اجودھیا میں غم و اَلم کا خاموش ماحول بوڑھے روتے ہوئے، جوان تسلی دیتے ہوئے

 عبدالعزیز

”تمہارا شہر، تم ہی مدعی، تم ہی منصف …… ہمیں یقین تھا ہمارا ہی قصور نکلے گا!“
    راقم کا تعلق فیض آباد کے گاؤں سے ہے جہاں سے اجودھیا 50/60 کیلو میٹر پر واقع ہے۔ اجودھیا اور فیض آباد دونوں جڑواں شہر ہے۔ فیض آباد شہر کے مقابلے میں اجودھیا شہر بہت چھوٹا سا شہر ہے جس کو قصبہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ یہاں سیکڑوں مندر ہیں۔ ہر ایک اپنے مندر کو ’رام مندر‘ کہتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ یاتری ان کے مندر میں آئیں اور وہ اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ یہاں ریلوے اسٹیشن بھی ہے اور بزرگوں کے مزارات بھی ہیں۔ بہت سی تاریخی چیزیں بھی ہیں۔ بابری مسجد کے اندر 21/22دسمبر 1949ء کی درمیانی رات کو چند شرپسندوں نے مورتی رکھ دی اور یہ افواہ پھیلا دی کہ زمین کے اندر سے بھگوان رام کا ظہور ہوا ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ کی مدد سے مسجد کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ یہاں سے قانونی ظلم کی شروعات کی گئی۔ دوسرا ظلم مسجد کا دروازہ کھول کر پوجا پاٹ کی اجازت ہے۔ تیسرا بڑا ظلم جس کو ظلم عظیم کہنا چاہئے، 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت ہے۔ چوتھا سب سے بڑا ظلم جو مسجد کے گرانے سے کسی طرح بھی کم بڑا ظلم نہیں ہے بلکہ بعض لحاظ سے اس سے بھی بڑا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسجد گرانے والوں کو بطور انعام مسجد کی جگہ سونپ دی گئی تاکہ وہاں پر وہ رام مندر کی تعمیر کرسکیں۔ سپریم کورٹ کے مشہور وکیل مسٹر کلیشورم راج نے صحیح کہا ہے کہ اس فیصلے سے جہاں دستور، قانون کی حکمرانی اور سیکولرزم کو صدمہ پہنچا ہے وہیں ایک طبقہ یا فرقہ یا سوسائٹی زندگی بھر بے چینی اور اضطراب میں مبتلا رہے گی۔ 
    فیصلہ آنے سے پہلے اجودھیا میں جہاں بابری مسجد واقع تھی ہندوؤں اور مسلمانوں سے ٹی وی چینلوں کی طرف سے وہاں کے باشندوں سے انٹرویو لیا جارہا تھا۔ ہندو مسلمان سب کی طرف سے دو باتیں کہی جارہی تھیں، ایک بات تو یہ کہی جارہی تھی کہ اجودھیا کا ماحول فیصلہ آنے کے بعد بھی پرامن رہے گا۔ یہاں جو بھی گڑبڑی ہوتی ہے وہ اجودھیا کے باشندوں کے ذریعے نہیں ہوتی بلکہ باہر سے جو لوگ گڑبڑی کرنے اور فساد برپاکرنے کیلئے بھیجے جاتے ہیں ان کے ذریعے ہوتی ہے۔ اگر پولس باہر کے لوگوں کو اندر آنے نہیں دے گی تو اجودھیا میں کسی قسم کا فساد برپا نہیں ہوگا۔ اجودھیا کے لوگوں کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی۔ دوسری بات یہ کہی جارہی تھی مسلمانوں کی طرف سے اور ہندوؤں کی طرف سے بھی کہ فیصلہ جو بھی آئے گا وہ قابل تسلیم ہوگا۔ بات جو مسلمانوں کی طرف سے کہی گئی تھی اس پر مسلمان قائم تو ضرور رہے لیکن جیسے ہی فیصلہ آیا لوگ حیرت میں ڈوب گئے اور ماحول غم زدہ ہوگیا۔ لوگوں میں بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ اجودھیا کی حالت کشمیر کے اسٹائل جیسی ہوگئی۔ لوگ اپنے گھروں میں از خود بند ہوگئے۔
     انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار پیوش سریواستو نے اپنے اخبار کو رپورٹ دی ہے کہ پولس والوں کو ایک گروپ اجودھیا کے مسلم باشندوں سے جاکر ملاقات کی اور انھیں اکسایا کہ وہ جلوسِ محمدیؐ نکالیں۔مسلم باشندوں نے کہا کہ دفعہ 144 لگا ہوا ہے جس میں چار آدمیوں کے اکٹھا ہونے پر ممانعت ہے لیکن آپ ہم لوگوں کو قانون شکنی پر اکسا رہے ہیں۔ معاملہ کیا ہے؟ پولس والوں نے کہا کہ تم لوگوں کا تہوار ہے اس لئے تم لوگ تہوار منا سکتے ہو۔ مسلم باشندوں نے پولس کی ترغیب کو پسند نہیں کیا اور ان کی چال میں آنے سے انکار کردیا۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ پولس کا ایک طبقہ جو فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ فساد برپا ہوجائے تاکہ مسلمانوں کو پریشان کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اچھا ہوا کہ مسلمان پولس کی شاطرانہ چال میں نہیں آئے۔ ”ہندی ساکیٹ ڈگری کالج اجودھیا‘ کے پروفیسر انیل کمار سنگھ نے نامہ نگار کو بتایا کہ مسلمان بے چارگی کے احساس میں مبتلا ہیں۔ اجودھیا کے مسلمانوں میں خوف، غم اور غصہ ہے۔ وہ ایک لفظ بھی نہیں بول رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے آپ کو لاچار اور مجبور محسوس کررہے ہیں۔ اگرچہ سڑکوں پہ امن و امان ہے لیکن مسلمانوں کے دلوں میں زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ مسلمان یہاں جو زبان نہیں کھول رہے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ چپے چپے پر پولس تعینات ہے۔ اس نے کہاکہ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ رات میں صرف بچوں نے کھانا کھایا، بڑوں نے کھانا تک نہیں کھایا۔
     نامہ نگار مذکور نے لکھا ہے کہ سنیچر کی رات کو اجودھیا میں ہندو نوجوانوں کی ایک ٹیم ادھر ادھر چکر لگاتی رہی اور جس کو بھی مشکوک انداز میں پایا اس سے پولس کو باخبر کیا۔ پولس کا کہنا ہے کہ ایسے پچاس لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کا تعلق مسلم فرقے سے تھا اور اتوار کے دن انھیں رہا کر دیا گیا۔ ایک ہندو نوجوان نے کہا کہ سنیچر کی رات پر امن طریقے سے گزر گئی، آنے والی رات کیسی ہوگی کہنا مشکل ہے۔ اس لئے ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پر امن ماحول قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ہم لوگوں نے پولس کو الرٹ رکھا ہے دو آدمیوں کی سرگرمیوں سے۔ ان میں سے ایک شخص گھر کے اوپری حصے سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ فیصلے سے ہم لوگ خوش نہیں ہیں۔ ایک نوجوان لڑکا کہہ رہا تھا کہ میرا کسی تنظیم سے تعلق نہیں ہے مگر پر امن ماحول کی برقراری کیلئے میں کوشش کر رہا ہوں۔ نامہ نگار کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ پولس ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں پر نگرانی کرنے کیلئے تعینات کرتی ہے او ریہی نوجوان دشمنی و عناد کا بدلہ لینے کیلئے مخبری کا کام کرتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کرنے میں پولس کی مدد کرتے ہیں۔ یوپی، بہار میں پولس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ فرقہ پرستی میں رنگا ہوا ہے۔
     ’دی ٹیلیگراف‘ کے سینئر نامہ نگار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ”جامع مسجد دہلی کے قریب کے ایک باشندہ محمد قربان نے بتایا کہ وہ رات بھر بے چین رہے اور انھیں نیند نہیں آئی۔ 67 سالہ الیکٹریشین نے کہاکہ آج فجر کی نماز مسجد میں جاکر پڑھی اور اللہ سے بابری مسجد کے حق میں فیصلہ آنے کی دعا کی، لیکن ساڑھے دن بجے دن میں فیصلہ سن کر مایوسی اور بے اطمینانی بڑھ گئی۔ 27سال پہلے ہم لوگوں نے ٹیلی ویژن پر بابری مسجد کی ایک ایک اینٹ کو اکھیڑتے ہوئے اور گراتے ہوئے دیکھا۔ قربان اپنے گھر کے باہر تین دوستوں کے ساتھ پڑوسیوں کے ہجوم میں یہ کہہ رہا تھا۔ ہم لوگ ستائیس سال تک حق و انصاف کے انتظار میں تھے لیکن ستائیس سال کے بعد ناانصافی اور حق تلفی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وہ زار و قطار رونے لگا۔ ماضی کی ایک ایک بات اسے یاد آنے لگی۔ روتے ہوئے اردو کا ایک شعر سنایا  ؎ ”تمہارا شہر، تم ہی مدعی، تم ہی منصف …… ہمیں یقین تھا ہمارا ہی قصور نکلے گا!“ اس کے دوست سبحان اور عالمگیر غم و الم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ قربان کو روتے ہوئے دیکھ کر اس کے ایک دوست نے اپنے گلے سے چمٹالیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے محمد سلمان جو ’بی اے‘ میں پڑھتا ہے وہ اس وقت پیدا ہوا جب بابری مسجد کا انہدام ہوا۔ اس نے کہاکہ آپ مہربانی کرکے سوچئے کہ اگر فیصلہ ہم لوگوں کے حق میں ہوا ہوتا تو پورے ملک میں فسادات کی آگ لگ جاتی۔ اچھا ہوا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوا اور ہم لوگ محفوظ ہیں۔ اس کا ایک دوست جو ’ایم بی اے‘کر رہا ہے اس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے عرصہ دراز کا ایک تنازعہ ختم کرکے اچھا کیا۔ اگر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آتا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت مسجد بننے دیتی۔ صرف مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا۔ قربان ان نوجوانوں کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوا۔ اس طرح دو نسلوں کا گیپ پورے طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ یہ بھی آپس میں بحث ہورہی تھی کہ مسجد کیلئے پانچ ایکڑ زمین لینا چاہئے کہ نہیں؟ فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دینی چاہئے کہ نہیں؟ 
    ایک اسکول ٹیچر اکرم علی نے کہاکہ معاملے کو یہیں ختم کر دینا چاہئے۔ پیچیدگی بڑھانے سے مسلمانوں ہی کا نقصان ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تعلیمی اور معاشی حالت کو درست کریں اور مسجد اور مندر کے مسئلے میں نہ پڑیں۔ اکرم نے کہاکہ ہندو مسلمان عام طور پر خیرسگالی اور دوستانہ ماحول میں اہتے ہیں لیکن بی جے پی کی مندر والی سیاست سے دونوں فرقوں میں مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ جب مسجد کا انہدام ہوا تھا تو سارے علاقے میں کرفیو نافذ ہوگیا تھا اور بہت دنوں تک تجارت ٹھپ ہوگئی تھی۔ اب ہم لوگ پر امن ماحول میں ہیں۔ اچھا ہوا عدالت نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مسئلے کو دفن کردیا۔ روی چڈھا نے جو الیکٹرونک سامانوں کے ہول سیل تاجر ہیں کہاکہ دو فرقوں میں انتخابی اور سیاسی فائدے کیلئے سیاستداں لڑائی جھگڑا لگاتے ہیں۔ نئی نسل پڑھ لکھ چکی ہے اور ان کے خفیہ ایجنڈے کو خوب سمجھتی ہے۔ اب ہم لوگوں کو آگے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ وقت زخموں کے مندمل کافی ہوتا ہے“۔
    انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کے دو نامہ نگاروں نے اجودھیا اور دہلی کی جامع مسجد کے قریب بسنے والے مسلم نوجوانوں اور عمردراز لوگوں کی جو رپورٹ پیش کی ہے اس سے ملے جلے رد عمل کا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ ماحول خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ اور یہ ماحول دن بدن خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ ماحول کی خرابی سے مسلمان اگر مایوس ہوتے ہیں اور اپنی بے چارگی و لاچاری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک آبرومندانہ اور باعزت زندگی جینے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس ملک میں ایک دستور ہے، آئین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کو پامال کیا جارہا ہے لیکن دستور میں جو شہری حقوق درج ہیں اس کی برابری کیلئے جدوجہد کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ سارے جمہوری ادارے ایک ایک کرکے پامال کر دیئے گئے ہیں۔ ان کو بحال کرنا ضروری ہے۔ مسلمان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ان کی زندگی خطرے میں ہے تو یہ انتہائی غلط ہے۔ حقیقت میں ملک خطرے میں ہے، ملک کا نظام خطرے میں ہے، ملک کا دستور خطرے میں ہے، انسانیت خطرے میں ہے۔اس کو بچانے کیلئے ہندو بھائیوں کے ایک بہت بڑے طبقے میں جان باقی ہے۔ ان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ان کی جان کا خطرہ ہے پھر بھی وہ حق گوئی سے باز نہیں آرہے ہیں۔ بعضوں کی جان بھی چلی گئی اس کے باوجود اس طبقے میں جان باقی ہے۔ 
    مسلمان جو اپنے آپ کو حق پرست کہتے ہیں، اہل ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر وہ بزدل ہوجاتے ہیں اور جد و جہد کے بجائے محض اپنے کھانے پینے اور اپنے آپ کو بچانے میں سمٹ جاتے ہیں تو ایک آبرومندانہ زندگی نہ گزار سکتے ہیں اور نہ ماحول کو بہتر بناسکتے ہیں اور نہ ملک کو خطرے سے باہر نکال سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ انصاف پسند، حق پسند اور صاف ذہن شہریوں سے مل کر ملک کے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور آئین و دستور کو مزید پامالی سے بچانے کیلئے آگے آئیں۔ ہماری سوسائٹی میں جو نوجوان ہیں انھیں کنہیا کمار جیسے نوجوانوں سے سبق لینا چاہئے۔ اور جو لوگ عمر دراز ہیں انھیں آئی پی ایس، آئی اے ایس، ریٹائرڈ آئی پی ایس اور آئی اے ایس اور ریٹائرڈ جج اور جسٹس جو حق گو اور حق پسند ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔ 
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے)
12نومبر2019(فکروخبر)

 

«
»

ساگ میں صحت

مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریر سازی میں مدارس کا کردار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے