپنے دل کی بات مولانا سے کہنے میں کبھی کوئی جھجھک
محسوس نہیں ہوئی اور میرا گمان ہے کہ مولانا بھی مناسب موقع پر اپنے دل کی بات بھی مجھ سے کہنے میں حرج محسوس نہیں کرتے،لیکن مجمع الامام الشافعی العالمی کے پہلے سیمنار کی کامیابی میں مولانا کی بے انتہاء کوششوں کے بعد امسال جب دوسراسیمنارجامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں طے ہوا،اور اس کے سوالات مرتب ہوئے،مقالہ نگار حضرات کے مقالات موصول ہونے لگے،ان ایام میں مولانا سے جب بھی میں مقالہ کے سلسلہ میں استفسار کرتا تو مولانا کہتے میں دوسرے ایک کام میں مشغول ہوں،اس مرتبہ مجھے معاف کیاجائے،بلکہ یہاں تک کہتے کہ سیمنار میں میری حاضری مشکل ہے،مولانا کی یہ باتیں سن کر میں پریشان ہوجاتا اور دل میں یہ خیال پیدا ہوتا کہ آخرمولانا کیوں ناراض ہوگئے ہیں؟ان کے دل کو کیا تکلیف پہنچی ہے،پھر سوچتا کہ ممکن ہے مولانا کسی اہم تصنیف میں مصروف ہیں،لیکن مجمع الامام الشافعی العالمی کے جنرل سکریٹری مولانا عبیداللہ ابوبکر ندوی صاحب کے شدید اصرار کے بعد مولانا نے جب مقالہ لکھا تودل باغ باغ ہوگیا، پھر بندے کی حقیر گذارش پر زکاۃ کے مسائل کے متعلق عرض مسئلہ بھی سیمنار میں پیش کیا،جب مولانا سیمنار ہال پہنچے اور میری ملاقات ہوئی تومولانا نے میرے کان میں خوشی خوشی یہ کہاکہ میراحفظ قرآن مکمل ہوگیاہے،میں بالکل سکتہ میں آگیا،خوشی بھی ہوئی،تعجب بھی ہوا،حیرت بھی ہوئی،اور پورے سیمنار میں جب بھی مولانا پر نظر پڑتی مولانا کاحفظ قرآن مجھے یاداآتا،اور میں سوچنے لگتا کہ مولانا جس عظیم کام کومجھ سے چھپاتے رہے وہ یہی کام تھا،نہ تصنیف تھی اور نہ کوئی تحقیقی کام،نہ ناراض تھے اور نہ ان کوئی تکلیف پہنچی تھی۔
     مولانا کے اعزاز میں جومجلس سجائی گئی تھی اس کے وہ حقدار بھی تھے،اس لئے کہ مولانا نے جس محنت ولگن کے ساتھ اس کام کوانجام دیا ہے اس کاندازہ لگانا مشکل ہے،اس لئے کہ ایک مدرس جب پانچ یا چھ گھنٹہ درس دیتا ہے توفطری طور پر وہ تھکان محسوس کرتا ہے،اس کے باوجود دیگر کاموں کے ساتھ جس عزم وحوصلہ کے ساتھ مولاناقرآن کے ہوگئے اس پر بہت بہت مبارکبادی کے مستحق ہیں،اس اعزازی نشست میں یوٹیوپ کے واسطہ سے میں شریک رہا،مولانا کے تاثرات کوسن کر شاید ہی کوئی ہوگا جس کے دل میں حفظ قرآن کا شوق پیدا نہ ہوا ہو،یقینا مولانا پہلے ہی بہت سی ستودہ صفات وکمالات میں اپنا مقام رکھنے کی بناء پر قابل ستائش اور قابل تقلید تھے ہی لیکن اب وہ غیر حفاظ کے لئے خاموشی کے ساتھ بہت بڑا پیغام دیتے ہوئے مشعل راہ اور نشان منزل بن گئے ہیں،اس نشست میں سارے ہی اہل علم کی باتیں متاثرکن رہیں لیکن مولاناالیاس صاحب جاگتی ندوی کاوہ جملہ جس میں مولانا نے سمندرکوکوزہ میں سمودیا کہ”آج سے بہانہ کرنے والوں کے بہانہ ختم ہوگئے“یہ جملہ ایک تاریخی جملہ ہے جس سے میرے اندر یہ احساس پیدا ہوگیا کہ باوجود مجھے حافظ قرآن ہونے کے تلاوت قرآن کے سلسلہ کوتاہی پر اپنے تدریسی وعلمی بہانہ ختم کرکے تلاوت کا معمول بنالینا ضروری ہے،نیز یہ جملہ صرف حفظ قرآن سے متعلق ہی نہیں بلکہ ہرمیدان میں کام کرنے والوں سے مخاطب ہے کہ اب بہانے بہت ہوگئے،سارے بہانوں کوچھوڑکر کام کرنے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
    مولاناخواجہ صاحب کے حافظ قرآن بننے پر جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کے اساتذہ وطلبہ،ابناء وذمہ داران خوشی ومسرت کااظہارکرتے ہیں،مولانا کی خدمت میں مبارکبادی پیش کرتے ہیں،اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی مولانا کوصحت و عافیت کے ساتھ خوش وخرم رکھے،آپ کے علمی فیض سے امت کوفیضیاب فرمائے۔    

    مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

«
»

سنبھل کا پکا باغ۔ دوسرا شاہین باغ

یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے