یونیورسٹیز پر حملہ فاشزم کی طرف بڑھتا ہوا ایک قدم

محمد شاہ نواز عالم ندوی

اس وقت پورے ملک میں ایک کھیل کھیلا جارہاہے۔ کھیل بھی اتنا خفیہ اور خطرناک ہے کہ اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے پس پردہ راز سے ناواقف ہیں تو عوام الناس کیوں کر اس سے واقف ہوں گے۔ مسلمانوں میں سیاسی شعور اور قیادت کے فقدان نے تو سب کچھ تباہ وتاراج کردیا ہے۔ اس وقت جو حالات ہیں یہ اچانک پیدا نہیں ہوئے ہیں اس کے لئے فسطائیت، فاشزم اور برہمنیت نے گزشتہ ایک صدی سے انتھک کوشش کی ہے، رات دن ایک کیا ہے، ہر نشیب وفراز کو عبور کیا ہے، اس کے لئے ہر وہ ہتھیار استعمال کیا جس کی اس کو ضرورت پڑی، اس نے کسی چیز کی پروا نہیں کی، اس مشن پر گامزن افراد واراکین نے عزت وآبرو کی طرف کبھی نہیں دیکھا، نہ بھوک دیکھی اور نہ پیاس، نہ نرم وگرم بستر اور آرام وآسائش سے بھرا گھر، ہر چیز داؤ پر لگادی۔ تب جاکر اس کو یہ دن نصیب ہوا ہے اور بھارت میں یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ اقتدار پر قبضہ کا مقصد ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنا نہیں بلکہ فاشزم اور فسطائیت کا خول اس پر ڈالنا ہے۔ ملک کو اس رنگ میں رنگنا ہے جس کی تمنا میں کتنوں نے اپنی جانوں کی بلی دے دی اور کتنوں کی عزتیں نیلام ہوگئیں (اگرچہ کہ عزت نام کی کوئی چیز فاشزم کے علمبرداروں کے پاس سرے نہیں ہے) بہر حال ایک نظر حالات حاضرہ پر ڈال کر آگے بڑھتے ہیں۔ 
حکمرانوں کا طریقہئ کار: موجودہ حکومت نے سال گزشتہ دسمبر میں دونوں ایوانوں (ایوان زیریں اور ایوان بالا) سے اس وقت ایک متنازع بل منظور کرایا جب ملک کی شرح نمو 40/سالہ ریکارڈ توڑکر سب سے نچلی سطح پر تھی، بے روزگاری کے سروے رپورٹ میں ملک کا نام صف اول میں تھا، تعلیمی زبوں حالی کی تصویر خود ملک کی یونیورسٹیاں پیش کررہی تھیں، این ڈی ٹی وی کے رپورٹ کے مطابق شمال مشرقی بھارت کی 40/یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن میں تدریسی عملہ کی 40/فیصد نشستیں خالی ہیں اور مدتوں سے خالی ہیں۔ فیکٹریوں کا دیوالیہ ہوگیا تھا، ملک کی مشہور کمپنیاں بند ہورہی تھیں، برسر روزگار بے روزگار ہورہے تھے۔ یہ وہ مسائل تھے جن پر حکومت کو اولین فرصت میں توجہ دینا چاہئے تھی۔ لیکن حکومت کو ملک کی ترقی یا تنزلی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تخت حکومت پر جلوہ افروز افراد کو تو اپنے اس خواب کی تعبیر سے مطلب ہے جو وہ ایک صدی سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے اس نے فوراً ”شہریت ترمیمی بل(سی اے اے)“ کے نام سے ایک بل پیش کیا جو اب قانون بن چکاہے اور اسی دوران وزیر داخلہ نے یہ اعلان بھی کردیا کہ اس قانون کے بعد نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزن (این آر سی) کا نفاذ عمل میں آئے گا۔ اس کے بعد ملک کے شمال وجنوب، مشرق ومغرب میں ایک بھونچال سا آگیا۔ عوام الناس سڑکوں پر اتر آئے، یونیورسٹیز نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ طلبہ وطالبات نے لاٹھیاں کھائیں، گولیاں چلیں، جانیں گئیں، کسی کے ہاتھ ٹوٹے، کسی نے پیر گنوائے تو کسی کی آنکھیں نذر ہوگئیں۔ لیکن یہ سلسلہ جاری رہا اور سال نو کے بعد بھی جاری ہے۔ آخر یہ سب کرنا کیوں پڑا؟ اس سے حکومت کے عہدوں پر براجمان افراد کا کیا فائدہ ہے؟ جس کے حصول کے لئے اس نے آنکھ، کان سب بند کرلئے ہیں۔ یہی وہ سوالات ہیں جو سب سے زیادہ پریشان کن ہیں اور جواب طلب ہیں۔
 ذرا نظر ڈالئے جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولس کی سرکردگی میں دہشت پسندبلوائی گھس آتے ہیں اور خود پولس طلبہ وطالبات پر حملے کرتی ہے، لائبریری اور دیگر اثاثہ جات کو نقصان پہنچایا جاتاہے۔ وہاں موجود افراد کہتے ہیں کہ جامعہ میں پولس نے گولی چلائی تھی جس سے متعدد طلبہ وطالبات زخمی ہوئے ہیں اور کسی کی آنکھ اور کسی کے ہاتھ پیر کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن دہلی پولس کے چیف ابتدا میں اس سے انکار کرتے ہیں بعد ازاں قبول کرلیتے ہیں۔ بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کے متعدد طلبہ کو جیلوں میں بھر دیا جاتاہے۔ اس پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے اور اب 5/جنوری کی شام ملک کی مقتدر اور معتبر یونیورسٹی ”جواہرلال نہرو“ (جے این یو) میں پولس، سکیورٹی گارڈ اور یونیورسٹی کے منتظمین کی نگرانی میں بلوائیوں نے توڑپھوڑ مچائی، طلبہ وطالبات کو نشانہ بنایا، لیکن عجب بات ہے کہ یونیورسٹی کے منتظمین اور دہلی پولس نے خود انہی طلبہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے جو زخمی ہیں اور اپنی جان کے تحفظ کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ منصوبہ بند اس حملہ کی پوری تصویر آئینہ کی طرح صاف وشفاف ہے۔ لیکن وہی ہورہاہے جس کی کم از کم ہمارے اس ملک میں توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ عمر خالد، کنہیا اور ان کے ساتھیوں پر صرف اس بنیاد پر مقدمہ چلایا جاتا ہے کہ اس کی سرکردگی میں منعقدہ جلسہ میں ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگے تھے۔ علی گڑھ میں پولس اس لئے گھس کر کارروائی کرتی ہے کہ امن کو خطرہ تھا، یوپی میں لوگوں کے نام عدالتی نوٹس اس لئے جاری ہوتا ہے کہ احتجاج میں ان کی وجہ سے تشدد پھوٹ سکتاہے۔ لیکن قابل حیرت اور افسوس وشرمناک بات یہ ہے کہ وائس چانسلر، سکیورٹی گارڈ اور خود پولس کے بیان کے مطابق جے این یو میں حملہ آور جب آئے تھے اور پوری کارروائی کی وقت بہ وقت ان کو خبر تھی بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے ساری کارروائی کی گئی تھی۔ مانا کہ وائس چانسلر کو اپنی جان کا خطرہ تھا، تسلیم کہ سکیورٹی گارڈ بے بس تھے لیکن پولس نے عزم کررکھا ہے کہ دہشت گردی کو ملک سے ختم کرکے رہیں گے اور پولس چیف نے بتایا ”ہم نے جے این یو کے آدرش ہاسٹل اور سابرمتی ہاسٹل کے دہشت گردانہ حملہ کے وقت حملہ آوروں کو سرینڈر کرنے کو کہا“ گویا اس کے سامنے یہ سب کچھ ہورہا تھا۔ لیکن کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اور کسی کی شناخت نہیں ہوسکی، سب سے عجب بات یہ ہے کہ اسٹریٹ لائٹس بجھا دی گئی تھیں، آخر کس نے لائٹس بجھائیں اور کیوں؟ این ڈی ٹی وی نے ایک ویڈیو دکھایا جس میں حملہ آور حملے کے بعد انتہائی سکون کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ این ڈی ٹی وی اینکر نے اس پر تبصرہ کچھ اس طرح کیا ہے ”ویڈیو میں دکھ رہے افراد اس طرح جارہے ہیں جس طرح کسی پارٹی سے واپس آئے ہیں، شام کی چائے نوشی اور پان وان کھاکراپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے بھی ہیں۔ لیکن پولس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔“ آخر کیوں؟ 
مسلمانوں سے نفرت وعداوت: دراصل حکومت اور مرکز کے زیر نگرانی تمام عہدوں پر فائز تمام افراد ایک خاص طبقہ اور ذات سے تعلق رکھتے ہیں جو درحقیقت ملک میں سب سے چھوٹی اقلیت ہے، جس کو برہمنیت کے نام سے یاد کیا جاتاہے اور حالات کی خرابی میں انہی افراد کی محنت ہے اور انہوں نے ہی گزشتہ ایک صدی سے اپنا تن من دھن سب کچھ اس کے لئے قربان کیا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کو اپنے برتر ہونے کازعم اتم درجہ میں ہے، جو اپنے علاوہ تمام اقوام عالم کو اپنا غلام سمجھتی ہے، ان کے پاس ایک اصول ہے، ایک قاعدہ قانون ہے، جس کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہے، اس قوم کو یہودیت سے بہت زیادہ مشابہت ہے اور دونوں قوموں (یہود وہنود) کے طریقہ کار افکار وخیالات میں بھی یکسانیت ہے۔ اس قوم کو صرف مسلمانوں سے بیر نہیں بلکہ پوری دنیا میں آباد تمام قوموں سے ہے۔ مسلمانوں سے سب زیادہ عداوت ودشمنی اس لئے ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے جس کے پاس رب کائنات کی طرف سے نازل کردہ کتاب اور ہدایات ورہنمائی ہے جس کی روشنی میں اپنی بقا اور مذہب وانسانیت کے تحفظ میں مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرسکتاہے۔ اس کی تاریخ انتہائی روشن وتابناک ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ اسلام اور مسلمان ہی اس کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے ورنہ وہ پسماندہ طبقات کی قطعی پروا نہیں کرتی۔مولانااسرار عالم صاحب نے اپنی کتاب ”بین الاقوامی ایجنسیوں کا تعارف اور ان کا طریقہئ کار“ میں دشمنی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے کشمش دو طرح کی ہیں ایک عارضی اور دوسری دائمی، عیسائیوں سے کشمش عارضی ہے اور اس کا انحصار دنیاوی نظام کو لے کر ہے۔ لیکن یہود وہنود (برہمن) سے کشمش دائمی ہے کیوں کہ یہ کشمش کسی عقیدہ یا ایمان کی بنیاد پر نہیں بلکہ نسل کی بنیاد پر ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ”یہ دونوں قومیں نسلی تفوق کی بنیاد پر قائم ہیں، کوئی شودر، ویشیہ یا چھتری خواہ کتنا ہی کھرا ہندو ہوجائے وہ نہ برہمن ہوسکتاہے نہ برہمن کی مذہبی مراعات پا سکتاہے۔ اسی طرح کوئی غیر ہندو اگر ہندو مذہب قبول کرلے تو وہ ممکن ہے چھتری، ویشیہ یا شودر میں سے کسی طبقہ میں شامل کرلیا جائے۔ لیکن وہ برہمن نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ دیانت ہنود کی بنیاد عقیدہ نہیں بلکہ نسل ہے۔“ انہوں نے مزید انکشافات کئے ہیں جس کا یہاں موقع نہیں۔ 
فاشزم کی طرف بڑھتاہوا ایک قدم: مذکورہ سطور میں ہم نے چند سوالات قائم کئے ہیں۔ان پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ حکومت کے کارندوں اور برسراقتدار فسطائی طاقتوں کا مطمح نظر صرف اور صرف ملک پر فاشزم کا قبضہ ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال سے اس کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یونیورسٹیز پر حملہ دراصل اسی فاشزم کی طرف ایک قدم ہے۔ کیوں کہ علم وہنر اور حالات کو سمجھنے کے لئے تعلیم گاہیں اصل ہیں اور ایک سروے کے مطابق جامعہ ملیہ اسلامیہ، اے ایم یو اور جے این یو میں 40/فیصد سے زیادہ طلبہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو انتہائی پسماندگی کے شکار ہیں۔ ظاہر ہے ان یونیورسٹیز کے وقار کو اگر مجروح کردیا جائے اور گاہے بگاہے ان پر حملہ کرکے اس کو تباہ کردیا جائے تو یہ خود بخود دم توڑ دیں گی اور پھر تعلیم گاہیں جب ختم ہوں گی تو علم وہنر خود بخود ختم ہوجائے گا اور جب علم ختم ہوگا تو بھارت کی اکثریت کی حالت بھیڑ بکریوں کی سی ہوجائے گی جو بلا چوں وچرا اپنے آقا کے حکم پر ادھر جائیں گے جہاں اس کو لے جایا جائے گا۔ یہ ایک گہری اور دور رس نتائج کی حامل سازش ہے جس کو سمجھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس تعلق سے سب سے اولین اور بڑی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سازش کو سمجھیں اور تاریخ کے اوراق سے اس کا موازنہ کرنے کی کوشش کریں اور برادران وطن کو خطرناک مستقبل سے آگاہ کریں۔ صلاح الدین ایوبیؒ کا مقابلہ اسی طرح کی سازشوں سے تھا۔ سقوط اندلس کے موقع پر دشمنوں نے جن چیزوں ترجیحی طورپر برباد کیا وہ یونیورسٹیاں اور لائبریز تھیں۔ اللہ حفاظت فرمائے۔ (یو این این)

 

«
»

شاہین باغ مظاہرہ : پُر دم اگر تو،تو نہیں خطرہ افتاد

آر ایس ایس غلام نہیں بنا سکتی، اگر تحریک کا مقصد آئین کا تحفظ ہو..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے