شہریت ترمیمی بل کا مقصد کیا ہے؟

 عبدالعزیز 

    دنیا جانتی ہے کہ جب سے تقسیم ہند ہوا اس وقت سے لے کر آج تک جو لوگ بھی غیر مسلم پڑوسی ممالک سے ہندستان آتے رہے، ان کی ہندستان میں صرف آؤ بھگت ہی نہیں ہوتی بلکہ ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ گھر بار سے لے کر تعلیم اور ملازمت کی بھی سہولت دی جاتی ہے۔ مغربی بنگال میں جو لوگ مشرقی پاکستان (جسے اب بنگلہ دیش کہتے ہیں) سے مغربی بنگال میں آئے ان سب کو غیر مسلم ہونے کی وجہ سے حکومت نے ہر طرح کی معاونت کی۔ تین ایسے سیاسی اشخاص تھے جو مشرقی پاکستان سے آئے وہ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بھی بنے، جس میں جیوتی باسو بھی شامل ہیں۔ جو 1977ء سے لے کر 2000ء تک مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ رہے اورسی پی آئی کے قیام کے روزِ اوّل سے 1964ء تک اس کے پولٹ بیورو کے ممبر رہے۔ 1964سے لے کر 2008ء تک سی پی ایم کے پولٹ بیورو کے ممبر رہے۔ اسی طرح دیگر ریاستوں میں بھی کم و بیش غیر مسلم مہاجرین کا استقبال کیا گیا اور انھیں شہریت کی سند سے نوازا گیا۔ ایل کے ایڈوانی، رام جیٹھ ملانی جیسی قد آور شخصیتیں بھی سرحد پار سے ہندستان آئی تھیں۔ ایل کے ایڈوانی ہندستان کے وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم ہوئے۔ رام جیٹھ ملانی ہندستان کے بڑے وکلاء میں سے ایک تھے۔ بہت سے بڑے صحافی اور مشہور ججز بھی مہاجرین تھے۔ یہ اتنی لمبی فہرست ہے کہ ایک ایک کا نام لینا آسان نہیں ہے۔ 
    اب جو یہ شہریت کا ترمیمی بل امیت شاہ اور نریندر مودی پارلیمنٹ میں پیش کرکے قانون بنانا چاہتے ہیں اس سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دو مقاصد وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جسے ایک ہی مقصد کہا جاسکتا ہے۔ وہ مقصد ہے مسلمانوں کو ہر طرح سے پریشان کرنا اور ان کو دوسرے درجے کا شہری بنانا۔ یہی اصل مقصد ہے۔ پہلے اس مقصد کو آر ایس ایس اور بی جے پی ’این آر سی‘ یعنی شہری رجسٹریشن کھاتے کے ذریعے حاصل کرنا چاہتی تھی۔ آسام سے یہ کام شروع ہوا۔ اس کی فائنل لسٹ 30 اکتوبر 2019ء میں منظر عام پر آئی۔ اس میں سنگھ پریوار والے چاہتے تھے کہ ایک کروڑ سے کہیں زائد مسلمانوں کو غیر شہری این آر سی کے ذریعے قرار دیا جائے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ 19 لاکھ لوگوں کو این آر سی سے باہر رکھا گیا۔ اس میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندوؤں کی تعداد ہے۔ اس کی وجہ سے سنگھی تدبیروں کو صدمہ پہنچا۔ ان کی تدبیریں بھی الٹی ہوگئیں۔ اس کا مداوا یا تلافی اس شہریت کے ترمیمی بل کے ذریعے سنگھ پریوار والے کرنا چاہتے ہیں۔ ہندو خاص طور پر جو شمال مشرقی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اس بل کے سخت خلاف ہیں۔ اس میں آسام کے بھی قبائلی علاقے کے لوگ شامل ہیں۔ امیت شاہ ہندوؤں کو مطمئن کرنے کیلئے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کیلئے وقتاً فوقتاً اعلان کرتے رہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک سے مسلمانوں کے علاوہ جو بھی آئے گا اسے شہریت دی جائے گی۔ اس طرح یہ شہریت کا بل سنگھ پریوار کا ایک ہتھیار ہوگا۔ اس ہتھیار کے ذریعے مسلمانوں کو زیر کرنا چاہتے ہیں اور ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوؤں کو خوش کرنا اس لئے چاہتے ہیں کہ ان کو ہندوؤں کو منظم اور متحد کرکے بی جے پی کیلئے ووٹ بینک بنانا ہے اور مسلمان چونکہ بی جے پی کو اس کی دشمنی کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے اس لئے وہ اس ہتھیار سے مسلمانوں کو ہر طرح سے خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اور پریشان و حیران کرنا چاہتے ہیں۔ جب یہ قانون بن جائے گا تو سرکاری آفیشیل حکومت کے اشارے پر مسلمانوں کو خاص طور پر غریب اور کمزور مسلمانوں کو پریشان کریں گے۔ یہی مودی اور شاہ کی جوڑی کا اور ان کے اس قانون کا اصل مقصد ہوگا۔
     جب سے نریندر مودی ملک میں برسر اقتدار آئے ہیں مسلمانوں کیلئے ماحول زہر آلود ہے۔ اس ماحول کو اس قانون کے ذریعے مزید زہر آلود بنانا چاہتے ہیں۔ امیت شاہ این آر سی اور سی اے بی کے ذریعے مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور نریندر مودی ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے نعرے 2014ء سے لگا رہے ہیں۔2019ء میں دوبارہ جیت کر آئے تو اس نعرے میں ’سب کا وسواس‘ بھی جوڑ دیا۔ مگر یہ نعرہ پہلے بھی بے معنی اور بے مطلب تھا اور اس وقت بھی بے معنی اور بے مطلب ہے۔ مسلمانوں کو پریشان کرکے ان کو غیر شہری بنانے کی مہم چلاکر آخر کیسے وہ مسلمانوں کا اعتماد اور وسواس حاصل کریں گے۔ 
    انگریزی کالم نویس تَولین سنگھ، سنگھ پریوار اور مودی کی شروع دن سے جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے تعریف کیا کرتی ہیں، لیکن شہریت ترمیمی بل کے بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بہت برے دن آنے والے ہیں اور مسلمانوں کو ایک طرح سے دہشت گردی کی طرف یہ جوڑی دھکیلنے میں مصروف عمل ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون "Citizenship legally weaponised"  (شہریت کو قانوناً ہتھیار سے لیس کرنے کی مہم) کے آخر میں لکھتی ہیں:
    "What disturbs me most about this law is that it could be a harbinger of very bad times. With the second largest Muslim population in the world

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے