مسلمانوں کی زندگی کا اصل مقصد قیام عدل و انصاف ہے

 عبدالعزیز 

    عام طور پر مسلمان بحیثیت مجموعی دنیا میں ظلم و ستم کو مٹانے اور قیام عدل کیلئے کوشاں نہیں ہے۔ مسلم گھروں، معاشروں اور ملکوں میں ظلم و ستم عام ہے اور حق تلفی بھی عام ہے۔ حقوقِ انسانی سے بھی ناواقفیت ہے۔ اس کے برعکس جو اسلام سے ناواقف ہیں، خدا کو بھی نہیں مانتے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد ظلم و ستم کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور عدل کو قائم کرنے کیلئے دل و جان سے جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ لوگ جو عدل قائم کرنا چاہتے ہیں اور ظلم کو مٹانا چاہتے ہیں مذہب ہی کو ظلم و ستم کی بنیاد سمجھتے ہیں اور مذہب کو افیون سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے بہت سے ٹھیکیدار ظلم و ستم کو برداشت کرنے اور صبر و تحمل سے کام لینے کی بے جا تلقین کرتے ہیں۔ حالانکہ جب آدمی دوسروں پر ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور کچھ کرنا گوارا نہیں کرتاتو خود جب اس پر ظلم و ستم ہوتا ہے تو وہ گوارا کرلیتا ہے۔ اس روش سے ظلم بڑھتا ہے۔ مسلمانوں کو قرآن اور سیرتِ رسولؐ کے ذریعے تعلیم دی گئی ہے کہ وہ حق و انصاف کے علمبردار بنیں۔ اور حق و انصاف کیلئے ہر طرح کی قربانی پیش کریں۔ حق و انصاف کی راہ میں کوئی بھی چیز آڑے آئے، مال و دولت ہو، دوستی اور رشتہ داری ہو، کسی چیز کی بھی پرواہ نہ کریں۔ حق کیلئے اور حق کے قیام کیلئے سب کچھ تج دیں۔ مسلمانوں میں بحیثیت مجموعی یہ جذبہ کیوں نہیں پیدا ہورہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر یا جماعتی طور پر جو لوگ اپنی سیرت اور دوسروں کی سیرت سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں عدل و انصاف کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسی سیرت اور ایسی شخصیت کی تعمیر کر رہے ہیں جو سیرت برائے سیرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ظلم و ستم کا سدباب کر رہے ہیں وہ مذہبی شخصیتوں سے نالاں ہیں۔ سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر رادھا کرشنن اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ”خدا مذہبی شخصیتوں کی بدعملی اور بے عملی کی وجہ سے کچھ اس طرح ناراض ہے کہ وہ کہیں ایسے گروپ کو جوائن نہ کرلے جو خدا اور مذہب کو تسلیم نہیں کرتے“۔ 
    جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو قرآن سے علم ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے نبیوں کے ذریعے جو پیغام پہنچانا تھا اس کی تکمیل اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کردی۔ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں فرماتا ہے: 
    اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔(المائدہ:3)
     ”آج ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا“۔ 
    اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ضرورت کے مطابق اسے علم و رہنمائی فراہم کرتا رہا۔ انسانیت اپنے مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی تکمیل تعلیم اور پختگی شعور کی اس سطح تک پہنچی جہاں آکر مذکورہ اعلان کردیاگیا۔ جس طرح اللہ نے اپنے پیغام کو مکمل کیا اسی طرح آخری معلم حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلقِ عظیم کی بھی تکمیل کردی۔ انسان کو اس تعلیم کی تکمیل پر سندِ فراغت جاری کر دی گئی، جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کے ابتدائی مدرسہئ تعلیم سے ہوا تھا۔ دین کی یہ نعمت جزواً جزواً مختلف انبیائے کرامؑ کے ذریعے اتاری گئی اور نبی آخرالزماں ؐ پر اس کو مکمل کردیا گیا۔ اسلام کا جو کامل اور اکمل نقشہئ حیات حضورؐ کے دور میں جلوہ گر ہوا۔ اسے انفرادی و اجتماعی زندگی کیلئے سند قبولیت عطا کردی گئی۔ اس تکمیل دین کا اصل مقصود چونکہ تکمیل اخلاق تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی خاطر دنیا میں مبعوث کیا گیا تھا، اس لئے اپنی ذات میں اور اپنے زیر تعلیم انسانی گروہ میں اسے درجہئ کمال تک پہنچانے کی بنا پر آپ کو یہ سند فضیلت بھی جاری کر دی گئی کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:3)-(اور بیشک اے محمدؐ! آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں)۔ 
    پھر آپ کو رحمۃ للعالمین اور خاتم النّبیینؐ قرار دے کر قیامت تک آنے والے ہر زمانے کیلئے ہادی و رہنما بناکر سلسلہئ وحی کو منقطع اور مدرسہئ نبوت  بند کردیا گیا۔ اور ہمیشہ کے طے کر دیا گیا کہ اب جس کسی کو اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہونا ہے وہ اسی نمونہئ کامل کا اتباع کرے۔ 
    لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ (احزاب:21)- ”درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے“۔ 
    اب ایک اور پہلو سے غور فرمائیے علم کا مقصود تھا اخلاق، لیکن اخلاق کیا بجائے خود مقصود تھا، اس کی غایت اولیٰ کیا ہے؟ انسان کو اخلاق کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے بغیر وہ اپنی جبلی قوتوں کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتا؟ اس کا جواب بھی خالق کائنات سے سن لیجئے: ”ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ انسانی معاشرہ عدل پر قائم ہوجائے“۔ (سورہ الحدید: 25)۔ گویا رسولوں، کتابوں اور معیارِ خیر و شر کی میزان و شعور، ان سب کے نزول کا واحد مقصد انسانی معاشرے کو عدل پر قائم کردینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کا نظام عدل پر استوار کیا ہوا ہے۔ وہ انسان کی اپنی دنیا کو بھی اسی عدل پر استوار دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی تنظیم و تشکیل کا کام اس نے اپنے خلیفہ ہی کے ذمے رکھا ہے۔ البتہ اس ذمہ داری کی تکمیل کیلئے اس نے انسان کی تعلیم و تربیت کا پورا اہتمام کیا ہے۔ نبی بھیجے، ان پر کتابیں اتاریں، انھیں حکمت و میزان کی دولت سے نوازا گیا اور معلم بناکر انسانیت کی اخلاقی تربیت پر مامور کیا گیا۔ یہ سارا اہتمام کس لئے ہے۔ انسانی معاشرے کو عدل پر قائم کرنے کیلئے۔ اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے تو صورت یہ بنتی ہے کہ علم ذریعہ ہے تشکیل اخلاق کا، اخلاق ذریعہ ہے قیام عدل کا۔ عدل کا وجود اخلاق کے بغیر اور اخلاق کا وجود علم کے بغیر محال ہے۔ اسی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں علم ہوگا وہاں اخلاق ہوگا۔ جہاں اخلاق ہوگا وہاں لازماً عدل کی حکمرانی ہوگی۔ عدل سے عاری معاشرہ اخلاق کے وجود سے خالی ہے۔ اور اخلاق سے تہی دامن معاشرہ علم سے بے بہرہ ہے۔ 
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعات کے جس تناظر میں خلقِ عظیم کی سند جاری کی جارہی ہے اس سے اسلام کا وہ تصورِ اخلاق بھی واضح ہوجاتا ہے بدقسمتی سے جس کا حقیقی مفہوم ہمارے سامنے نہ رہ سکا۔ اس کی جگہ ایک ایسا تصورِ اخلاق رواج پاگیا جس کی سب سے بڑے خصوصیت منافقت ہے۔ داخلی شخصیت سے جدا ایک ملمع کی طرح چڑھا ہوا ہے۔ یہ معرکہئ حق و باطل میں انبیائے کرامؑ اور ان کے صدقے پیروکاروں کا جوہر کردار اور قوتِ کردار تھا۔ ان کی اندر جرأت وبے باکی، عزیمت و استقامت اور اپنے دور کی بڑی سے بڑی جابر اور قاہر قوت کو پرِ کاہ کے برابر بھی حیثیت نہ دینے کے عزم و حوصلہ کی صفات اسی اخلاق کی بنیاد پر استوار تھی۔ لیکن اب ایسے لوگوں کو صاحب اخلاق سمجھا جانے لگا جو نہایت دبو، مرنجانِ مرنج، حق و باطل کی ہر کشمکش سے گریزاں، عافیت پسند، مصلحت و مصالحت کے اصول پر کاربند، ہر طاقت ور کے سامنے سر بسجود، ہر زور آور کے سامنے دست بستہ اور ہر قوت کے سامنے سپر انداز ہوں جو کڑھتے ہوئے دل کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ کے پھول سجالینے کا فن جانتے ہوں۔ جن کا دل لعنت بھیجنے اور زبان قصیدہ پڑھنے میں بیک مصروف رہ سکیں۔ جو اندیشہئ سود و زیاں میں ہر وقت لرزتے کانپتے اور ہر لمحہ موجود سے مطابقت کرتے ہوئے زندگی کے دن کاٹ رہے ہوں۔ ان کی عاجزی و انکساری جو درحقیقت ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی علامت ہوتی ہے۔ علامت اخلاق بن جاتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان جو دین کا محدود تصور رکھتے ہیں اور محدود طریقے پر عمل پیرا ہیں وہ اپنے قول و عمل سے اپنی ادھوری اور ناقص جدوجہد سے خدا کی زمین پر حق و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام نہیں کرسکتے۔ اگر امت مرحومہ زندہ امت یا زندہ ملت بننا چاہتی ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کی مکمل نمائندگی کرے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کرے جب ہی یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے۔ اس کے بغیر دوسری جزوی یا محدود کوششوں سے نہ تو کوئی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اور نہ مسلمانوں کے کردار میں کوئی کشش ہوسکتی ہے اور نہ ہی مسلمان اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ آج جو مسلمان دوسری قوموں یا دوسری قوتوں کے سامنے سرنگوں ہیں بحیثیت مجموعی اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ حقیقی اسلام سے وہ دور ہوگئے ہیں اور حقیقی اسلام سے جب دور ہوگئے ہیں تو حقیقی طور پر وہ عمل کیسے کرسکتے ہیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہے؟ ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ مسلمان کیوں مغلوب، محکوم، مجبور اور بے بس ہے۔ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ اسلام کا ناقص اور نامکمل علم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقص اور ناکمل پیروی۔ یہی مغلوبیت اور محکومیت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

10دسمبر2019

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے