ملک کوکہاں لے جائے گی، طلبہ کے خلاف حکومت کی جنگ؟

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 ہمارے بچپن میں نالائق طلبہ کی پٹائی اساتذہ کرتے تھے مگر اب اس کام کے لئے پولس آتی ہے۔پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں پولس نے داخل ہوکر طلبہ کی بری طرح پٹائی کی۔ اس کے بعد پولس اور حکومت کی ملی بھگت سے 5جنوری کی رات دلی کی ہی جواہر لعل یونیورسٹی میں ’نقاب پوش راشٹروادیوں‘ نے طلبہ کو ہاسٹل کے اندر داخل ہوکر مارا پیٹا اور آرام سے واپس چلے گئے۔ایک انٹرنیشنل ویب سائٹ کے مطابق’لاٹھیوں، ڈنڈوں اور راڈز سے لیس درجنوں نقاب پوش نوجوان یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئے اور انہوں نے طلبہ اور اساتذہ کو بری طری سے مارا پیٹا۔ اس تشدد میں طلبہ یونین کی صدر آیشی گھوش سمیت کم از کم 34 افراد شدید زخمی ہوئے ہیں، جن کا دلی کے ہسپتالوں میں علاج  جاری ہے۔ محترمہ گھوش کے سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں جبکہ کئی سینیئر پروفیسرز بھی زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں نے گرلز ہاسٹل میں گھس کر طالبات کو زد و کوب کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی۔ پولیس نے اس سلسلے میں مقدمہ درج کر لیا ہے تاہم ابھی تک کسی کی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی  ہے۔طلبہ کا الزام ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق دائیں بازو کی سخت گیر طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میں یہ سب ہوتا رہا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔‘

پولس کو نہیں ملے غنڈے
    جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں حملے کے بعد میڈیا نے غنڈوں کی پہچان کی اور ان کی تفصیلات بھی بتائیں مگر پولس کسی بھی سراغ تک نہیں پہنچ پائی اور کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا بلکہ زخمی آئشی گھوش کو ہی ملزم بنادیا۔ 6 جنوری کو دہلی پولیس کی طرف کہا گیا کہ’جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہونے والے تشدد کی تحقیقات کے زاویہ سے ہر پہلوکی سنجیدگی سے تحقیقات کی جا رہی ہے اور ا س میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پورے معاملہ کی جانچ دہلی پولیس کی کرائم برانچ کو سونپ دی گئی ہے۔‘

پورے ملک میں احتجاج
    رات کو جیسے ہی جے این یو کی خبریں میڈیا میں آنی شروع ہوئیں کئی شہروں میں یونیورسٹیوں کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔دہلی میں دیر رات تک پولیس ہیڈ کوارٹرز کے باہر مظاہرہ ہوا۔ ممبئی میں لوگ گیٹ وے آف انڈیا کے پاس جمع ہوئے اور رات بھر دھرنے پر بیٹھے رہے۔ دوسرے دن فلمی ہستیاں بھی حرکت میں آئیں اور احتجاج کیا۔ علاوہ ازیں دہلی، کولکتہ، بنگلورو، ممبئی، حیدرآباد، لکھنؤ اور بنارس سمیت ملک کے بیشتر شہروں اور ریاستوں میں بڑی تعداد میں طلبہ اور اساتذہ نے جے این یو کے واقعے کی مذمت میں احتجاج کیا۔اپوزیشن کے سیاسی لیڈران بھی متحرک نظر آئے۔ زخمی طلبہ کی عیادت کرنے اسپتال پہنچنے والوں میں پرینکا گاندھی، ورنداکرات، سیتا رام یچوری، سلمان خورشید شامل تھے۔
 جامعہ کے اسٹوڈنٹس پر مظالم کی داستان
    گزشتہ15دسمبرکو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اور طالبات کوبھی پولس نے یونیورسٹی میں گھس کر بری طرح پیٹا تھا۔ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ حالانکہ پولس نے ان اسٹوڈنٹس کو بھی پیٹا جو احتجاج میں شامل نہیں تھے اور یونیورسٹی لائبریری میں مطالعے میں مصروف تھے۔ کسی یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے پولس کو انتظامیہ سے اجازت لینی پڑتی ہے مگر وزیراخلہ امت شاہ کے ماتحت کام کرنے والی دلی پولس نے اس کی بھی ضرورت  محسوس نہیں کی۔ پولس کے بہادر جوان لائبریری میں داخل ہوئے اور اسٹوڈنٹس کو لاٹھی، ڈنڈوں، لاتوں اور گھونسوں سے پیٹنا شروع کردیا۔ ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ پولس نے انھیں بھی پیٹا جو ٹوائلٹ میں تھے۔ یہاں تک کہ استنجا خانے کے دروازے بھی پولس والوں نے بوٹوں سے توڑ دیئے۔ یہاں اب بھی دیواروں پر خون کی چھینٹیں موجود ہیں جو پولس کے ظلم وستم کی داستان زبان حال سے بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس بیچ لائٹ آف کردی گئی اور لڑکیوں کا الزام ہے کہ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر پولس والوں نے انھیں ہراساں کیا۔ جامعہ سے کم از کم پچاس طلبہ کو پولس پکڑ کر تھانے لے گئی۔ ان میں سے بعض کی حالت بہت زیادہ خراب تھی مگر انھیں اسپتال لے جانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ انھیں تب چھوڑا گیا جب جامعہ، جے این یواور ڈی یو کے طلبہ اور شہریوں نے پولس ہیڈ کوارٹر کے سامنے دھرنا دیا اور انھیں ملک وبیرون ملک سے حمایت ملنے لگی۔ حال میں پولس نے قبول کیا ہے کہ اس نے جامعہ میں گولیاں بھی چلائی تھیں جو کسی کو بھی نہیں لگیں۔ 

’میں تو مسلمان بھی نہیں‘
    دلی میں ہنگامہ تب شروع ہوا جب شام کو، دہلی کے جامعہ نگر سے متصل سرائے جولینا کے قریب تین ڈی ٹی سی بسوں کو آگ لگا دی گئی مگر اس واقعے میں جامعہ کے کسی طالب علم کے شامل ہونے کا کوئی ثبوت اب تک سامنے نہیں آیاہے۔اس واقعے کے بعد پولیس یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور طلبہ پر حملہ کیا۔ جھارکھنڈ کے رانچی سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ میڈیا کے سامنے آئی اور اس نے روتے ہوئے بتایا کہ جب یہ سب شروع ہوا تو ہم لائبریری میں تھے۔ ہمیں سپروائزر کا فون آیا کہ کچھ گڑبڑ ہوگیا ہے۔ میں وہاں سے جانے ہی والی تھی جب طلباء کا ایک گروپ جلدی بازی میں اندرآگیا اور 30 منٹ میں لائبریری بھر گئی۔ میں نے کچھ لڑکوں کے سروں سے خون نکلتے دیکھا۔ کچھ پولیس والے اندر آئے اور زور زورسے گالی گلوج کرنے لگے۔ انھوں نے سب کو باہر جانے کو کہا۔ میں اپنے ہاسٹل کی طرف  جانے لگی۔ میں نے دیکھا کہ لڑکے سڑک پر گرے پڑے ہیں۔ وہ بے ہوش تھے۔ طالبہ نے مزید کہا، جب ہم جارہے تھے تو ہمارے ہاتھ اوپر تھے۔ آخر کار میں ہاسٹل پہنچ گئی۔ کچھ دیر بعد کچھ لڑکے دوڑتے ہوئے، ہمارے ہاسٹل آئے اور کہا کہ خواتین پولیس اہلکار یہاں لڑکیوں کو پیٹنے آرہی ہیں۔ میں ان سے بچنے کے لئے کہیں اور چلا گئی۔ کچھ دیر بعد میں ہاسٹل واپس آگئی۔ میں نے دیکھا کہ لڑکوں کے کپڑے خون سے سنے ہیں۔ اس طالبہ نے روتے ہوئے کہا، ہم سوچتے تھے کہ طلبہ کے لئے دہلی سب سے محفوظ جگہ ہے اور یہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے۔ میں سوچتی تھی کہ ہمارے لئے یونیورسٹی سب سے محفوظ ہے، ہمارے ساتھ کبھی بھی کچھ نہیں ہوگامگر ہم ساری رات روتے رہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اب میں پورے ملک میں کہیں بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہی ہوں۔ میں مسلمان بھی نہیں ہوں، پھر بھی میں پہلے دن سے ہی کھڑی ہوں، میں کیوں لڑ رہی ہوں؟ اگر ہم حق کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں تو ہماری اسٹڈی کا کیا فائدہ ہے؟
جب ایک لڑکی نے انسٹاگرام پر مدد طلب کی
     طلباء کا الزام ہے کہ پولیس زبردستی یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور آنسو گیس کے گولے داغے۔ جامعہ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی صفت نے 15 دسمبر کی شام انسٹاگرام پر ویڈیو پوسٹ کرکے مدد طلب کی۔ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو میں صفت نے کہا تھا کہ ہماری مدد کریں۔ ہمیں خطرہ ہے۔ یہ لوگ (پولیس والے) ریڈنگ ہال میں داخل ہوئے ہیں، شیشے توڑ دیے ہیں اور آنسو گیس چھوڑ رہے ہیں۔ ہم لائٹس بند کرکے یہاں چھپے ہوئے ہیں۔ صفت نے بتایا کہ ان سب کا احتجاج بالکل پرامن تھا۔تشدد پولیس نے کیا۔ اس نے کہا کہ لڑکوں کو نیچے بٹھاکران کو ڈنڈے مارے گئے۔صفت کا کہنا ہے کہ اب یونیورسٹی کیمپس میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کر رہی ہوں۔ بہت سے جامعہ کے طلباء کی طرح، وہ بھی گھر واپس جانے پر مجبور ہے۔
منہاج نے آنکھ گنوائی
      جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشدد کے دوران زخمی ایک طالب علم منہاج الدین کی ایک آنکھ چلی گئی ہے جب کہ دوسری آنکھ انفیکشن کا شکار ہے۔ پولس نے اس کی پٹائی کرتے ہوئے اس کی آنکھ کو نشانہ بنایا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ جامعہ کا طالب علم ہے اور جس روز تشدد برپا ہوا، وہ بھی جامعہ میں موجود تھا۔ ریاستی کانگریس کے صدر سبھاش چوپڑا اور سابق وزیر اروندر سنگھ لولی طالب علم کی حالت جاننے اور اس کی خیریت معلوم کرنے کے لئے اس کے گھر پہنچے۔ ادھر دلی وقف بورڈ کے چیئرمین اور اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ منہاج الدین کو وقف بورڈ میں ملازمت دینگے۔ 

حوصلہ اب بھی قائم ہے
    ایک طرف توپولس نے اسٹوڈنٹس کی پٹائی کی اور دوسری طرف جن لوگوں کے خلاف مقدمے قائم کئے گئے،ان میں بھی کچھ یونیورسٹی کے طلبہ ہیں۔ طلبہ اس معاملے کو لے کر کورٹ گئے مگر انھیں وہاں سے بھی راحت نہیں ملی۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ جانے کو کہا اور ہائی کورٹ نے فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے اگلے مہینے کی تاریخ دیدی۔ حالانکہ عدالت کی طرف سے نظر انداز کرنے اور پولس مظالم کے باوجود جامعہ کے طلبہ کا حوصلہ اب بھی قائم ہے۔ بڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں روزانہ یونیورسٹی کے گیٹ پر جمع ہوتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ انڈیا گیٹ اور جنتر منتر پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اس طر ح احتجاج کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ انھیں سابق طلبہ اور دوسری یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کی بھی حمایت مل رہی ہے۔ گزشتہ دنوں سابق کرکٹر سہواگ نے بھی ان کی حمایت کی جو جامعہ کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جامعہ کا قیام مجاہدین آزادی کے ذریعے ہوا تھا۔ انگریزوں کی مخالفت نے اس ادارے کو وجود بخشاہے اور اس کا اثر آج بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ پولس کی لاٹھیاں کھاکر بھی طلبہ آندولن سے باز نہیں آرہے ہیں۔

جے این یو میں فرقہ پرستوں کی کبھی دال نہیں گلی
    جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا مزاج ہمیشہ سے فرقہ پرستی مخالف رہا ہے لہٰذا جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے، یونیورسٹی نشانے پر ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں یونیورسٹی کئی طرح سے حکومت اور سنگھ پریوار کے نشانے پر رہی مگر اب طلبہ کو جس انداز میں سبق سکھانے کی کوشش کی گئی،اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ سنگھ پریوار ماضی میں بھی اپنے مخالفین کو ایسے سبق سکھاتا رہا ہے۔ بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی جس پر ہنگامہ کا الزام ہے،اسے محض اس بات سے غصہ آگیا تھا کہ   یونیورسٹی نے فیس بڑھادی ہے اور طلبہ اس اضافے کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے احتجاج کر رہے تھے۔ ایسے میں احتجاجی طلبہ کو سبق سکھانا ضروری تھا۔ بھاجپائی لیڈران ماضی میں بھی یونیورسٹی کو ملک مخالفوں کا گڑھ قرار دیتے رہے ہیں اور اس کے خلاف ایکشن کی بات کرتے رہے ہیں۔ اب پولس ان کے پاس ہے، قانون ان کے ہاتھ میں ہے اور حکومت ان کی ہے لہٰذا جو چاہیں کرلیں مگر طلبہ کے خلاف یہ جنگ حکومت کو مہنگی بھی پڑسکتی ہے۔ خاص طور پر جب ایسے دوسرے تعلیمی ادارے بھی حکومت کے نشانے پر ہیں،جہاں سنگھ پریوار کی نہیں چلتی ہے۔ حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات کو پولس نے لائبریری کے اندر گھس کر پیٹا تھا۔ اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کئی حکومتوں کا خاتمہ طلبہ کے ہاتھوں ہوا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

07/ جنوری 2020

ادارہ فکروخبر بھٹکل 
 

«
»

شاہین باغ مظاہرہ : پُر دم اگر تو،تو نہیں خطرہ افتاد

آر ایس ایس غلام نہیں بنا سکتی، اگر تحریک کا مقصد آئین کا تحفظ ہو..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے