بی جے پی کو بریک….. مگر

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

مہاراشٹرا‘ ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج توقع کے مطابق بھی ہیں اور غیر متوقع بھی۔ بی جے پی کی سرکار کا سبھی کو اندازہ ہے‘ شیو سینا سے اتحاد سے اس کی طاقت میں اضافہ کی امید تھی۔ ہریانہ میں بھی یہی امید تھی کہ کانگریس کا صفایا ہوجائے گا۔ ایسا نہیں ہوا! کانگریس بالکل اسی انداز میں اٹھی ہے‘ جس طرح سے اکثر بالی ووڈ فلموں مین دم توڑتے ہوئے ہیروز‘ ماں کی آواز یا کبھی محبوبہ کی صدائیں سن کر اٹھ بیٹھتے ہیں اور پھر دیلن کی خوب دھلائی کرتے ہیں۔ تھیٹر کے اسکرین کے قریب بیٹھنے والے فلم بین سیٹیاں اور تالیاں بجانے لگتے ہیں۔
اگزٹ پول‘ سیاسی پنڈت بھی غلط اور یہ الزامات اور دعوے بھی بے بنیاد ثابت ہوئے کہ ای وی ایم میں بڑے پیمانہ پر گڑبڑ کی گئی تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں کے حق میں اتنے ووٹ نہ پڑتے۔
یہ انتخابی نتائج دراصل گزشتہ سال کے پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کا تسلسل ہے۔ اگرچہ کہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی جیت ہوئی ہے مگر اس جیت میں شکست کے عنصر پنہاں ہیں۔ جموں کشمیر میں دفعہ 370 کی برخواستگی‘ این آر سی کی آڑ میں مسلم مکت بھارت کے پروپگینڈہ کا خاطرخواہ اثر نہیں ہوا۔ سمجھا تو یہی جارہا تھا کہ جس طرح پلوامہ حملہ کا اثر الیکشن 2019ء پر ہوا‘ اسی طرح دفعہ 370 اور این آر سی کے اثرات بی جے پی کے حق میں ہوں گے مگر لگتا ہے‘ مشن چندراین کی ناکامی کا اثر کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ ورنہ بی جے پی اور شیوسینا مل کر تو مہاراشٹرا میں صفایا کرسکتے تھے۔ اس اتحاد کے خلاف کانگریس‘ این سی پی اتحاد زیادہ کامیاب رہا۔ اگرچہ کہ وہ حکمراں نہیں بلکہ ایک طاقتور اپوزیشن کے طور پر ابھرے ہیں۔ مہاراشٹرا میں ٹھاکرے خاندان کے پہلے سپوت آدتیہ ٹھاکرے نے شیوسینا کے امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔ ٹھاکرے خاندان ہمیشہ حلیف جماعتوں کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔ آج کا اتحاد آنے والے چند مہینوں میں انتشار ثابت ہوسکتا ہے۔ آدتیہ ٹھاکرے نے آنکھ کھولی تو اپے دادا کو مہاراشٹرا کے بے تاج بادشاہ کے طور پر دیکھا‘ کارکنوں کو اور دوسری جماعتوں کے قائدین کو اپنی دھلیز پر ماتھا ٹیکتے دیکھا۔ خوشامدیوں نے ان کو بھی نہیں چھوڑا ہوگا۔ جس ماحول میں وہ پروان چڑھے اس کی وجہ سے انہیں عادت ہوگی کہ اپنے حلیفوں پر حکم چلائیں۔ بی جے پی قیادت ان کے ناز نخروں‘ حاکمانہ انداز کو کب تک برداشت کرتی رہے گی‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔مہاراشٹرا میں مسلم اور سیکولر دونوں کی تقسیم نہ ہوتی تو شاید نتائج اور بھی اچھے ہوتے۔ ویسے مختلف جماعتوں سے دس مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین کے وارث پٹھان کو شکست ہوئی۔ تاہم دھولیہ سے ڈاکٹر فاروق شاہ انور کی کامیابی سے وقار برقرار رہا۔ اورنگ آباد میں مسلم انتشار کا مظاہرہ کیا گیا۔ دو امیدوار کامیابی کے قریب آکر ہار گئے۔ ویسے کشن گنج‘ بہار سے قمر الہدیٰ کی کامیابی مجلس کا شمالی ہند میں کامیابی کا پہلا قدم ہے۔بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اس کامیابی کا سہرا مجلس  اتحاد المسلمین بہار یونٹ کے صدر اختر الایمان کے سر باندھا جنہوں 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں اسرار الحق قاسمی مرحوم کے لئے قربانی دیتے ہوئے خود پارلیمانی الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا اور اس کا صلہ انہیں یہ ملا تھا کہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے انہیں ساتھ نہیں دیا تھا۔ اختر الایمان ایک بہترین قائد ہیں۔ سیمانچل کے مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ سیمانچل کا حال کالے پانی جیساہے۔ یہاں بہنے والی کوسی ندی کی وجہ سے فضاء میں ہمیشہ رطوبت رہتی ہے جس کی وجہ سے یہاں مختلف امراض پائے جاتے ہیں اور زیادہ تر مسلمان اسی کے شکار رہتے ہیں۔ قمرالہدیٰ کی کامیابی کو ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جارہا ہے۔ مجلس یہاں کافی مقبول ہے۔ آنے والے برسوں میں یقینا اس کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ ایوان اسمبلی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مجلس کا ایک بھی رکن ہو تو وہ اپنے وجود کا احساس دلا تا ہے جیسا کہ آندھراپردیش اسمبلی میں ایک طویل عرصہ تک جناب صلاح الدین اویسی اور 1994ء میں بیرسٹر اسد الدین اویسی واحد رکن اسمبلی ہوا کرتے تھے۔ امید ہے کہ قمر الہدیٰ مجلس اور مسلم وقار کے پرچم کو سربلند کریں گے۔ ویسے مجلس کی کامیابی این ڈی اے کو ایک زبردست دھکا ہے۔ اترپردیش میں رامپور اسمبلی حلقہ سے تزئین فاطمہ کی کامیابی اعظم خان کی شخصی کامیابی ہے جنہیں بی جے پی حکومت آنے کے بعد مختلف طریقوں سے پریشان کیا جارہا ہے۔ جن کی قائم کی گئی مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کو ایک منظم سازش کے تحت ختم کردیا گیا۔ یہاں کے ساز و سامان کو ایک طرح سے لوٹ لیا گیا۔ 
بی جے پی بھلے ہی حکومت بنالے مگر اسے ہریانہ میں بھی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ چوٹالہ کی مدد سے بی جے پی کی حکومت بن جائے گی مگر کئی ہیوی ویٹ سیاستداں ہار گئے۔ ٹک ٹاک گرل ہو یا فلم دنگل جس پر فلمایا گیا‘ ببیتا پھوگٹ‘ کئی منسٹرس بھی ہار گئے۔ حالانکہ مودی اور شاہ نے ہریانہ کے عوام بالخصوص کسانوں کو لبھانے کی کافی کوششیں کیں۔مودی نے کئی ریالیاں نکالیں‘ خطاب کیا‘ وعدہ کیا کہ ہندوستان کی دریاؤں کا پانی جو پاکستان میں بہہ رہا ہے اسے ہریانہ کے کھیتوں کی سیرابی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔شاید کسانوں کی اکثریت نے جن میں جاٹ بھی ہیں اس مرتبہ مودی کے وعدوں پر اعتبار نہیں کیا کیونکہ انہیں یاد ہے کہ گزشتہ انتخابات میں مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ کسانوں کے بینک کھاتوں میں 15 پندرہ لاکھ روہے جمع ہوجائیں گے۔ 15 لاکھ تو کیا جمع ہوتے رہی سہی پونجی بھی پنجاب نیشنل بینک کے دیوالیہ کے نذر ہوگئی۔ 
مہاراشٹرا اور ہریانہ  اسمبلی انتخابات کے ساتھ سات 17 ریاستوں میں ضمنی انتخابات کے نتائج بھی سیکولر عوام کے لئے مایوس کن نہیں ہیں۔ اترپردیش میں دس میں سے چھ نشستیں بی جے پی نے‘ تین سماج وادی پارٹی نے اور ایک اپنا دل نے جیتی ہے۔ بی جے پی نے سکم میں بھی دو‘ مدھیہ پردیش کی جھبوا حلقہ سے کامیابی حاصل کی۔ کانگریس نے پنجاب میں تین اور پوڈوچیری کی نشست پر قبضہ کیا۔ کیرالہ میں کانگریس‘ سی پی (ایم) اور مسلم لیگ کو کامیابی ملی۔ آسام جہاں مسلمانوں کے لئے جینا حرام کردیا گیا۔ این آر سی کی آڑ میں جنہیں پریشان کیا جارہا ہے‘ وہاں سے بدرالدین اجمل کی آل انڈیا یونائیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے امیدوار ڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی کامیاب ہوگئے۔ یہ اجمل صاحب کے حوصلے بڑھانے کے لئے کافی ہے۔ کیرالہ میں بی جے پی کا ایک ایم ایل اے تھا‘ اس مرتبہ وہاں کے عوام نے اسے دھتکار دیا ہے۔ کیرالہ سے دو مسلم امیدوار کامیاب ہوئے۔ عثمان کانگریس کے ٹکٹ پر اور قمر الدین مسلم لیگ کے ٹکٹ پر جبکہ سی پی ایم کے وی کے پرسانت نے ایک نشست حاصل کرلی۔ بی جے پی کی بڑھتی طاقت‘ اور اس کی لہر‘ بلند بانگ دعووں سے متاثر ہوکر بعض موقع پرست قائدین نے اس میں شمولیت اختیار کرلی تھی مگر مودی اور امیت شاہ کے وطن گجرات میں ان پارٹی بدلنے والے امیدواروں کو عوام نے مسترد کردیا۔ ان میں الپش ٹھاکر بھی ہیں جو کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ جس سے عوام کے مزاج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
تلنگانہ میں حضور نگر اسمبلی حلقہ سے کانگریس کی کامیابی کی امید کی جارہی تھی کیونکہ انتخابات جس ماحول میں ہوئے اس سے ٹی آر ایس کے خلاف عوامی ناراضگی کا اندازہ ہورہا تھا۔ آر ٹی سی ہڑتال‘ بعض اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی‘ کئی اور مسائل کی وجہ سے ایسا لگتا تھا کہ عوام اس مرتبہ ٹی آر ایس کے خلاف فیصلہ کریں گے اور کے سی آر کو سبق سکھائیں گے‘مگر توقعات کے برعکس ٹی آر ایس امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ کانگریس جس نے دوسری ریاستوں میں بہتر مظاہرہ کیا‘ جانے کیوں تلنگانہ میں ناکام رہی۔ 
انتخابی نتائج سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر ہندوستانی محض پروپگنڈہ سے متاثر نہیں ہوسکتا۔ہر شہری جذباتی نہیں ہوتا۔ ہر ووٹر کے مذہبی جذبات کا استحصال ممکن نہیں۔ ہندوستانی عوام زمینی حقائق سے واقف ہونے لگے ہیں۔ انہیں ملک کی تیزی سے تباہ ہوئی معیشت کا اندازہ ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نوجوان طبقہ میں بے چینی پیدا کردی ہے۔ مندرکی تعمیر‘ پاکستان پر حملہ‘ کشمیر کے حالات یہ سب اپنی جگہ پر ہے‘ اس سے کسی کی بھوک مٹائی نہیں جاسکتی نہ غربت ختم ہوسکتی ہے۔ اس لئے بی جے پی اور اس کی قیادت کو بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مذہبی جنون‘ فرقہ واریت کے اثرات زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتے۔ حکومت کو اب ان اقدامات پر توجہ دینی چاہئے جن سے ہندوستان کا سابقہ وقار‘ معاشی موقف‘ سیکولر کردار بحال ہوسکے۔ انتخابی نتائج چشم کشاء ہیں۔ انہیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔
جہاں تک کانگریس اور دوسری جماعتوں کا تعلق ہے‘ ان کے لئے یہ نتائج وینٹی لیٹر سے واپسی کے مماثل ہیں۔ یہ بہتر موقع ہے کہ وہ حکمراں جماعت پر تنقید‘ اس کی خامیوں کو گنوانے پر توانائی ضائع کرنے کے بجائے اپنی کھوئی ہوئی توانائیوں کو بحال کرے۔ بکھرے ہوئے کارکنوں‘ ناراض قائدین کو دوبارہ اپنے دھارے میں واپس لائے۔ اس بات کا جائزہ لے کہ وہ کونسی کمزوریاں ہیں جس نے اسے اقتدار سے دور رکھا۔اب بھی وقت ہے کہ وہ ”جہاں جاگے وہیں سویرا“ کے مصداق ایک نئی شروعات کرے۔ پارٹی میں جو باصلاحیت‘ وفادار ارکان ہیں انہیں ان کا مستحقہ مقام دیا جائے۔ 
سماج وادی پارٹی‘ بہوجن سماج پارٹی کی اصلیت سامنے آچکی ہے۔ وہ کس حد تک سیکولر ہیں‘ کس حد تک مفاد پرست‘ یہ ثابت ہوچکا ہے۔ انہیں بھی اپنی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ 
مجلس اتحاد المسلمین بلاشبہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اندیشوں‘ وسوسوں‘ الزامات کے باوجود بیرسٹر اسد اویسی نے قومی سطح پر اپنی جماعت کی علیٰحدہ پہچان بنائی اور خود مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر تسلیم کرلئے گئے ہیں۔ جو بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں یا پھیلائی جاتی ہیں اسے دور کرنا چاہئے کیونکہ بدگمانی سے محفوظ رکھنا بھی سنت نبویؐ ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

نبی اکرمؐ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام

انصاف کے مندر میں ایک تاریخی مسجد کا کیس کیا سچائی دیکھ پائے گااندھاقانون؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے