سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

 

تقدیس نقوی

آج علی الصبح میرصاحب کو خلاف معمول انتہائی مضمحل اور پریشان دیکھ کر بڑی حیرت اور پریشانی ہوئی۔ سب سے پہلے ہمارے ناقص ذہن میں یہ خیال آیا۔ ہو نہ ہو یہ آج کے اخبار کی شہ سرخیاں پڑھ کر غمزدہ ہوگئے ہیں جس میں ان کی پارٹی کی جھاڑکھنڈ میں کراری ہار یقینا ً"سر فہرست ہوسکتی ہے جو ان کی پارٹی کے تکبر کے دامن کو اک جھاڑ کی طرح تار تار کر رہی ہے۔ پھرخیال آیا ممکن ہے میرصاحب کو اپنے قائدین کے دوہرے چہروں کی حقیقت کھل جانے اور عوام میں ان کی کھلےعام تنقید ہونے سے ان کا دل ٹوٹنے لگا ہو۔ ایک لمحہ کے لئے یہ بھی خیال آیا شاید وہ اپنے بڑے بڑے لیڈران کی پوری دنیا میں ہو رہی تضحیک سے افسردہ ہو رہے ہیں۔ بھئی وہ بھی تو آخر انسان ہیں۔ اپنے سینے میں اک دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں۔ کیا حال ہی میں معصوم نہتے نوجوان بچوں اور بچیوں پرملک بھرمیں ڈھائے گئے مظالم دیکھ کر ان کا دل نہ کپکپا یا ہوگا۔ کیا ان کی آنکھوں کے سامنے تاریخ میں دفن کتنے ہی ہلاکو اور چنگیز خانوں کی اپنے ہی عوام پر کی گئی بربریت اور مظالم کے مناظر پھر سے نہ گھوم گئے ہوں گے؟۔ کیا ان غریب ماؤں جن کے بچوں کو ان کے سامنے بے دردی سے قتل کردیا گیا ہو کی آہ و بکا سن کر کیا ان کی آنکھوں سے آنسوں نہ بہے ہوں گے؟ کیا ان کے کانوں میں ہر طرف غریب اور بے سہارا عوام کی چیخیں نہیں سنائی دے رہی ہوں گی؟۔ ہر آدمی پہلے ایک انسان ہے بعد میں کسی سیاسی پارٹی کا ممبر۔ ہر کسی کی کھال اتنی موٹی نہیں ہوتی کے وہ ٹیلیویژن پر روزو شب عام جنتا کی چیخ و پکار سن کر بے حس بنا بیٹھا رہے اور اس وقت کا انتظار کرتا رہے جب پورا ملک ہی جل کر خاکستر ہوجائے۔

ہم نے میر صاحب کو پہلے کچھ تسلی اور دلاسہ دیا اور پھر ان کا احوال دریافت کیا۔ میر صاحب عمر کی اب اس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں انسان بہت دیر تک اپنے چہرے پر جھوٹا مکھوٹا پہن کر نہیں بیٹھ سکتا۔ میر صاحب نہایت غمگین لہجے میں فرمانے لگے:

" آج ہمیں اپنے آٹل جی کی بہت یاد آرہی ہے"

" کیوں آج آٹل جی سے منسوب کوئی خاص دن ہے کیا؟ ہم نے بھی بڑے تجسس کے ساتھ پوچھا۔

" نہیں بھئی اچھے لوگوں کو یاد کرنے کے لئے کوئی دن مخصوص نہیں ہوتا۔ اکثر ایسے اچھے لوگوں کی اچھائیاں اس وقت بہت زیادہ یاد آنے لگتی ہیں جب زمانہ ان کی ان اچھائیوں کو بھلا کر ان کے دکھائے گئے راستوں میں برائی کے کانٹے بچھانے لگتا ہے" میر صاحب ابھی تک ماضی کے اچھے دنوں کے مرغزاروں میں چہل قدمی کر رہے تھے۔

"جانے کہاں چلے گئے وہ دن۔ کیسے تھے وہ دن جب لوگ اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف عوام اور قوم کے مفادات کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ہاتھ سے اقتدار بھلے ہی چلا جائے مگر ملک میں امن و امان اور سلامتی قائم رہے۔ وہ دن بھی کیا دن تھے۔ میں کل ہی اٹل جی کی اک ویڈیو کلپ دیکھ رہا تھا" میر صاحب تھوڑا اور کھلے۔

’’اٹل جی بھی اپنے مخالفین سے اختلاف رکھتے تھے۔ بحث و مباحثے بھی ہوتے تھے۔ مگر کبھی اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے مخالفین پر جھوٹ اور بہتان نہیں باندھتے تھے۔ کبھی اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار اپوزیشن پارٹیوں کو نہیں ٹہراتے تھے۔ وہ اپنے مخالفین کی ہرطرح مخالفت بھی کرتے تھے مگران کی کردار کشی کبھی نہیں کرتے تھے۔ بس یہی فرق آج کے اور ماضی کے ان دنوں میں تھا جنھیں یاد کرکے ہمارا دل آج لہو لہاں ہو رہا ہے۔‘‘

"مگرآپ کی پارٹی کی موجودہ قیادت تو اٹل جی کو آج بھی اپنا بڑا قائد مانتی ہے۔ ان کے نام پر تو ترقیاتی اسکیموں کے نام رکھے گئے ہیں۔ آپ اپنی پارٹی سے اس سے زیادہ اور کیا امید کرتے ہیں؟ یہ سب کیا کم عزت افزائی ہے اٹل جی کی" ہم نے بھی میر صاحب کو مزید کھلنے کا موقعہ دیا۔

"اٹل جی نے کبھی کوئی کام اپنی ذاتی عزت افزائی کے لئے نہیں کیا تھا۔ انھوں نے ہندوستانی سیاست میں جو اخلاقی اقدار قائم کیے تھے ہم اگر ان پر عمل پیرا رہتے تو ہمیں آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔ اٹل جی جب اپنی حکومت کی کامیابیاں گنواتے تھے تو ساتھ ہی اس بات کا بھی اقرار کرتے تھے کہ ان سے پہلے آنے والی حکومتوں نے بھی اچھے کام کیے تھے جس کی بناء پر وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک قد آور لیڈر مانے جاتے تھے۔ آج کل اس طرح کے لیڈر کہاں ہیں؟ کیا ہم نے انہیں کہیں کھو دیا یا کسی نے ہمیں یرغمال بنالیا ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا وہ دن کہاں گئے؟" میر صاحب بہت جذباتی ہوگئے تھے۔

" اٹل جی جب اقتدار میں تھے تو انھوں نے کبھی اپنے خلاف کسی چھوٹی سی چھوٹی مخالفت کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا کہ یہ مٹھی بھر لوگوں کی مخالفت ہے کچھ دن بعد ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ دنیا کی تاریخ میں جتنے بھی بڑے بڑے انقلاب لائے گئے ہیں وہ ابتداء میں ایک شخص یا چند لوگوں کے زریعہ ہی کیے گئے تھے۔ ہمارے مہاتما گاندھی جی کے ڈانڈی مارچ کی مثال موجود ہے۔ مارچ سنہ 1930 میں مہاتما گاندھی جی نے جس وقت ڈانڈی مارچ شروع کیا تھا اس وقت ان کے ہمراہ صرف چند ساتھی تھے۔ جنھیں دیکھ کر اس وقت کی برٹش جابر حکومت یہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ یہ چند مٹھی بھر لاغر و ناتوان نہتے انقلابی ان کی صدیوں پرانی حکومت کے زوال کی وجہ بن جائیں گے۔ گاندھی جی کی عدم تشدد کی پالیسی کا انکار اور مخالفت کرنے والے بھی یہ دیکھ کر انگشت بدنداں تھے کہ کس طرح بغیر اسلحہ اور مادی طاقت کے دنیا کی طاقتور ترین حکومت کو ملک سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ خیر کچھ لوگوں کی سمجھ میں مہاتما گاندھی کی یہ باتیں نہ کل سمجھ میں آئی تھیں اور نہ آج آرہی ہیں۔" میر صاحب موجودہ حالات سے بہت زیادہ دل برداشتہ تھے۔ اپنی بات کی تائید میں مزید تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہنے لگے:

"گذشستہ دہائی میں شروع ہوئے 'عرب اسپرنگ' انقلاب کی ابتدا دسمبر2010 میں تیونس کے ایک بازار میں ایک مفلس ٹھیلا لگانے والے نوجوان کے خود سوزی کے افسوسناک واقعہ سے ہوئی تھی۔ اس بظاہر چھوٹے سے واقعہ میں اس ٹھیلے والے نے خود پر تیل ڈال کر اس لئے آگ لگالی تھی کی اس کے ٹھیلے پر اس کے حق حلال کی کمائی سے لگائی گئی ہوئی سبزیاں وہاں کے اک پولیس اہلکار نے زبردستی چھین لی تھیں۔ طاقت کے زور پر زبردستی دن دہاڑے کسی کے حقوق پر جبرا "شبخون مارنا وہاں کسی بھی انصاف کے متلاشی شخص کو برداشت نہ ہوا۔ وہاں کی حکومت اس وقت کے اس بظاہر معمولی واقعہ کو اس لئے نظر انداز کر بیٹھی تھی کہ اس وقت اس احتجاج کرنے والے کے ساتھ نہ کوئی لیڈر تھا اور نہ افراد کی کثرت تھی۔ اس وقت وہ تن تنہا تھا۔ مگر دن بہ دن اس مظلوم ٹھیلے والے کی حمایت میں ہر نسل اور ہر مذہب کا انصاف پسند شہری اپنی حتی المقدور آواز بلند کررہا تھا ۔ تاریخ گواہ ہے اس واقعہ سے پیدا ہوئے اس عرب اسپرنگ انقلاب کی زد میں متعدد حکومتیں آج اس صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ کاش اس وقت کی حکومت اس غریب اور ناتواں ٹھیلے والے کے احتجاج کو ٹھنڈے دماغ سے سنجیدگی سے سماعت کرلیتی۔ اس نہتے مجبور انسان پر ڈنڈے برسانے سے پہلے ایک لمحہ کے لئے یہ سوچ لیتی کہ وہ بھی اسی جمہور کا فرد ہے جس نے اسے اقتدار دیا ہے۔"

میر صاحب اپنی بات مکمل کرتے ہوئے یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے: "اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ ارباب اقتدار کو گاہے بگاہے تاریخ کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ تاریخ میں کی گئی ایسی غلطیوں سے سبق حاصل کیا جاسکے جن کے نتیجہ میں بڑی بڑی مستحکم حکومتیں نیست و نابود ہوچکی ہیں۔"

«
»

عہدنبویؐ میں نظام تعلیم……(دوسری قسط)

پھوٹے گی صبحِ امن لہو رنگ ہی سہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے