این آر سی اور کیب ہندوراشٹر کی طرف بڑھتا قدم …

 

شہریت ترمیمی بل صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ملک، آئین اور سیکولرازم کی دھجیاں بکھیڑ دے گا

 

احساس نایاب (شیموگہ،کرناٹک)

 

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے کیا گیا اعلان کہ آسام کی طرح ہندوستان بھر میں این آر سی نافذ کیا جائے گا، جس کو لے کر کئی طرح کی قیاس ارائی کی جارہی ہیں، ہر ایک کی اپنی سوچ، اپنی رائے اور اپنا مشورہ ہے…. لیکن اللہ سبحانہ تعالی نے عقل سمجھ  سب کو عطا فرمائی ہے، بس انسان کو ہر چیز، ہر بات کی گہرائی وگیرائی کو سمجھنا بیحد ضروری ہے کیونکہ جس طرح کوئی سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر اس کی گہرائی ناپ نہیں سکتا اور نہ ہی زمین پہ رہ کر آسمان کی اونچائی کا اندازہ کر سکتا ہے بالکل اسی طرح این آر سی کے پیچھے چھپے آر ایس ایس کے مقاصد کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم برہمنیت کے وجود اور اُن کی تاریخ کا مطالعہ کریں تاکہ ماضی میں اس کی حیثیت، حال میں اس کی سازشیں اور مستقبل سے جُڑے ان کے خطرناک عزائم اور منصوبے کو اچھی طرح سمجھ سکیں…….! 

مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم ایک اور بات واضح کرنا چاہیں گے کہ مسلمانوں نے این آر سی کو لے کر جو رائے قائم کی ہے کہ یہ بل مسلم مخالف بل ہے، ہمیں اس رائے کو بدلنا ہوگا اور اپنی اس سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی ….!

کیونکہ این آر سی صرف مسلم مخالف بل نہیں ہے بلکہ یہ مسلم مخالف بل ہونے کے ساتھ ساتھ اقلیت مخالف، ملک مخالف اور آئین مخالف  بل بھی ہے جس میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ، عیسائی، دلت، آدیواسی اور دیگر تمام پسماندہ طبقات کے وجود کو خطرہ ہے ………..

مگر افسوس ہم اس کو محض مسلمانوں تک محدود کرکے بھاجپا کو طاقتور بنارہے ہیں …….

 جیسے  شیطان کے نام پہ خوف کا اظہار کرنے سے اُسے نئی طاقت ملتی ہے، بالکل اسی طرح ہر معاملے میں مسلمانوں کی جانب سے لفظ ہندو کی مخالفت میں لفظ مسلمان لکھنا اور خود کو مظلوم قرار دینا بی جے پی آر ایس ایس  اور فرقہ پرستوں کو نئی طاقت و قوت بخشناہے اور اُن کو مضبوط سے  مضبوط تر بنانا ہے……..! 

اس لئے آج ہمیں ہندو اور برہمن کے فرق کو سمجھنا بیحد ضروری ہے ……… جیسا کہ ہم سبھی کا گمان ہے کہ بھارت میں بسنے والے 70 فیصد عوام ہندو ہیں……… دراصل ہمارا یہ گمان  غلط ہے

کیونکہ اس 70 فیصد آبادی میں سکھ، دلت، آدیواسی، گوجر اور کئی نچلی ذاتیں موجود ہیں جنہیں آر ایس ایس  یعنی آریائی برہمن  ہرگز ہندو نہیں مانتے، ان کی نظر میں ہندو صرف اور صرف یوروشیا سے آئے برہمن ہیں جو کئی سال قبل یوریشیا یعنی  یورپ سے ہوتے ہوئے ہندوستان آئے پھر دھیرے دھیرے پورے ملک پہ قابض ہوگئے اور آج انہوں نے اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرلی ہیں کہ 14 فیصد ہوتے ہوئے بھی خود کو اکثریتی قوم ثابت کرکے مسلمانوں کے خلاف ایسے خطرناک حربے استعمال کررہے ہیں جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ….. دراصل یہ سب کچھ ان کی چانکیہ سوچ کا نتیجہ ہے ……

لیکن اس بات کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ ملک میں انہیں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں سالوں سال  محنت جہد مسلسل اور انتہائی درجہ صبر و استقامت سے کام لینا پڑا ہے ….. سام، دام، دنڈ، بھید جیسے سارے پینترے استعمال کرنے پڑے ہیں تب جاکر آج یہ اقتدار کی اونچائی پہ بیٹھ کر من مانی اور تاناشاہی کررہے ہیں، ورنہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے مسلم حکمرانوں کے دور اقتدار میں برہمنوں کو ان کے ناپاک عزائم اور گندے مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکے رکھا، ساتھ ہی ان کی ذاتی انا، تکبر، گھمنڈ و تعصب کے قہر سے نیچی ذاتوں کو تحفظ فراہم کرتے رہے ……. مسلم بادشاہوں کی انصاف پسندی، میانہ روی اور جذبہ جرات ایمانی نے وقتا فوقتا برہمنوں کی ہر چال کو مات دی ہے. 

یوں تو برہمن ایک بیحد چالاک، عیار، شاطر اور تعلیم یافتہ قوم ہے جو ہمیشہ سے خود کو اعلی و افضل  سمجھتا آیا ہے، یہ خود کو بھگوان کے قریبی بتاتے ہیں، ان کی اسی سوچ نے کنڑ میں اس کہاوت کو جنم دیا " دیورو کوٹرو پوجاری کوڑالا "

اردو ترجمہ " بھگوان دے دیں، لیکن پجاری نہیں دے گا " آج یہ برہمن نظام قدرت کو چیلینج کرتے ہوئے فرعون اور نمرود کی طرح  خدائی کا دعوی کررہے ہیں اور اس کہاوت سے ان کی حماقت اور گندی نیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ علم کے زور پہ یہ خود کو اتنا بڑا مانتے ہیں کہ ان برہمنوں کے آگے دیگر ہندو قومیں کمتر اور حقیر سمجھی جاتی ہیں. 

یہ اپنی اس متعصبانہ ذہنیت، برہمن ازم کی وجہ سے دلت اور نچلی ذات والوں پہ ظلم و تشدد کرنا، انُہیں اپنے پیر کی جوتی سمجھنا، ان کے جائز حقوق صلب کرکے ان کے ساتھ جانوروں  سے بدتر سلوک کرنا اور انہیں تعلیم سے دور رکھنا اپنا پیدائشی حق سمجھ رکھا ہے. 

جبکہ اسلام میں ذات، نسل، رنگ وروپ کا کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ ہر انسان کو اُس کے اپنے عمل کے مطابق عہدوں، انعام و اکرام سے نوازا گیا ہے اور ہندوستان میں انہیں اسلامی احکامات کے نام لیوا مسلمانوں کی موجودگی سے برہمن و برہمنیت کے وجود کو ہمشہ سے خطرہ لاحق  ہے جس کی وجہ سے ہندوستان پہ راج کرنے کا ان کا برسوں پرانا خواب ہمیشہ خواب ہی بنا رہا ……..

 مسلمانوں کی حکمرانی کے بعد کئی سالوں تک ملک پہ انگریزوں کی حکومت رہی، لیکن اُس وقت یہی برہمن اور آر ایس ایس کے جنم داتا ساورکر اور گوڈسے کی شکل میں انگریزوں کے دلال بن گئے، ان سے انہوں نے ڈیوائڈ اینڈ رول پالسی سیکھی اور جب سارا ہندوستان آزادی کی خاطر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑرہا تھا،مہاتما گاندھی ستیہ گرہ جیسی تحریک میں اپنی زندگی وقف کرچکے تھے، بھگت سنگھ، محمد اشفاق جیسے دیش بھگت نوجوان ملک میں نیا انقلاب لانے کی ضد میں بذات خود نوجوانوں کے آگے تحریک بن کر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کی جدوجہد کررہے تھے، اُس وقت یہی برہمن دلال آر ایس ایس  انگریزوں کی مخبری کرتے ہوئے جنگ آزادی کے سپاہیوں کے خلاف ماحول تیار کرنے میں لگے تھے، مگر انہیں اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور ہندوستان کی آزادی و  ملک تقسیم کے بعد کانگریس نے  مسلمانوں کی مکمل تائید حاصل کر کے اقتدار حاصل کرلیا اور سالوں سال اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے ہندوستان کی مضبوط سیکولر سیاسی جماعت بن کے ابھری، جس سے اقتدار کا خواب برہمنوں کا مقدر نہ بن سکا، اُس پہ بھیم راؤ امبیڈکر نیچی ذات  کے ہونے کے باوجود مسلمانوں نے دستور ہند نافذ کرنے میں ان کا بھرپور ساتھ دیا، یہ چیزیں ان برہمنون کے دلوں پہ چھریاں چلانے لگیں، مسلمانوں کے خلاف ان کے اندر پنپ رہی نفرت کو شدت میں بدل کے رکھ دیا اس کی وجہ دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کے اچھے خاصے تعلقات، بھیم راؤ امبیڈکر کو آئین سازی کا موقعہ فراہم کرنے والے مسلمان ہی تھے اور یہ بات برہمنون کے لئے ناقابل قبول تھی کہ ایک نیچی ذات والا انسان ہندوستان کا آئین ساز بنے ……… برہمنوں نے اس نفرت کو اپنے اندر برسوں شدت سے پرورش کرتے  رہے اور خفیہ طریقے سے خود کو تیار کرتے رہے اس دوران انہیں کانگریس کی جانب سے سے پوری طرح سے پشت پناہی ملتی رہی …….

دراصل خود پہ سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے کانگریس کے اندر بھی برہمن وادی سوچ پرورش پارہی تھی، اس کے علاوہ کانگریس کو ہمیشہ اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے مسلمانوں کا استعمال ضروری تھا، سکیولرزم کے نام پہ یہ مسلمانوں کو بیوقوف بناتے رہے، تعلیمی و سیاسی طور پہ مسلمانوں کو اندرونی طور سے کھوکھلا کرتے رہے، ایک طرف ہندوؤں کے آگے مسلمانوں کو ہندو مخالف قوم بناکر پیش کرتے رہے دوسری طرف آر ایس ایس کے نام پہ مسلمانوں کو ڈراکر ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے رہے، یہاں پہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آزادی سے لے کر آج تک ساری سیاست ڈر پہ ٹکی ہوئی ہے اور کانگریس نے ہمیشہ سے دوغلہ رویہ اختیار کیا ہے اور مسلمانوں ہر محاذ پر استحصال کیاہے……….

اب جبکہ 2014 کے انتخابات کے وقت آر ایس ایس ( برہمن ) اس بات  کو  بخوبی سمجھنے لگے ہیں کہ ہندوستان پہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے پہلی شرط   اکثریت ثابت کرنی ہوتی ہے 

بقول شاعر 

" جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے کہ 

جس میں بندے کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے "

اس نظریہ کے ساتھ آر ایس ایس نے لوگوں کو تولنے سے زیادہ گننا تعداد کو وقت کا تقاضہ سمجھا، ساتھ ہی ڈر کی سیاست کرنے لگے جس کے چلتے آج ہندوؤں کو مسلمانوں کے نام سے ڈرایا جارہا ہے اور مسلمانوں کو مہاجر، دہشت گرد کہہ کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ آر ایس ایس ( برہمن ) خود ہندوستانی نہیں ہیں اور یہ بات کلیفورنیا میں کئے گئے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت بھی ہوچکی ہے ……….

باوجود اقتدار کی لالچ میں برہمنوں نے کئی طرح کے حربے آزمائے جن میں ہندو، ہندوتوا والا حربہ غیر معمولی کار آمد ثابت ہوا جس کو انہوں نے ہتھیار بناکر مسلمانوں کے خلاف لگاتار استعمال کرنا شروع کردیا، ہندوستان کے تمام اقلیتی طبقات کو ہندوتوا کے نام پہ ایک پلیٹ فارم  پہ اکٹھا کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندی کو ہندو بناتے گئے اور اب ہندی، ہندو سے ہندوتوا کی سیاست کررہے ہیں …………..

ساتھ ہی 70 سال قبل کانگریس کے آزامائے ہوئے ہتھکنڈے اب برہمن اور زیادہ خطرناک طریقے سے منظرعام پہ لارہے ہیں ، جن میں ایک کے بعد ایک غیر معمولی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے اور ان کی برسوں کی محنت 2014 میں آکر مضبوطی سے پورے ملک پہ قابص ہوگئی اور برسوں پرانا خواب اقتدار کی شکل میں مل گیا …… مگر کانگریس کو اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ہے، سیاست کے لئے جن سپولوں کو آستین میں پال رہے تھے ابھی وہی اژدھے بن کر پورے ملک کو نگلنے کی ناکام کوش  کررہے ہیں، جس کو روکنا مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی بھی ذمہ داری ہے کیونکہ یہاں پہ NRC صرف مسلمانوں کےخلاف نہیں ہے بلکہ برہمنون کے علاوہ ہر انسان کے وجود اور اُس کی بقاء کے لئے خطرہ ہے …….اس لئے اس بل کو اینٹی مسلم بل کہنے کے بجائے اینٹی نیشنل بل  کہنا ضروری  ہے ……… ساتھ ہی اپنی زبانوں سے لفظ ہندو ہمیشہ کے لئے ختم کر لفظ برہمن، برہمنزم، برہمن واد کا استعمال مستقل کرنا ہوگا تاکہ دیگر ہندو بھائی ان دہشتگردوں میں خود کو تصور نہ کرنے پائیں، نہ ہی مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں،ویسے بھی ملک کے ان نازک حالات میں ہمیں لفظوں کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کرنا چاہئیے ………

 آج مسلمان بھلے اپنی تاریخ بھول بیٹھے ہیں مگر یہودی و برہمن، اسلام و مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں اور ان کا دیگر غیر مسلمانوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے یہ کہنا کہ دنیا بھر میں 57 اسلامی ممالک کی موجودگی کے باوجود مسلمانوں کا ہندوستان کو اپنا ملک کہنا ہندوؤں کے لئے خطرہ ہے جو انہیں ہرگز گوارا نہیں اور انہیں اپنا وجود خطرے میں نظر آتا ہے اس طرح کے بیانات اور ان کے خرافاتی دماغ نے ملک بھر کے غیرمسلموں کے اندر ہندوتوا اور ہندو راشٹر کا وائرس بھر دیا ہے  ………..

لیکن ہندوتوا کے نام پہ ان سبھی کا ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہونے کی کوشش وقتی ہے کیونکہ آج بیشک این آر سی کے نشانہ پہ مسلمان ہیں لیکن یاد رہے مسلمان صف اول ضرور ہیں، صف آخر ہرگز نہیں! 

اگلا نمبر دلت، سکھ، آدیواسی اور دیگر ذاتوں کا آئے گا…. آج بھلے چھوٹی مچھلیوں کو ساتھ لے کر بڑی مچھلی ( مسلمان ) کا شکار کیا جارہا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب بڑی مچھلی کو زخمی کرنے کے فورا بعد تمام چھوٹی مچھلیوں کو نگلنا شروع کردینگے کیونکہ اقلیتوں کو ہندوتوا میں شامل کرنا بی جے پی کی دلی خوشی یا رضامندی ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ان کی مجبوری ہے اور مجبوری زیادہ دیر تک  نہیں رہتی ……… اس لئے ہندوستان کے ہر شہری کو چاہئیے کہ وہ اس بل کی پرزور مخالفت کریں اور ایک دوسرے کی بقاء کے خاطر یک جُٹ ہوکر NRC کو مسلم مخالف بل کہنے کے بجائے، ملک مخالف، اور اقلیت مخالف بل کہیں ….اس دوران اگر کوئی اس بل کی حمایت کررہا ہے تو سمجھ جائیں اُس کے اندر بھی برہمنوں کا ڈی این اے شامل ہے—!

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

11دسمبر2019

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے